اللہ جانے ہم کس جانب چل نکلے ہیں


پاکستان اب ایسا ملک بنتا جا رہا ہے جس کو اسلامی پھر جمہوریہ اور پھر پاکستان، تینوں القابات سے پکارتے ہوئے ہر پاکستانی کا سر بار شرمندگی سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ ہم سب تو پاکستان کے اندر رہتے ہیں اس لئے شرمندہ ہوں گے بھی تو ایک دوسرے کے سامنے ہی شرمسار ہو کر رہ جائیں گے لیکن میں سوچتا ہوں کہ وہ پاکستانی جو پاکستان سے باہر کسی مسلم یا غیر مسلم ملک میں قیام پذیر ہیں، غیر ملکیوں کا سامنا کس منہ سے کرتے ہوں گے۔

ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے بعد دنیا کے سارے غیر مسلموں سے بزرگ و برتر سمجھنے اور ماننے کے لئے سو دلائل رکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کا شہری کہتے ہیں جس کو آج سے 73 برس پہلے اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ وہاں اس نظام کو نافذ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند ہو۔ ایک ایسا نظام جس میں عدل ہو، انصاف ہو، جہاں کسی کو کسی مسلمان کے ہاتھوں کوئی اذیت پہنچنے کا گمان تک نہ گزرتا ہو، جہاں کسی کا پڑوسی بھوکا نہ سو سکتا ہو، جہاں ایک تنہا عورت رات کی تاریکی میں سونا اچھالتی مغرب سے مشرق تک سفر کرتی ہو اور اس کی جانب کوئی نظر بھر کر دیکھنے والا تک نہ ہو، جہاں ملک کا حاکم خادم کہلائے، جہاں اگر کوئی تاجر بھی مسلمانوں کا امیر بنا دیا جائے تو وہ امیر بنتے ہی اپنی تجارتی سر گرمیاں محض اس لئے بند کردے کہ لوگ اس کے حاکم ہونے کی وجہ سے دوسرے سے لین دین بند کر دیں گے۔ افسوس یہ ہے کہ جو ملک ان تمام مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا آج اس کا اپنا عالم یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک پاکستانی بھی اپنا سر فخر کے ساتھ بلند کر کے چلنے کے قابل نہیں رہ گیا ہے۔

جرائم کس ملک میں نہیں ہوا کرتے لیکن مجرموں کو نہ صرف گرفت میں لیا جاتا ہے بلکہ جرم کے مطابق انھیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کا کس ملک کو سامنا نہیں لیکن ہر ملک اس کے خلاف ایک مربوط نظام رکھتا ہے۔ غرض بشری کمزوریاں کن انسانی معاشروں میں نہیں پائی جاتیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ درندگی کر گزرنے والوں کو مادر پدر آزادی دیدی جائے۔

پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کو ہزار ہا زاویوں سے تحفظ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قتل قتل ہوتا ہے اور خون کا بدلہ خون کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن کبھی اس کو خاندانی دشمنی، کبھی قبائلی چپقلش، کبھی ذاتی پرخاش اور کبھی جائیداد کا تنازعہ قرار دے کر فائلیں بند کر دی جاتی ہیں۔ خواتین، بچوں، بچیوں اور خواجہ سراؤں کے ساتھ زیادتیاں تو معمول کا ایک ایسا مشغلہ بن کر رہ گیا ہے جس کو شاید ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہر ایسے واقعے کے بعد ایسے ایسے فلسفے سامنے لائے جاتے ہیں کہ مقتول ہی قاتل اور مظلوم ہی ظالم نظر آنے لگتا ہے۔

کچھ عرصے قبل ایک تفریحی مقام پر چند خواتین کو فحاشی کے شک میں مقامی پولیس نے تھانے میں بند کر دیا اور پھر از خود پوری رات ان سے جنسی درندگی کرتے رہے۔ کہا یہ گیا کہ وہ سب کی سب پیشہ ور تھیں اور کسی کے بلانے پر تفریحی مقام پر آئی تھیں۔ اب قانون نافذ کرنے والے درندوں سے کوئی پوچھے کہ اگر وہ پیشہ ور بھی تھیں تب بھی ان کا ان پر کوئی حق کیسے بن گیا تھا۔ پولیس کا فرض تھا کہ وہ بلانے والوں تک پہنچتی اور وہ جیسی بھی تھیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتی نہ کہ ساری رات انھیں کھلونا بنا کر رکھا گیا۔

سر عام بچوں کے سامنے والدین قتل کر دیے جاتے ہیں اور قصوروار بھی وہی قرار پاتے ہیں۔ بیچ چوراہے پر کھڑا پولیس اہل کار بیدردی کے ساتھ کچل دیا جاتا ہے اور کچلنے والا عدم ثبوت کی بنیاد پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مقتدر ادارے کے اہل کاروں کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت ہوتی ہے اور ملک کا صدر ان کے معافی نامے قبول کر کے رہائی کے پروانے جاری کر دیتا ہے۔ موٹر وے پر ایک خاتون کی گاڑی خراب ہو جانے پر اس کی مدد کی بجائے اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا سب سے بڑا پولیس افسر یہ کہتا ہے کہ ایک عورت بنا محرم باہر نکلی ہی کیوں تھی۔

جس اسلامی ملک میں ایک تنہا عورت رات کی تاریکی میں سونا اچھالتی ہوئی مغرب سے مشرق تک سفر کرے اور اس کو کوئی چھونے والا نہ ہو وہاں ایک بچوں والی ماں کو بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے تو کوئی مجھے بتائے کہ اس ملک کے نام کے ساتھ ”اسلامی“ لگا ہونا کیسا لگتا ہے؟ مجھے کوئی سمجھائے کہ وہ عورت اپنے بچوں، شوہر، تمام عزیز و اقارب، اہل محلہ اور پوری دنیا کے سامنے عمر کے آخری سانس تک سر اٹھا کر چلنے کے قابل رہ گئی یا وہ جیتے جی مر گئی اس پر صوبے کے اعلیٰ ترین پولیس افسر کی یہ ہرزہ سرائی کہ وہ بغیر محرم گھر سے باہر ہی کیوں نکلی تھی، دکھ اور اذیت کی بات نہیں؟

ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہم ریاست انوار مدینہ نہیں جنگلات ظلمات یثرب کی جانب گامزن ہیں جہاں ہر جانب درندے ہی درندے آباد ہیں۔ ہم اپنے مقصد وجود کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اب پاکستان میں اور ہی کچھ ہونے والا ہے۔ قوم کے سامنے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ قوم، قوم یونس کی طرح میدان میں نکلے، اپنے گناہوں کی اجتماعی معافی طلب کرے، بصورت دیگر آنے والے نادیدہ عذاب سے بچنے کی مجھے کوئی اور صورت دکھائی نہیں دے رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).