فقیرنیاں بڑا اچھا ڈرامہ کرتی ہیں



دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ اسی دوران اس کے امتحانات بھی ہوگئے اور کچھ دنوں کے لیے صبح کا وقت فارغ مل گیا۔ بسمہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خود میں مزید خود اعتمادی محسوس کرتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ مسئلوں سے بھاگنے کی کوشش کرتی تھی۔ اور اب مسئلے کا سوچ سمجھ کے سامنا کرنے لگی تھی۔ اسے کم از کم یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ مسئلوں سے نظریں چرانے سے مسئلے کبھی حل نہیں ہوتے۔ نہ کسی اور پہ اپنی ذمہ داری ڈال دینے سے حل ہوتے ہیں۔

گھر کا نظام کافی حد تک ایک ڈگر پہ آ گیا تھا۔ فوزیہ بھابھی دن میں نیچے آجاتی تھیں تھوڑابہت کام کرنے میں امی کی مدد کردیتی تھیں۔ بسمہ کی کوشش تھی کہ امی کو ان پہ غیر ضروری نکتہ چینی سے روکے رکھے۔ امی بہت بار ان کی غلطی درگزر کر بھی جاتیں مگر دادی انہیں فرمانبردار قسم کی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں کہ وہ ان کے گھرانے کی ترکیبوں سے کھانے پکائیں ان کے مقرر کیے ہوئے وقت پہ سوئیں جاگیں ان کی مرضی کے کپڑے پہنیں۔

بسمہ کو یہ بھی اندازہ تھا کہ دادی کی عمر میں اب انہیں سمجھایا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں اسے بھابھی سے ہی ڈسکس کرنا زیادہ موزوں لگا۔ دادی سے بحث نہیں کی جاسکتی تھی مگر اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ بھابھی اپنے حق چھوڑ دیتیں۔ بسمہ کو آسان طریقہ یہ لگا کہ بھابھی کی دوست بن جائے دادی یا امی کی کوئی بات بری لگے تو وہ بسمہ سے کہہ کر دل ہلکا کر لیں۔ اسے پتا تھا کہ ایک دفعہ چھوٹی بحث بھی جھگڑے میں بدل گئی تو آپس کی جھجک اور لحاظ ختم ہو جائے گا۔

مگر ساتھ ہی اس نے دادی اور امی کو مختلف طریقوں سے مطمئن کرنے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔ اب بس ایک بڑا مسئلہ رہ گیا تھا اسد کا۔ اسے اتنے بے جا لاڈ کا عادی بنا دیا گیا تھا کہ اب وہ کسی کی کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ بسمہ کی شادی جتنے عرصے رہی اتنے عرصے میں اسد اور باقی گھر کے چاروں بڑوں کے درمیان تعلقات بری طرح کشیدہ ہوگئے تھے۔ انہیں ایک دم سے خیال آ گیا تھا کہ اسد بہت بگڑ گیا ہے اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ہی اس پہ بار بار تنقید شروع کردی گئی جب کہ اسے گھر میں آنے والی تبدیلی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور بھائی سمیت سب چاہ رہے تھے کہ ایک لیکچر کے بعد وہ ذمہ داری میں قائد اعظم ہو جائے۔ اب اسد کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ ہروقت جارحانہ موڈ میں ہوتا تھا۔ عموماً گھر سے باہر رہتا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد بسمہ اس نتیجے پہ پہنچی کہ گھر میں ایسا تھا ہی کیا جس کی وجہ سے وہ گھر میں رکتا، سوائے ڈانٹ پھٹکارکے۔

بسمہ کو پتا تھا کہ اسے سائنس کی کتاب میں موجود ہر ایکسپیریمینٹ خود کرنے کا شوق تھا۔ اسے تھیوریز یاد ہوں یا نہ ہوں مگر ہر ایکسپیریمنٹ جس کی چیزیں اسے گھر میں مل سکتی تھیں وہ ضرور کر کے دیکھتا تھا۔ باقی سبجیکٹس میں وہ بس اللہ آسرے پاس ہوتا تھا۔ جب تک ابو کی جاب تھی تو اسے جو بھی سامان چاہیے ہوتا تھا ابو کوئی سوال جواب کیے بغیر اسے پیسے دے دیتے تھے۔ مگر اب بحث زیادہ ہوتی تھی اور پیسے کم دیتے تھے اب انہیں اس کا یہ شوق پیسے کا زیاں لگتا تھا۔

اب بھی جب دل چاہتا تھا تو وہ اپنی فزکس یا کیمسٹری کی کوئی کتاب میں سے یا نیٹ سے دیکھ کر کچھ نہ کچھ آزماتا ضرور تھا۔ ایک دن اسی طرح وہ کچھ سامان جمع کر کے فزکس کے کسی رول rule کے بارے میں تجربہ کر رہا تھا۔ بسمہ بالکل عام سے انداز میں اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ اس نے موبائل وڈیو آن کر لی جیسے مذاق میں رکارڈنگ کر رہی ہو

”جی جناب سائنٹسٹ صاحب آپ بتائیں گے کہ آپ کون سا تجربہ کر رہے ہیں اور اس میں کیا کیا اپریٹس ( تجرباتی آلات) استعمال کر رہے ہیں؟“

اسد نے اپنا کام کرتے کرتے ذرا سا سر اٹھایا۔ بسمہ کی شریر مسکراہٹ سے وہ بھی یہی سمجھا کہ وہ مذاق میں رکارڈ کر رہی ہے۔ اس نے پورے تجربے کی پوری تفصیل بتانی شروع کردی۔ وہ تجربہ کرتا بھی جا رہا تھا اور اس کی وضاحت بھی کرتا جا رہا تھا۔

رات میں بسمہ نے سائنٹسٹ بھائی کے نام سے ایک یوٹیوب چینل بنایا اور وڈیو اپ لوڈ کردی۔ اب اسے انتظار تھا کہ لوگوں کا کیا ریسپونس ملتا ہے۔ ایک دو دن ایسے ہی گزر گئے کوئی خاص ویوز نہیں آئے۔ مگر چار دن بعد ایک دم سے وڈیو وائرل ہوگئی۔ بسمہ کو بھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ جس فزکس کے روول کا عملی نمونہ اسد نے کرکے دکھایا وہ کافی مشکل کانسیپٹ تھا اور عموماً اسٹوڈنٹس اسے کافی سرچ کرتے تھے مگر انگلش وڈیوز انہیں زیادہ سمجھ نہیں آتی تھیں۔

اسد کی وڈیو نے ان کا مسئلہ حل کر دیا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر 1000 سے زیادہ ویوز اور کئی لائکس مل گئے۔ بسمہ نے اسد کو بتانے کی بجائے فیس بک پہ اپنے پروفائل سے وہ وڈیو شیئر کی اور اسد کو ٹیگ کر دیا۔ اسد گھر آیا تو موڈ خوشگوار تھا مگر کچھ بولا نہیں۔ کچھ سامان لے کر بیٹھ گیا۔ بسمہ دوبارہ موبائل لے کر پہنچ گئی۔

”سائنٹسٹ بھائی! وڈیو بناؤں؟“

”پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ وڈیو یوٹیوب پہ ڈالو گی۔ اگر غلط تھیوری بتا دیتا تو اچھی خاصی بیستی ہوجانی تھی۔“

”بچو اتنی سائنس مجھے بھی آتی ہے، کانسیپٹ صحیح تھا اسی لیے اپ لوڈ کی بتایا اس لیے نہیں کیونکہ میرا بھی تکہ تھا چل گیا تو چل گیا۔“

اسد نے تجربہ شروع کیا بسمہ نے ریکارڈنگ، مگر آج اسد جھجک رہا تھا۔

”اففو تمہیں بتا کے غلطی کی۔ آرام سے کرو ابھی کون سا ڈائریکٹ نیٹ پہ چلا جائے گا غلط ہوگا تو دوبارہ ریکارڈ کر لیں گے۔“

یہ سن کے اسد کچھ ریلیکس ہوگیا۔ پھر روز ہی کوئی نہ کوئی تجربہ کرنے لگا جو زیادہ اچھا لگتا وہ چینل پہ اپ لوڈ کر دیتے۔ اب اس کی کوشش ہوتی کہ زیادہ وقت گھر پہ گزارے۔ وڈیوز پہ کمنٹس میں اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ بہت سے ٹیچرز بھی اسد کو بہت اپریشئیٹ کر رہے تھے۔ عموماً کا کہنا تھا کہ آپ یقیناً بہت جینئیس ہیں۔ اسد کمنٹس پڑھ کے خوش بھی ہوتا تھا اور آہستہ آہستہ اس کا وقت کتابوں کے ساتھ زیادہ گزرنے لگا۔

اسد خوش تھا مگر امی ابو نہیں ان کے خیال میں بسمہ اسد کو بگاڑ رہی ہے اس کے بے تکے شوق پہ اس کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ بسمہ نے اصل میں یہ وڈیو کا سلسلہ اسد کو باہر کی مصروفیت سے دور کرنے کے لیے کیا تھا مگر غیر متوقع طور پہ اس کا بہت اچھا ریسپونس ملنے لگا مگر بہر حال اسد سے بات کرنے کی ضرورت تھی۔ اسے احساس دلانے کی کہ اسے آگے اپنی اور امی ابو کی ذمہ داری نبھانے کے لیے سوچ سمجھ کے فیصلے کرنے ہوں گے ۔

اب بسمہ اس کے ساتھ نیا تجربہ ریکارڈ کرنے بیٹھتی تو ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی تھی۔ وہ جان بوجھ کے ڈیلی روٹین میں سے وہ باتیں شیئر کرتی جن سے کوئی مثبت نتیجہ نکالا جاسکے اور پھر اس پہ اسد کی رائے پوچھتی تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ اسد کو کوئی لیکچر نہ دے بلکہ صرف ایک سمت دے دے جس نہج پہ سوچ کے وہ اپنے لیے بہتر فیصلہ کرسکے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی۔ چار پانچ ماہ کی اس بات چیت کے بعد اسد میں اتنی تبدیلی آئی کہ امی ابو کو بھی باقاعدہ وہ تبدیلی محسوس ہونے لگی۔

اس دوران بسمہ نے ایک کام یہ بھی کیا کہ وہ ایک گھنٹا پہلے آفس چلی جاتی تھی اور بختاور کی اجازت سے سہیل کو پڑھنے میں مدد دیتی تھی۔ اس نے اسد والا طریقہ ہی سہیل کے ساتھ بھی آزما کے دیکھا۔ مگر سہیل کا بچپن اتنے گھٹن زدہ ماحول میں گزرہ تھا کہ ڈر اس کی شخصیت کا حصہ بن گیا تھا۔ اور یہ ڈر اس کے ہر مسئلے میں اس کے آڑے آتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا سوال حل کرتے میں وہ اتنا ڈرتا تھا کہ جو بات زبانی صحیح بتاتا تھا وہ لکھتا غلط تھا۔

دارلامان والا پروجیکٹ تقریباً اختتام پہ تھا وہاں پہ وہ کئی مستقل رہائش پذیر خواتین کو دو طرح سے ٹرینڈ کرچکی تھیں جو کچھ پڑھی لکھی تھیں انہیں باقی کو پڑھانا سکھا دیا تھا۔ جو ان پڑھ تھیں انہیں ان کے ہنر کا استعمال بھی سکھادیا تھا ساتھ ہی نئی آنے والی خواتین کو سکھانے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ بختاور نے پتا نہیں کیا طریقے استعمال کیے تھے کہ ان کی تنخواہ گورنمنٹ سے دارلامان کے لیے ملنے والے بجٹ میں ہی فٹ کرلی۔ ان میں سے کچھ ان کے شیلٹر ہوم میں شفٹ ہوگئی تھیں جن میں شنو بھی شامل تھی۔ بسمہ کی اس ملاقات ہوتی رہتی تھی اور اب کافی دوستی ہوگئی تھی۔ شنو، فائزہ یا گل بانو جتنی ذہین اور پر اعتماد نہیں تھی مگر پھر بھی کافی سمجھدار تھی اور سب سے اہم بات کہ پرخلوص تھی اور بسمہ کو بس یہی ایک خاصیت چاہیے تھی۔

بختاور اب بسمہ کو اپنے ساتھ پروگرامز میں بھی لے جاتی تھی۔ تاکہ بسمہ اس سمیت دوسرے مقررین کی باتیں بھی سنے اور الگ الگ قسم کے لوگوں سے مل کر انہیں پرکھنا بھی سیکھ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اب بسمہ کو اگلے پروجیکٹ میں بھی ساتھ رکھنا چاہتی تھی جو ویمن امپاورمنٹ سے متعلق تھا۔ بختاور اور باقی مینیجرز پروپوزلز بنا رہے تھے مگر سارے آئیڈیاز پہ ہی پہلے سے دوسری این جی اوز یا تو کافی کام کر چکی تھیں یا کر رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں پراجیکٹ ملنا مشکل ہورہا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پراجیکٹس اصل معنوں میں خواتین کو امپاور نہیں کرپارہے تھے۔ سب این جی اوز کاغذی کارروائیاں کر کے پیسے سمیٹ رہی تھیں۔

ایک دن ایک پروگرام سے واپس آتے ہوئے بختاور بسمہ سے یہی ڈسکس کر رہی تھی۔ سگنل پہ گاڑی رکی تو فقیرنیوں اور ہیجڑوں نے گاڑی بجا بجا کر پیسے مانگنے شروع کر دیے۔ سہیل کو پتا نہیں کیا سوجھی مذاق میں کہنے لگا

”میڈم ان فقیرنیوں اور ہیجڑوں کے لیے کوئی پراجیکٹ ہونا چاہیے۔ آپ کو پتا ہے یہ بڑے اچھے اداکار ہوتے ہیں“ سہیل بختاور اور بسمہ دونوں کے ہی ساتھ اب کافی اعتماد سے بات کر لیتا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں اسے عزت سے مخاطب کرتی تھیں۔

”میڈم آئیڈیا برا نہیں ہے۔ کیوں نہ ان سے اسٹریٹ تھیٹر ٹائپ کروائے جائیں۔ اور ٹاپک یہی روزمرہ میں خواتین کے مسائل ہوں خاص طور سے یہ خود جن مسائل سے گزرتی ہیں۔“

بسمہ نے بھی سہیل کی ہاں میں ہاں ملائی۔

”ہمم یہ آئیڈیا بھی ہو سکتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہو جو ان خواتین کو سکھایا جاسکے جو اسٹریٹ تھیٹر نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں۔“

” مکینک اور ٹیکنیشن کا کام“ سہیل نے دوبارہ اچھوتا مشورہ دیا۔
”سہیل یہ زیادہ ہوگئی اب، یہ تو عجیب آئیڈیا ہے“
بسمہ ہنس دی

” نہیں یہ واقعی سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ گھروں میں عموماً کام پڑے رہتے ہیں کیونکہ دن میں مرد گھر میں نہیں ہوتے اور رات میں مکینک نہیں ملتا۔ غیر مرد کو صرف عورتوں کے گھر میں عموماً بلاتے ہوئے لوگ ہچکچاتے ہیں۔“

”ویلڈ پوائینٹ مگر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت یہ فن سیکھ ہی نہیں سکتیں“ بسمہ نے کہا

”وہ تو جب سیکھ جائیں گی تو ان کا خیال خود ہی رد ہو جائے گا۔ مگر خیال واقعی اچھا ہے۔“ بختاور نے بھی حمایت کی۔

”چلو اب باقی ٹیم کے ساتھ بھی ڈسکس کر کے دیکھتے ہیں اور یہ آئیڈیاز تم لوگوں کے ہیں تو تم لوگ ہی پیش کرو گے۔ اور اگر آئیڈیاز پسند آگئے تو اس پہ مزید کام بھی تم لوگ ہی کرنا۔“

” میڈم مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں یہ بس ایسے ہی سہیل نے کہا ایکٹنگ کا تو میں نے تھوڑا ایڈ کر دیا۔“

”ہمارے ذہن میں بھی ایسے ہی آئیڈیاز آتے ہیں۔ اور ویسے بھی پرانے ذہنوں کی جگہ کبھی نہ کبھی نئے ذہن لیں گے۔ تو بہتر ہے کہ ہم پہلے سے موجود اچھے ذہنوں کو آگے کے لیے تیار کر لیں۔“

وہ لوگ باتیں کرتے جا رہے تھے اس وقت وہ نسبتاً سنسان سڑک سے گزر رہے تھے۔ ایک دم سہیل نے جھٹکے سے بریک لگایا۔ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ دونوں ہی آگے ٹکرائیں۔

”کیا ہوگیا سہیل بیٹا احتیاط سے چلائیں۔“

بختاور نے ٹوکا مگر سہیل نے کوئی جواب نہیں دیا اس کی نظریں باہر تھیں۔ باہر ایک بائیک ترچھی کھڑی ہوئی تھی اس پہ دو لڑکے سوار تھے آگے والے نے شاید بائیک روکتے ہی پسٹل نکال لی تھی جبکہ دوسرا والا اب پسٹل نکال رہا تھا اور بائیک سے اتر کر قریب آ رہا تھا۔ سہیل کا چہرہ دہشت سے سفید پڑ گیا تھا۔ اسٹئیرنگ پہ اس کے ہاتھ باقاعدہ کانپتے نظر آرہے تھے۔ اس لڑکے نے آتے ہی پہلے تو بسمہ اور بختاور کو باہر نکلنے کا کہا اور ان سے موبائل اور کیش مانگا۔

بسمہ اور بختاور وین کی اوٹ میں تھیں اور بائیک والے کو صحیح سے نظر نہیں آ رہی تھیں۔ شاید وہ بھی کوئی نیا تھا اس کا دھیان ان دونوں پہ زیادہ تھا اور سہیل کی طرف کم۔ بالکل لاشعوری طور پہ وہ بائیک سمیت دو قدم پیچھے ہوگیا تھا تاکہ اپنے ساتھی کو سامان چھینتا دیکھ سکے۔ ان سب کی توجہ تب وین کی طرف گئی جب ایک دم ہی انجن اسٹارٹ ہوا اور ہوا کی تیزی سے وین آگے دوڑتی چلی گئی۔ بائیک والے تو جو حیران تھے سو تھے۔ بسمہ حیرت سے بے ہوش ہونے کو تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سہیل انہیں ایسے حالات میں اکیلا چھوڑ جائے گا۔ بسمہ سے تو خیر ڈیڑھ سال کی جان پہچان تھی بختاور سے تو اس کا چھ سال پرانا تعلق تھا وہ بھی احسان مندی کا۔ جتنا احترام وہ بختاور کا کرتا تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایسے دھوکا دے جائے گا۔

 (جاری ہے)

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےنچلے درجے کے ملازم کیا برابر لیبر رائٹس نہیں رکھتے؟ قسط نمبر چوبیسعورت کی حفاظت نہ کرسکنے والا مرد نہیں؟ (آخری قسط)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima