کیپٹن محمد اقبال سے لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ تک


یہ سن 86 کی بات ہے، اس وقت غالباً میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا، جب فوج سے پہلا بھرپور تعارف ہوا۔ درسی کتابوں میں پڑھتے اور ٹی وی پر فوج کے متعلق دیکھتے آئے تھے لیکن یکایک ہمارے چھوٹے سے گاؤں کی فضائیں ایک شہید کے نام سے گونج اٹھیں۔ گاؤں کا ایک دلیر سپوت وطن کی مٹی پر قربان ہو گیا تھا۔ سیاچین کی برف پوش چوٹیوں سے سرفروشی کی یہ داستان پاکستان آرمی کے ذریعے ہمارے گاؤں پہنچی لیکن اس سے پہلے یہ انڈیا پہنچ چکی تھی۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سفید یخ برف کو اپنے گرم خون کی سرخ دھار فراہم کرتا کیپٹن اقبال دشمن پر اپنی دھاک یوں بٹھا چکا تھا کہ دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوا۔

سیاچین کی برف کو بھی شاید اس سرفروش سے پیار ہو گیا تھا کہ اسے اپنے سینے میں ایک سال تک چھپائے رکھا۔ اس ایک سال کے دوران کیپٹن اقبال کی جنم بھومی میں پاکستان فوج کے افسروں کا آنا جانا لگا رہا۔ خاکی وردی میں ملبوس یہ افسران میرے بچپن کو بہت بھائے تھے۔ یہ لوگ بہت باوقار دکھتے تھے۔ یہ جب گاؤں آتے تو لوگ انہیں پیار اور محبت سے بھری نظروں سے دیکھتے۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان! عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر اور کواڑوں سے جھانک کر انہیں دیکھنے کی کوشش کرتیں۔

وطن کے یہ محافظ واقعی محبت کے لائق تھے۔ ایک سال بعد جب سیاچین کی برف کیپٹن اقبال کی جسد خاکی دینے پر راضی ہوئی تو یہ خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی۔ جب شہید کی لاش اپنے گاؤں کی مٹی اوڑھنے کے لئے آ رہی تھی تو ہمارا گاؤں سروں سے بھر گیا تھا۔ پورے علاقے کے لوگ اس مرد مومن کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے چاروں طرف سے جوق در جوق امڈ آئے تھے۔ گاؤں میں جیسے خاکی وردیوں کی بہار آئی تھی۔ عورتیں گھروں سے باہر نکل آئی تھی۔ پشتو کا یہ بے پناہ ٹپہ شاید ایسے ہی کسی موقعے پر تخلیق ہوا تھا

کٹ ئی پہ لوڑہ ڈیرئی کیگدئ
وڑے وڑے خان خیلے ستر ماتوینہ
اس کی چارپائی (لاش) کو کسی اونچے ٹیلے پر رکھ دیں
کہ نو عمر دوشیزاؤں کا پردہ ٹوٹنے نہ پائے۔

کیپٹن اقبال کی شہادت کے بعد ان کی شخصیت کے کئی پوشیدہ پہلو سامنے آئے۔ وہ خطوط لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے جو اس نے محاذ جنگ سے اپنے ایک دوست کو لکھے تھے۔ وہ خط جو شہید نے اپنی ماں کو پشتو میں لکھا تھا، کتنا دلارا تھا۔ وہ بے پناہ وصیت نامہ جس پر قرون اولی کے مسلمانوں کا گمان ہوتا ہے۔ میری قبر کو پختہ نہیں کرنا، میرے پیچھے آنسو نہیں بہانے، میری مزار پر کوئی گنبد یا مینار نہیں بنانا، قبر کی اونچائی، چوڑائی اسلامی اصولوں کے مطابق رکھنی ہے۔ اگر پاکستان فوج یا حکومت کوئی رقم دے تو اس کو میرے لئے صدقۂ جاریہ کے طور پر استعمال کریں، اسے مساجد میں استعمال کریں، لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے کنویں کھودیں، درخت لگائیں۔ میری اتنی نمازیں اور اتنے روزے قضا ہوئے ہیں، ان کا کفارہ ادا کیا جائے۔

شہید اپنے دوست سے درخواست کرتا ہے کہ میرے بعد میری ماں کا خیال رکھیں، وہ ضعیف ہے، میرے پیچھے یقیناً اداس ہوں گی لیکن انسان چارپائی پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھی مر سکتا ہے اور شہادت کے عظیم رتبے پر بھی سرفراز ہو سکتا ہے۔ شہادت کے متعلق اقبال کا یہ شعر شہید اپنی وصیت میں قلم بند کرتا ہے

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

شہید کے یہ خطوط اور ان کی وصیت پڑھ کر مجھے بارہا لگا جیسے اقبال، خالد بن ولید کے لشکر کا کوئی گمشدہ سپاہی ہو، جو کہیں بھٹک کر کسی غار میں سو گیا تھا اور جب مدتوں بعد اس کی آنکھ کھلی تو خود کو سیاچین کی برف پوش چوٹیوں میں پایا۔

زوال ہمیشہ ہمہ جہت ہوتا ہے، کوئی معاشرہ جب زوال کا شکار ہوتا ہے تو تمام ادارے، تمام شعبہ ہائے زندگی نیچے کی طرف لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے عروج کہاں حاصل کیا تھا لیکن ایسی پستیاں بھی تو نہیں دیکھی تھیں۔ زوال ہماری جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ میرے آرمی کے دوست مجھے معاف کریں لیکن وہ آرمی افسر وطن کے وہ سپاہی اب نہیں رہے جن کے چوڑے سینے قوم کو تحفظ کا احساس دلاتے تھے۔

کیپٹن اقبال شہید ہلال جرات سے ہوتے ہوئے ہم لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تک آ گئے ہیں جو جب آئی ایس پی آر کے ڈی جی کے طور پر بات کرتے تھے تو تاثر دیتے تھے کہ جیسے ارسطو کے شاگردوں میں ہیں، بات بات پر وطن کا حوالہ یوں دیتے تھے جیسے ماں نے جنا ہی وطن پر مر مٹنے کے لئے ہے۔ بادل چھٹے اور ذرا سی دھوپ نکلی تو جنرل صاحب سر تا پا تاجر نکلے۔ کمپنیوں پر کمپنیاں، ڈالروں پر ڈالرز، بھائی، بیٹے حتیٰ کہ شریک حیات بھی امریکہ اور دبئی میں سرمایہ کاری کرتے پائے گئے۔ وضاحت آئی بھی تو کیا؟ اعتماد سے خالی لہجہ! نامعلوم ویب سائٹ، بدنام کرنے کی سازش، غداری کے سرٹیفکیٹس اور بالآخر استعفی وہ بھی فقط ایک عہدے سے۔

پورے میڈیا کی زباں بندی اور پوری حکومتی مشینری کی پشت پناہی کے باوجود بھی اگر جنرل صاحب 2002 سے 2020 تک مفصل حساب نہیں دے سکے تو مان لیجیے کہ معاملات قابو سے باہر ہیں اور دولت کی چاہ عہدے اور رتبے کے وقار پر حاوی ہو چکی ہے۔
کیپٹن محمد اقبال شہید کی کج کلاہی سے لیفٹننٹ جنرل سلیم باجوہ کے جھکے ہوئے سر تک کے اس سفر میں سینکڑوں مقامات آہ و فغاں ہیں جنہیں ہم سوشل میڈیا کی جگتوں میں فراموش کر بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).