رات کے سناٹے میں بہرے قانون کو دی صدا


وہ یہ سوچ کر گھر سے نکلی تھی کہ قانون جاگ رہا ہے۔ وہ قدم قدم پر اسے دیکھ رہا ہوگا اس کے گرد ڈھال بن کر محو سفر ہو گا۔ لہذا وہ بے خوف ہو گئی اور اپنے جگر گوشوں کو ساتھ لے کر شاہراہ پر آ گئی۔ اسے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں جو سوچا جاتا ہے۔ وہ ہوتا نہیں ہے۔

اس کی گاڑی ایندھن ختم ہونے پر رکتی ہے۔ رات کا سناٹا ہے۔ ویرانہ ہے۔ وہ اکیلی ہے۔ اب کیا کرے اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے۔ وہ شب کے پہریداروں کو پکارتی ہے۔ مدد کی درخواست کرتی ہے۔ وہ اسے حوصلہ دیتے ہیں۔ اس دوران کچھ وحشی اس کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔

گاڑی کا دروازہ کھولو وہ کہتے ہیں۔

وہ ایک لمحے میں ان کے چہروں پر ناچتی وحشت کو دیکھ لیتی ہے۔

وہ دل ہی دل میں کہتی ہے۔ دروازہ نہیں کھولوں گی اور اپنی نشست پر بیٹھی رہتی ہے۔

دل اس کا دھک دھک دھڑکنے لگتا ہے۔ وہ سمجھ چکی ہوتی ہے کہ وہ درندوں کے جنگل میں آ گئی ہے۔ جہاں کوئی تحفظ نہیں ہوتا مگر وہ کیا کرے اسے یہ آس بھی بندھ رہی ہے کہ قانون ضرور پہنچے گا اور پھر یہ وحشی بھی غائب ہو جائیں گے۔

ایسا نہیں ہوتا وہ اس کی گاڑی کے شیشے توڑ ڈالتے ہیں اور اسے اپنے طاقتور بازوؤں میں لے کر شاہراہ سے ایک طرف لے جا کر اس کی عصمت کو تار تار کر ڈالتے ہیں۔ قانون ابھی تک نہیں پہنچا دور دور تک اس کا کوئی نشان نہیں وہ مسلسل مدد کے لئے صدا بلند کر رہی ہے۔ مگر گدھ اس کا جسم نوچتے رہتے ہیں اور جب ان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو اسے تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں۔ اب قانون آتا ہے اور یہ منظر دلخراش دیکھتا ہے۔ وہ سسک رہی ہے۔ آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسے ختم کر دو وہ زندہ رہنا نہیں چاہتی اس کے بچے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے ذہن جیسے ماؤف ہو گئے ہوں کہ ان کی ماں کے ساتھ کیا ہو گیا قانون اسے دلاسا دیتا ہے کہ وہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دلوائے گا۔ انصاف ہوگا مگر وہ زندگی کے خاتمے کا کہتی ہے کہ اس کے ساتھ جو ہو گیا وہ اسے ہر لمحہ تڑپاتا رہے گا۔ اس کی ہر سانس ظلم و بربریت اس آندھی میں اکھڑ اکھڑ جائے گی۔

دوسری طرف قانون یہ بھی کہتا ہے کہ وہ گھپ اندھیرے میں آئی کیوں؟

ہاں وہ ٹھیک کہتا ہے کہ رات کو تو سینہ زوروں، غنڈوں، لٹیروں، چوروں اور وحشیوں کا راج ہوتا ہے۔ لہذا کوئی سفر کرے کیوں، کوئی باہر نکلے کیوں اور پھر عورت، اس کا کیا کام کہ وہ دہلیز پار کرے؟

واہ قانون کے محافظو، واہ۔
تمھیں معلوم نہیں کہ اس سے کیا تاثر ابھرا ہے؟

لوگ جو پہلے ہی بدگمان و بد ظن تھے۔ اب مزید ہوں گے۔ انہیں یہ یقین ہوچکا ہے کہ یہاں زندگی غیر محفوظ ہے۔ عزتیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ کمزوروں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے ہو جاتے ہیں اور عدالتیں عدم ثبوت کی بنا پر قاتلوں ڈاکوؤں اور طاقتوروں کو باعزت بری کر دیتی ہیں۔

اے اہل اقتدار کہاں ہو؟
تمھیں بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا کچھ سنائی نہیں دیتا آخر کب انصاف دلواؤ گے؟

تہتر برس بیت چکے اب بھی مگر ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ انصاف دلانے کے وعدے بھی کیے جاتے ہیں۔ بہت سے خواب بھی دکھائے جاتے ہیں جو مگر کبھی پورے نہیں ہوتے۔
لگتا ہے۔ وقت تھم گیا ہے۔ قدم رک گئے ہیں۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ ایک خوف ہے جس نے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسے تو جینا مشکل ہے۔ کچھ تو کرو۔ کچھ تو سوچو۔

آخر کار تمھیں سوچنا پڑے گا۔ ہوش میں آنا ہو گا۔ برداشت اب نہیں رہی لوگوں میں، وہ بیزار ہو چکے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ حکمران ان کے لئے فکر مند نہیں وہ چند فیصد کا سوچتے ہیں۔ انہیں ہر نوع کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مگر یہ نظام باقی نہیں رہے گا کہ جس میں جسم و جاں چھلنی ہوتے ہوں، رزق چھینا جاتا ہو، بہو بیٹیوں کے سر سے دوپٹے اتارے جاتے ہوں ان کی عصمتوں کو لوٹا جاتا ہو۔

یہ دلوں کو دہلا دینے والا واقعہ اب بتائے گا کہ تم کس کے ساتھ ہو؟
جاگو اقتدار و اختیار والو۔

ظلم و ستم کے جھکڑ زیادہ دیر تک نہی چل سکتے کہ زندگی کو جب اپنے غیر محفوظ ہونے کا پختہ یقین ہو جائے تو وہ خود کو بچانے کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارتی ہے۔ لہذا رات کے سناٹے میں ابھرنے والی سسکیوں کو سنو۔

اس خاتون پر کیا بیت رہی اسے محسوس کرو۔
وہ بچے جو منزل پر پہنچ کر اٹکھیلیاں کرنا چاہتے تھے۔ اب غم و الم کی ندیا میں غوطہ زن ہیں۔ ان کی ماں کے بہتے آنسو رک نہیں رہے خیالات کا ایک طوفان برپا ہے۔ وہ جیے گی بھی تو کیسے؟

ہاں مگر مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے تو اس کی کچھ تشفی ہو سکتی ہے کہ اسے انصاف مل گیا پھر وہ اس واقعے کو بھلانے کی بھی کوشش کرے گی اور اگر مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو عین ممکن ہے کہ اس سمیت لوگ نظریہ حفاظت خود اختیاری کے تحت اٹھ کھڑے ہوں پھر ویرانے میں کسی کی عزت نہیں لٹے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).