خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن: ’میں نے خودکشی کی کوششوں کو مزاحیہ کتاب میں بدل دیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ایک اور راستہ بھی ہے‘
سنہ 2018 میں ایریکو کوبایاشی اپنی تقریر کرکے ابھی فارغ ہی ہوئیں تھیں کہ سامعین میں موجود ایک نوجوان خاتون (جو عمر کی دوسری دہائی میں نظر آتی ہیں) ان کے پاس گئیں۔
کوبایاشی نے بی بی سی کو بتایا ’وہ خودکشی کی کوشش کے بعد ہسپتال میں داخل تھیں۔‘
’انھوں نے بطور تحفہ مجھے ایک انگوٹھی دی جس کے ساتھ ایک خوبصورت پیغام بھی تھا اور ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔‘
کوبایاشی ’ڈائیری آف مائی ڈیلی فیلیرز‘ یا ’میری روز مرّہ کی ناکامیوں کی ڈائری‘ کی مصنفہ ہیں، جو ایک ’مانگا‘ یعنی جاپانی کامِک ہے۔ اس کتاب کو پہلی بار 2017 میں شائع کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔۔۔
ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟
جب بچے کی پیدائش خوشی کی جگہ دُکھ دینے لگے
ڈپریشن پر والدین کا ردعمل: ’تیرے پاپا کو بتا دوں گی، بڑا آیا ڈیپریسڈ‘
مانگا میں کوبایاشی کے تجربات کو خودکشی سے بچ جانے والی ایک شخصیت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ اس سے کمزور دل قارئین کو معلوم ہو گا کہ دوسرے لوگوں کے ذہن میں بھی ان کی طرح منفی خیالات آتے ہیں اور انھوں نے ان پر قابو پا لیا ہے۔
10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کے عالمی دن سے پہلے بی بی سی نے مصنفہ سے ان کے کام کے بارے میں بات کی اور ان سے پوچھا کہ دوسروں کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے۔
ذہنی صحت اور مالی مشکلات کے باعث کوبایاشی 21 سال کی عمر سے اپنی جان لینے کی متعدد کوششیں کر چکی ہیں۔
کوبایاشی کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل کا آغاز بچپن میں ہوا۔ انھیں بڑے ہوتے ہوئے تشدد اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مانگا میں وہ اپنے ’برے خیالات اور انھیں پریشان کرنے والی چیزوں‘ پر بات کرتی ہیں، اس میں ان کے ہسپتال کے دوروں کی تفصیل اور ذہنی امراض کے ہسپتالوں اور اداروں میں گزارا جانے والا وقت بھی شامل ہے۔
وہ وقت یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں ’میری حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ مسلسل برے خواب آتے تھے اور میں بالکل سو نہیں پاتی تھی۔‘
میرے والدین مجھے کئی ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے لیکن میری حالت میں ذرا بہتری نہیں آئی۔
ہراسانی اور دکانوں سے کھانے پینے کی اشیا چوری کرنا
کوبایاشی کو سکول میں بھی شدید ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں ’میرے والد زیادہ پیسے نہیں کما پاتے تھے اور میں بمشکل سکول کا یونیفارم لے پاتی تھی۔ سردیوں کے موسم میں ایک ہی لباس بار بار پہنتی تھی اور اس نے مجھے دوسرے بچوں کے لیے ایک آسان ہدف بنا دیا تھا۔‘
کوبایاشی نے 1990 کی دہائی کے وسط میں اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔ اس زمانے میں جاپان میں نوجوانوں کے لیے مواقع بہت کم تھے۔ اس وقت کو ’روزگار کا آئس ایج‘ کہا جاتا تھا۔
جب بالآخر فلاحی اداروں پر انحصار کرنے کے کئی ماہ گزرنے کے بعد، وہ ٹوکیو کے ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت کرنے لگیں تو وہاں طویل اوقات اور کم تنخواہ معمول تھا۔
ان کی مالی حالت انتہائی سنگین تھی، یہاں تک کہ پیٹ بھرنے کے لیے انھوں نے سپر مارکیٹس سے کھانے کی اشیا بھی چرائیں۔
تب ہی کوبایاشی نے پہلی بار اپنی جان لینے کی کوشش کی۔
خوش قسمتی سے کوبایاشی کی دوست نے انھیں بے ہوشی کی حالت میں دیکھ لیا اور انھیں بروقت ہسپتال لے جایا گیا۔ تاہم وہ تین دن بعد ہوش میں آئیں۔
ہر سال خودکشی کی وجہ سے آٹھ لاکھ اموات ہوتی ہیں
خودکشی ایک عالمی مسئلہ ہے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ افراد اپنی جانیں لے لیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں جاپان میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اگرچہ ملک میں مجموعی طور پر سالانہ اموات کی تعداد کم ہو رہی ہے، لیکن کم عمر افراد میں یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان میں 10 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہے۔
جاپانی حکام نے 1970 کی دہائی میں خودکشیوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک سال 2019 کے دوران 20 سال سے کم عمر افراد میں خود کشی کی شرح عروج پر پہنچ گئی تھی۔
نوجوانوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح دیکھ کر کوبایاشی نے مانگا کی شکل میں اپنی جدوجہد شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔
’اگرچہ میرے تجربات بہت ذاتی ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جاپان اور دنیا بھر میں لوگ ’جینے میں دشواری‘ کی اس ذہنی کیفیت سے گزرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ میری تحریروں سے انھیں یہ اندازہ ہوگا کہ صرف وہ ہی ایسا محسوس نہیں کرتے۔‘
ایک مسلسل جنگ
کوبیاشی ذہنی صحت اور خودکشی سے وابستہ پیچیدگیوں کی ایک مثال ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک بار خودکشی کی کوشش کے بعد اس کا رسک موجود رہتا ہے۔ 20 سال گزر جانے کے باوجود کوبیاشی اب بھی خودکشی کے خیالات سے لڑ رہی ہیں۔
اور یہ خیالات اکثر انسان پر حاوی ہوجاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں تنہا محسوس کر رہی ہوں یا کام پر سب ٹھیک نہ ہو تو مجھے اب بھی مرنے کا دل کرنے لگتا ہے۔‘
کوبایاشی اب بھی نفسیاتی علاج کروا رہی ہیں اور انھوں نے ان خیالات سے نمٹنے کے لیے ایک روٹین تیار کی ہے۔
’جب یہ خیالات آتے ہیں تو میں زیادہ سونے، میٹھا کھانے اور اچھی خوشبوئیں سونگھنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ بہتر محسوس کر سکوں۔ اور میں یہ بھی کوشش کرتی ہوں کہ زیادہ دیر تک تنہا نہ رہوں۔‘
اس لیے اپنے مداحوں کے ساتھ ملاقاتیں ان کے لیے ذاتی طور پر کافی معنی رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے خودکشی کا تجربہ کیا ہے اور مجھے درد اور مایوسی کے بارے میں علم ہے۔‘
’جب خودکشی کی کوشش کرنے والے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے بات کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ بچ جانا بے فائدہ نہیں ہے۔‘
مشترکہ تجربہ
انھیں یقین ہے کہ صرف روایتی طریقہ کار مثلاً تھیراپی اور دواؤں کے علاوہ یہ مشترکہ تجربات بھی خودکشی پر مائل افراد کے لیے ایک اور کامیاب طریقہ ہو سکتے ہیں۔
کوبایاشی لکھتی ہیں کہ ’جاپان میں نفسیاتی مریضوں کے لیے بستروں کی ایک بڑی تعداد ہے جبکہ ان امراض کی دوائیں بڑے پیمانے پر تجویز کی جاتی ہیں۔
’مگر ایک ایسا شخص جو اپنی جان لینے کی کوشش کرے، اسے لگتا ہے کہ کوئی اس کی بات نہیں سمجھے گا۔‘
وہ مزید لکھتی ہیں: ’خراب خاندانی تعلقات، مالی مسائل اور تنہائی سمیتبہت سے مسائل ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ مسائل آسانی سے حل نہیں کیے جا سکتے۔‘
ان کے مطابق: ’خودکشی پر مائل فرد کے ارادوں کو نظرانداز کرنا جواب نھیں ہے۔ ان کے احساسات کو تسلیم کرنا اور ان کی مدد کرنا اہم ہے۔‘
’میں نے سمجھ لیا ہے کہ میرے لیے باہر جانا، اپنے دفتر کے ساتھیوں سے ملنا اور اپنے دوستوں سے بات کرنا اہم ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مرنے کی آپ کی خواہش صرف کسی سے بات کرنے اور کسی کے ساتھ ہنسنے سے مٹتی جاتی ہے۔‘
خاندانی مسائل
مگر کوبایاشی کا کام بھی ان کے لیے تنازعات کا باعث بنا ہے۔
مانگا سے پہلے انھوں نے اپنے مسائل کے بارے میں کتابیں لکھی تھیں مگر ان مسائل کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ اُن کے والد کو پسند نہیں آیا۔
وہ بتاتی ہیں: ’میرے والد اس بات کے خلاف تھے کہ میں اپنی جدوجہد کے بارے میں عوامی طور پر بات کروں۔ ہماری آپس میں نہیں بنتی اور ہماری 10 سال سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔‘
اس کا مطلب ہے کہ کوبایاشی کو اب تک ’میری روز مرّہ کی ناکامیوں کی ڈائری‘ پر اپنے والد سے کوئی رائے نہیں ملی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرا خواب تھا کہ میں آرٹ سکول میں جاؤں مگر میرے والد نے اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
’دوسری جانب میری والدہ ہمیشہ بہت خوش ہوتی تھیں جب بھی میں کبھی عوام کے سامنے آتی یا وہ میری لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھتیں۔‘
ان کی کامک بک کا اب انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
عالمی وبا سے کیا سبق ملا؟
جاپانی حکام نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ ان کے ملک میں اس اپریل میں گذشتہ اپریل کے مقابلے میں خودکشیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ وائرس کے باعث خودکشیوں میں اضافے کے خدشات کے برعکس محسوس ہوا۔
ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اس کمی کو سکول کی بندشوں اور کام کے اوقات میں کمی جیسے اقدامات کے عارضی نتیجے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
کوبایاشی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب زندگی اپنے معمول پر آئے گی تو ہو سکتا ہے کہ خودکشیوں کی شرح میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو۔‘
’اور یہ لازماً ہوگا اگر لوگ پہلے جیسی زندگی جینے کی کوشش کریں گے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس وبا نے لوگووں کو اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا سکھایا ہے۔
’ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ شاید تعلیمی اداروں یا کام کی جگہ پر خود پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈال کر اپنا سکون واپس حاصل کر رہے ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں: ’اگر ہم لوگ سب سے آگے نکلنے کے بجائے اپنے جسم اور ذہن کے لیے فائدہ مند زندگی گزاریں تو چیزیں بہت بہتر ہو سکتی ہیں۔‘
اگر آپ پاکستان میں ہیں اور ذہنی صحت کے مسائل یا خودکشی کے خیالات کے شکار ہیں تو مندرجہ ذیل تنظیموں سے رابطہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
- خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘ - 24/04/2024
- ’مغوی‘ سعودی خاتون کراچی سے بازیاب، لوئر دیر سے تعلق رکھنے والا مبینہ ’اغوا کار‘ بھی زیرِ حراست: اسلام آباد پولیس - 24/04/2024
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).