انڈیا میں 86 سالہ دادی کا ریپ، شہریوں میں غم و غصہ


86 سالہ دادی کو دلی میں پیر کو ریپ کیا گیا تھا

86 سالہ دادی کو دلی میں پیر کو ریپ کیا گیا تھا

انڈیا میں ہر سال دسیوں ہزار ریپ ہوتے ہیں اور ویسے تو ہر ریپ ہی جنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے لیکن کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن سے لگتا ہے کہ معاشرہ بالکل ہی اپنے حواس کھو بیٹھا ہے۔

اسی طرح کا دل ہلا دینے والا ایک واقعہ دلی میں ہوا، جہاں پولیس نے ایک 30 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر ایک 86 سالہ دادی کو ریپ اور اس پر تشدد کرنے کا الزام ہے۔

دلی کمیشن فار ویمن کی سربراہ سواتی مالیوال نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کو ایک بوڑھی خاتون اپنے گھر کے باہر دودھ والے کا انتظار کر رہی تھیں کہ ایک شخص وہاں آیا۔

اس نے انھیں بتایا کہ دودھ والا آج نہیں آ رہا ہے اور ساتھ ہی کہا کہ وہ انھیں اس جگہ لے جائے گا جہاں دودھ مل رہا ہے۔

بوڑھی عورت نے اس کا بھروسہ کیا اور اس کے ساتھ چل پڑیں۔ سواتی مالیوال کے مطابق وہ شخص ان خاتون کو ایک قریبی فارم میں لے گیا، جہاں اس نے ان کا ریپ کر دیا۔

’وہ روتی رہیں اور اس کی منتیں کرتی رہیں کہ وہ انھیں چھوڑ دے۔ انھوں نے اسے یہاں تک کہا کہ وہ اس کی دادی کے برابر ہیں۔ لیکن اس نے ایک نہ مانی اور جب انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کی تو وہ بے رحمی سے ان پر تشدد کرتا رہا۔

مقامی گاؤں والے وہاں سے گذر رہے تھے، جب انھوں چیخیں سنی تو مدد کے لیے آئے اور ان کو اس شخص سے چھڑایا۔ بعد میں انھوں نے حملہ آوور کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

سواتی مالیوال نے، جو منگل کو ان خاتون سے مل کر آئی ہیں، بتایا کہ ملاقات بڑی ’دلخراش‘ تھی۔

’ان کے ہاتھوں پر مکمل جھریاں پڑی ہوئی ہیں۔ جب آپ سنتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تو آپ کو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ ان کے چہرے اور پورے جسم پر زخم ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اندام نہانی سے بھی خون بہا تھا۔ وہ انتہائی صدمے کی حالت سے گذر رہی ہیں۔

مظاہرہ

گذشتہ کچھ برسوں سے انڈیا میں جنسی حملوں کے خلاف بہت آوازیں اٹھ رہی ہیں

سواتی مالیوال کا مطالبہ ہے کہ حملہ آور کو سزائے موت دی جائے، جس کے متعلق وہ کہتی ہیں کہ ’وہ انسان نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور شہر کے لیفٹیننٹ گورنر کو لکھ رہی ہوں کہ اس مقدمے کی فاسٹ ٹریل سنوائی ہو اور اسے چھ ماہ میں لٹکا دیا جائے۔‘

ریپ اور جنسی تشدد دسمبر 2012 سے توجہ کا مرکز ہے جب دلی میں ایک 23 سالہ فزیوتھراپی کی سٹوڈنٹ کو ایک چلتی بس میں گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ وہ بعد میں سنگاپور میں علاج کے دوران انتقال کر گئی تھیں۔ اس گھناؤنے فعل میں ملوث چار افراد کو مارچ میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

لیکن جنسی جرائم پر مکمل فوکس کے باوجود بھی ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق، 2018 میں پولیس نے 33,977 کیسز ریکارڈ کیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہر 15 منٹ میں ایک ریپ۔ لیکن ریپ کے خلاف مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ دراصل حقیقی نمبر اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ بہت سے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں کروائے جاتے۔

اور سب خبروں میں بھی نہیں آتے، صرف بہت زیادہ ظالمانہ اور چونکا دینے والے ہی پریس میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

گذشتہ کچھ دنوں میں جب انڈیا کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کووڈ۔19 کی مریضہ کو لے کے جانے والی ایک ایمولینس کے ڈرائیور نے انھیں راستے میں ہی ریپ کر دیا۔

گذشتہ ماہ گنے کے ایک کھیت میں ایک 13 سالہ لڑکی کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے والد کا کہنا تھا کہ اس کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں اور زبان کاٹ دی گئی تھی۔

جولائی میں ایک چھ سالہ بچی کو بھی اغوا کرنے کے بعد ریپ کیا گیا تھا اور اس پر حملہ کرنے والے نے اس کی آنکھوں پر زخم لگائے تھے جو کہ بظاہر اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ حملہ آور کی شناخت نہ کر سکے۔

جیسا کہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن یوگیتا بھایانا، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم پیپلز اگینسٹ ریپ ان انڈیا (پری) کے لیے کام کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ ’میں ایک ایک ماہ کی بچی اور ایک 60 کی دہائی میں عورت سے ملی ہوں جنھیں ریپ کیا گیا تھا۔‘

دلی میں دسمبر 2012 میں ہونے والے بہیمانہ بس ریپ کے بعد، جس کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی، انڈیا نے ریپ کے جرم کے سخت قوانین متعارف کرائے تھے، جن میں بے رحم کیسز میں موت کی سزا بھی شامل تھی، یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ریپ کیسز میں فوری طور پر عدالتیں لگیں گی اور مجرموں کو سزائیں دی جائیں گی۔

تاہم سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ زمین پر اب بھی کچھ زیادہ نہیں بدلا ہے۔

بھایانا کہتی ہیں کہ ’صورت حال نہیں بدلی ہے کیونکہ عورتوں اور لڑکیوں کی حفاظت کو حکومت کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے لیکن وہ تو وہاں کہیں نظر نہیں آتی۔‘

’انڈیا بیرونی سکیورٹی پر بات کرتا ہے، لیکن میں ان سے پوچھتی ہوں کہ اندرونی سکیورٹی کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ عورتوں اور لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟‘

بھایانا کہتی ہیں کہ انھوں نے ریپ کا شکار عورتوں کے لیے انصاف کے متعلق وزیرِ اعظم نریندر مودی کو 100 سے زیادہ خط لکھے ہیں اور انھیں ابھی تک ایک جواب بھی نہیں آیا ہے۔

’وہ اس کے متعلق کیوں نہیں بولتے؟‘

جب مودی اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے کئی ریلیوں میں دلی کو ’ریپ کا دارالحکومت‘ کا کہا تھا۔

سنہ 2014 میں وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لگتا تھا کہ یہ ان کی ترجیحات میں شامل تھا کیونکہ انھوں نے اپنی یومِ آزادی کی پہلی تقریر میں ریپ پر بات کی تھی اور والدین کو مشورہ دیا تھا کہ کس طرح وہ بیٹوں کی اچھی پرورش کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’جب ہم ان ریپس کے متعلق سنتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔‘

انھوں نے والدین کو کہا کہ ’ہر گھر میں والدین اپنی بیٹیوں سے بڑے سوال کرتے ہیں کہ وہ کہاں جا رہی ہیں، کب واپس آئیں گی، اور کہتے ہیں کہ جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو انہیں ضرور اطلاع دے۔

’لیکن کیا آپ نے کبھی اپنے بیٹے سے پوچھا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے، کیوں جا رہا ہے اور اس کے کون دوست ہیں؟ بہر حال، جو شخص ریپ کر رہا ہے وہ بھی تو کسی کا بیٹا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ والدین اپنے بیٹوں پر بھی ضرور نظر رکھیں۔

انڈیا جیسے جاگیردارانہ اور پدرشاہی معاشرے میں اسے ایک اہم اعلان کے طور پر دیکھا گیا۔

لیکن اس کے بعد سے جنسی تشدد کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اور کئی ایک میں بااثر افراد بھی شامل ہیں اور 2018 میں ایک ٹویٹ کے علاوہ جس میں وزیرِ اعظم مودی نے کہا تھا کہ ’انڈیا کی بیٹیوں کو انصاف ملے گا‘، وہ زیادہ تر چپ ہی رہے ہیں۔ ان کا یہ ٹویٹ بھی اس وقت سامنے آیا تھا جب ان کی پارٹی کے کچھ افراد کے متعلق ریپ کی خبریں شہ سرخیوں میں تھیں۔

بھایانا کہتی ہیں کہ ’کوئی جادو کی چھڑی، کوئی ایک چیز‘ صنفی تشدد کے اس مسئلے کو رات بھر میں غائب نہیں کر سکتی۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے، پولیس اور عدالتی اصلاحات، پولیس اور وکلا میں زیادہ حساسیت، اور تفتیش کے بہتر آلات۔

’لیکن سب بڑھ کر ہمیں بہتر صنفی آگہی کی ضرورت ہے، ہمیں زہنیتیں بدلنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس طرح کے جرائم کو سرے سے ہونے ہی نہ دیا جائے۔‘

وہ کہتی ہے کہ یہ ہی مشکل کام ہے۔

’ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آ رہا کہ کوئی بھی حکومت، چاہے وہ دلی کی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، صنفی تشدد کو روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔‘

’میں اس فیلڈ میں آٹھ سال سے کام کر رہی ہیں۔ میں کبھی بھی کسی ایسے شخص سے نہیں ملی جو واقعی اس مسئلے کے متعلق سنجیدہ ہو۔‘

بھایانا کہتی ہیں کہ عوامی جگہوں پر ہر قسم کے مسائل پر بل بورڈز لگے ہوئے ہیں، حکومت کی کامیابیوں کے متعلق، کووڈ۔19 کے متعلق، یا لوگوں کو منشیات سے باز رکھنے کی ہدایات کے متعلق۔ لیکن کیا آپ نے شہر میں کوئی بل بورڈ دیکھا ہے جو ریپ یا صنفی تشدد کے متعلق ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم اکثر بل بورڈز پر مسٹر مودی کے پسندیدہ نعرے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ دیکھتے ہیں۔ میں کہتی ہوں کہ ہم اسے اس طرح کیوں نہیں بدل دیتے کہ ’بیٹا پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp