اللہ آپ سے زیادہ پوچھے گا، سی سی پی او صاحب


نو ستمبر کو آفس میں فیس بک کھولی ایک لائن کی خبر پڑھی کہ لاہور کے قریب گجر پورہ میں نامعلوم افراد نے موٹروے پر ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، دل دہلا دینے والے واقعہ کی سرخی پڑھ کر فوراً ایک ویب سائٹ کھولی اور تفصیلات پڑھیں، اس حیوانوں کے معاشرے پر انا للہ پڑھنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں۔

وہی معمول کے کام وزیراعلی پنجاب نے واقعہ مذمت کرتے ہوئے اس کا فوری نوٹس لے لیا اور آئی جی پنجاب سے جواب طلب لیا، اس کے علاوہ چند بڑھکیں جو ایسے واقعات کے بعد اکثر با اختیار افراد مارا کرتے ہیں۔ ملزمان جلد گرفتار کر لیں گے اور ان کو عبرتناک سزا دی جائے گی۔ پولیس کی ٹیمیں تشکیل دیدی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگلے روز الیکٹرانک میڈیا سارا دن اس ایشو کے پیچھے ہی بھاگتا رہا، ٹویٹر پر سی سی پی او لاہور کی گفتگو سنی، سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ کیپٹل سٹی کا چیف پولیس افسر ہے یا کوئی ان پڑھ، گنوار پولیس کانسٹیبل، متاثرہ خاتون کے بارے میں کیا کیا سوال اٹھا دیے جب میڈیا نے لتے لئے تو ایک صحافی کے سوال پر جواب دیا، میڈیا والو اللہ تم سے ضرور پوچھے گا۔

سی سی پی او کی باتیں ملاحظہ فرمائیں، خاتون رات کو بچوں کے ساتھ اکیلی کیوں نکلیں؟ موٹر وے کے سنسان راستے کے بجائے جی ٹی روڈ سے کیوں نہیں گئیں؟ گوجرانوالہ جانا تھا تو گاڑی میں پٹرول کیوں نہ ڈلوایا؟ وغیرہ وغیرہ، سی سی پی او کی باتوں سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں، ذہن میں سوال تو اٹھتے ہیں اور سی سی پی او نے نہایت ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے خاتون کے بارے میں سوالات اٹھا دیے۔

سی سی پی او صاحب: خاتون کے بارے میں آپ کے سوالات بہت اچھے اور ٹھوس اٹھائے مگر بقول فردوس عاشق اعوان آپ بھی اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر لیتے، جب گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا تو خاتون نے 130 پر مدد کے لئے کال کی، جواب ملا محترمہ یہ علاقہ موٹروے کی حدود میں نہیں آتا ہم معذرت خواہ ہیں پھر رنگ روڈ پولیس سے رابطہ ہوا تو یہی جواب ملا کہ 6 ماہ پہلے بننے والا یہ رنگ روڈ ہماری حدود میں بھی نہیں آتا، تو کیا یہ علاقہ بھارت میں آتا ہے؟ خاتون نے سکیورٹی اداروں سے مایوس ہو کر اپنے اہلخانہ سے رابطہ کیا۔

سی سی پی او صاحب میرے چند سوالوں کے جوابات دیں، جب 130 پر کال سننے والے کو علم ہو گیا تھا کہ خاتون رات کے پچھلے پہر میں مشکل ہے تو کیا قانونی اور انسانی حوالے سے اس کی مدد کے لئے کچھ کرنا چاہیے تھا کہ نہیں، کال سننے والے کو کسی عورت جنم نہیں دیا تھا جو اس میں احساس ذمہ داری بیدار نہ ہوا۔

پھر رنگ روڈ پولیس کو کال کی تو کیا ان میں ایک فرد بھی مسلمان اور غیرت کا حامل نہیں تھا۔ یہی رنگ روڈ والے گاڑیوں میں لوگوں کے منہ کسی جانور کی طرح سونگ رہے ہوتے ہیں۔ خاتون کی مدد کے لئے پہنچنے کے لئے اگر دو چار لٹر پٹرول خرچ ہوجاتا تو کیا قیامت آجاتی، رنگ روڈ پولیس اتنا بھی نہ کر سکی کہ وہ ریپڈ ریسپانس فورس یا ڈولفن فورس کو ہی آگاہ کر دیتی، ممکن ہے کہ خاتون پریشان کے عالم یہ نہ کر سکی۔

خاتون نے دو اداروں کو کال کی مگر دونوں نے مدد سے انکار کر دیا، کال سننے والوں میں اگر کسی غیرت مند باپ کا خون یا کسی پاکیزہ ماں کا دودھ دوڑ رہا ہوتا تو کال سننے پر انکار کے بعد زیادہ سے زیادہ دس منٹ بھی وہ چین نہ بیٹھتا اور خود اپنی موٹر سائیکل لے کر ہی خاتون کی مدد کو پہنچ جاتا مگر میں حیران ہوں کہ خون سفید تو سنا تھا اور دیکھا بھی ان کا خون تو سیاہ لگتا ہے جس پر کوئی دھبہ بھی اثر نہیں کرتا۔

سی سی پی او صاحب، آپ کے ہزاروں اہلکار کہاں تھے جب ایک ماں، ایک بیوی اور ایک بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ خاتون نجانے کتنے مجبور حالات میں گھر سے نکلی، کیا اس کی مجبوری سے کسی کو فائدہ اٹھانے کا حق دیا جاسکتا ہے۔ سوال تو ان نامرد رنگ روڈ پولیس اور 130 والے ان اہلکاروں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے مجبور عورت کی مدد کیوں نہ کی، سوال تو آپ کی کارکردگی پر اٹھتا ہے۔

خاتون رات کو اکیلی کیوں نکلی، کیا جاہلانہ سوال ہے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آ گیا ایک وکیل زیادتی کے مقدمے ختم کرانے میں بہت شہرت رکھتے تھے۔ ان کا فارمولہ یہ تھا کہ وہ متاثرہ عورت سے ایسے بیہودہ سوالات کرتے کہ وہ عورت جو پہلے ہی مر چکی ہوتی تھی وہ اگلی پیشی پر آتی نہیں تھی اس طرح دو تین پیشیوں پر عدم حاضری پر کیس خارج ہوجاتا۔ ایک خاتون کا کیس آیا تو وکیل نے وہی اپنے ہتھکنڈے اپنائے اور بیہودہ سوالات شروع کر دیے کہ آپ سے جس کمرے میں زیادہ ہوئی وہ کمرہ کچا تھا کہ پکا، خاتون نے کہا کہ کچا تھا۔ پھر وکیل نے سوال کیا کہ چھت بالوں (کڑیوں ) کی تھی یا کسی اور کی، خاتون نے کہا کہ بالوں کی، وکیل نے پھر سوال کیا، جس وقت آپ سے زیادتی ہو رہی تھی آپ نے بالے گنے تھے۔ خاتون خاموش رہی، پھر وکیل نے پھر سوال کیا، آپ سے زیادتی بیڈ پر کی گئی یا زمین پر؟ جس پر خاتون نے بہترین جواب دیا وکیل صاحب، آپ کی بہن بیٹی ہوتی تو بیڈ پر زیادتی کرتا میں تو غریب ہوں، زمین پر ہی زیادتی کی۔ ہمارے سی سی پی او سوال کرتے ہیں کہ رات کو اکیلی کیوں نکلی۔

سی سی پی او صاحب، آپ کے سوالات انتہائی معمولی سطح کے ہیں جن کو دوران تفتیش خاتون سے پوچھا جاسکتا ہے مگر میڈیا کے سامنے کرنے والے نہیں تھے۔ کم از کم سی سی پی او سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی، آپ نے میڈیا والوں سے کہا کہ اللہ آپ سے ضرور پوچھے گا تو جناب اللہ تعالی آپ سے زیادہ پوچھیں گے کیونکہ آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).