موٹروے کے قریب خاتون کا مبینہ ریپ: ’پنجاب حکومت کی واحد فوکس ملزمان تک جلد از جلد پہنچنا ہے‘


پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے علاقے گجر پورہ میں موٹروے کے قریب خاتون کے ساتھ ریپ اور ڈکیتی کے واقعے کے بعد بنائی گئی خصوصی مانیٹرنگ کیمٹی کے سربراہ اور وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب حکومت کا واحد فوکس یہ ہے کہ کسی طرح جلد از جلد اصل ملزمان تک پہنچا جائے۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے گذشتہ روز وزیر قانون کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی خصوصی مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی تھی جس کا پہلا اجلاس آج لاہور میں منعقد ہوا اور کمیٹی ممبران نے راجہ بشارت کی سربراہی میں جمعہ کی سہ پہر جائے وقوع کا دورہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آنے والے ایک واقعے کے دوران دو افراد نے مبینہ طور پر مدد کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی میں سوار خاتون کو پکڑ کر قریبی کھیتوں میں اُن کے بچوں کے سامنے ریپ کیا تھا۔

بدھ کی شام معاملے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث رہا اور پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس معاملے میں پولیس مقدمہ درج کر کے 12 مشتبہ افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔

دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کل سے تمام تفتیشی ٹیمیں تفتیش میں مصروف ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب نے ایک خصوصی انویسٹیگیشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے تحت 28 چھوٹی بڑی کمیٹیاں اس معاملے پر کام کر رہی ہیں۔

’اس حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جائے وقوع سے ملنے والے تمام شواہد اکھٹے کر کے فرانزک تجزیے کے لیے بھجوائے جا چکے ہیں۔ فرانزک ٹیم جلد از جلد اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔ جن خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ان کا میڈیکل ہو چکا ہے اور ان سے لیے گئے شواہد بھی زیر تفتیش ہیں۔‘

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ۔ یہ ایک بلائنڈ (اندھا) جرم ہے جس میں کوئی خاص شواہد نہیں ہیں جن کو لے کر آگے بڑھا جائے۔ ہمیں تفتیش کے ذریعے شواہد کو بلڈاپ بھی کرنا پڑے گا اور پھر جا کر ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گے۔‘

یہ لاہور پولیس اور پنجاب حکومت کے لیے ایک چیلینج ہے۔

خصوصی تفتیشی ٹیم کی تشکیل

دریں اثنا پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی نے بھی ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان کی سربراہی میں چھ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے جس میں پولیس کے مختلف یونٹس کے افسران شامل ہیں۔

واقعے سے ایک روز قبل پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ سنبھالنے والے انعام غنی کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد اب تک 12 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 70 ایسے افراد کا ریکارڈ بھی لے لیا گیا ہے جن کا پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔

نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی پولیس اس کیس کی خود نگرانی کر رہے ہیں جبکہ 20 ٹیمیں اس کیس پر کام کر رہی ہیں اور جیو فینسنگ کے نتیجے میں وہ اس گاؤں کی نشاندہی میں بھی کامیاب ہو چکی ہیں جہاں سے ملزمان کا تعلق ہے۔

انعام غنی کے مطابق ’پولیس کی تفتیشی ٹیم کو ایسے ثبوت ملے ہیں جن کی مدد سے ہم ملزمان تک پہنچیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاتون نے خود بھی ملزمان کی کچھ شناخت ظاہر کی ہے۔ جائے وقوعہ اور علاقے کی جیو فنسنگ بھی کر لی گئی ہے یہاں تک کہ ہم اس گاؤں تک بھی پہنچ چکے ہیں جہاں سے ملزمان کا تعلق ہے۔ ہمارا ہدف اس وقت صرف یہی ہے کہ ہم ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کریں تاکہ خاتون اور ان کی بچوں کئ ذہنی کیفیت بہتر ہو سکے‘۔

پولیس ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے کے لیے گئے ہیں اور ملزمان نے خاتون کی گاڑی کا شیشہ توڑا تو ان کا خون بھی دروازے پر لگا جس کے نمونے بھی فارینزک جانچ کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔

اس سے قبل وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ انتظامیہ تفتیش کے مختلف طریقوں کی مدد سے ملوث افراد کی کھوج لگانے میں مصروف ہے اور سی سی پی او لاہور خود اس تفتیشی ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں۔

کیا واقعہ پیش آیا؟

صحافی عباد الحق کے مطابق لاہور کے تھانہ گجرپورہ میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گوجرانوالہ کے رہائشی درخواست دہندہ کی رشتے دار خاتون کی گاڑی کا جنگل کے قریب پیٹرول ختم ہو گیا تھا اور وہ مدد کے انتظار میں کھڑی تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق درخواست دہندہ کی عزیزہ نے بتایا کہ جب وہ پیٹرول کے انتظار میں کھڑی تھیں تو 30 سے 35 سال کی عمر کے دو مسلح اشخاص آئے، انھیں اور ان کے بچوں کو گاڑی سے نکال کر ان کا ریپ کیا اور ان سے نقدی اور زیور چھین کر فرار ہو گئے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس واقعے کا نوٹس لے کر آئی جی پولیس پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق خاتون سے ریپ کا واقعہ رات تین بجے کے قریب پیش آیا اور متاثرہ خاتون کے رشتے دار نے بدھ کی صبح 10 بجے پولیس اسٹیشن گجر پورہ میں مقدمہ درج کروایا۔

مدعی نے پولیس کو بتایا کہ جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں پر پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے روک گئی تو انھوں نے دیکھا کہ گاڑی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور اس پر خون دھبے تھے، جس کے بعد انھوں نے رشتے دار خاتون کو کرول کے جنگل کی جانب سے بچوں کے ساتھ آتے دیکھا۔

دوسری جانب موٹروے پولیس نے واضح کیا ہے کہ جس جگہ خاتون کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ موٹروے پولیس کی حدود میں شامل نہیں ہے۔ ترجمان کے بقول رنگ روڈ موٹروے پولیس کی حدود میں نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp