علاقہ کھڑی: تاریخ کے آئینہ میں


انگلستان آنے سے دو دن پہلے اپنی جنم بھومی علاقہ کھڑی کے متعلق ایک کتاب ً کھڑی ًکے نام سے نظر سے گزری۔ فوراً خرید کر ایک پورا دن لگا کر پڑھ بھی ڈالی۔ فاضل مصنف نے اس کتاب پر بہت محنت کی ہے اور علاقہ کے متعلق کافی ساری معلومات اکٹھی کی ہیں۔ اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن کسی بھی مقام کا تاریخ اور جغرافیہ بیان کیے بغیر اس مقام کے بارے میں بات مکمل نہیں ہوتی۔ وہ چند باتیں جن پر فاضل مصنف کو توجہ دینے کی ضرورت تھی یا جو مجھے کمی محسوس ہوئی ہے، ان میں ایک تو انہوں نے کھڑی کی تاریخ کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔

مہاراجہ کشمیر اور ڈوگرا راج کے مالیہ۔ لگان اور بے تحاشا ٹیکسوں کے خلاف کھڑی کے لوگوں کی بغاوت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ سمعوال شریف اور سکھ چین پور کے بارے میں بہت مختصر لکھا۔ ان گاؤں کی تاریخی اہمیت۔ گھٹیالی پتن اس کی کسٹم چوکی اور سکھ چین پور کی لکڑ منڈی پر بھی خاموش رہے۔ انہوں نے کھڑی کے سب ہی گاؤں کا دورہ کیا لیکن گاؤں کے متعلق صرف ایک یا دو لوگوں کی معلومات پر انحصار کیا۔ جنہوں نے انھیں ساری معلومات نہیں دیں۔ جس کی وجہ سے علاقہ کی بہت سی نامور شخصیات اور وطن پر جان نچھاور کرنے والے بہت سے شہیدوں کا تذکرہ شامل نہیں ہو سکا۔ بہر حال ان کی یہ بہت اچھی کوشش ہے۔ اس تاریخی علاقہ کھڑی پر مزیدتحقیق اور کھوج کی ضرورت ہے۔

کھڑی ایک قدیمی علاقہ ہے جو صدیوں پہلے سکندر کی پورس سے لڑائی میں بھی ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق پورس نے کھڑی کے آس پاس ہی سکندر کی فوجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ چونکہ منگلا اور بنگ کے مقام پر دریا کا پھیلاؤ زیادہ تھا جس وجہ سے یہاں سے دریا پار کرنے میں آسانی ہو سکتی تھی۔ دریا کے ایک طرف علاقہ کھڑی اور دوسری طرف جہلم شہر ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ کھڑی کے آس پاس ہی کہیں سکندر کی فوجوں کا ٹکراؤ راجہ پورس کی فوج سے ہوا تھا۔ موجودہ لہڑی گاؤں جو بہت صدیوں پہلے ایک غیرآباد جگہ تھی، یہاں پر پورس اور سکندر کی جنگ میں کام آجانے والے فوجیوں کو دفن کیا گیا تھا، جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ گردش ایام اور انسانی ہوس کے ہاتھوں ایک تاریخی اہمیت کے حامل قبرستان کا نام ونشان مٹ گیالیکن کچھ قبروں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔

کھڑی کھڑیالی ریاست اور چبال حکومت کے دور میں یہ علاقہ اس ریاست کا حصہ تھا۔ کھڑی کھڑیالی ریاست 1400 سے لے کر 1820 تک قائم رہی۔ اس ریاست کے آخری حکمران راجہ عمر خان تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے سردار کھڑک سنگھ نے اس ریاست پر قبضہ کر کے اسے پنجاب میں شامل کر لیا۔ ۔ 1846 ء میں جب انگریزو ں نے مہاراجہ گلاب سنگھ سے کشمیر کاساتھ سودا کیا تو مہاراجہ نے ہزارہ اور ایبٹ آباد جو اس وقت کشمیر کا حصہ تھے، ان کو چھوڑ کر ان کے بدلے کھڑی کا علاقہ کشمیر میں شامل کر ا لیا۔ اس کے لئے دریا جہلم کو ریاست جموں وکشمیر اور برٹش انڈیا کی سرحد بنایا گیا۔ ڈوگرا راج میں علاقہ میں گائے زبح کرنے پر پابندی تھی جس کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور قید دونوں سزائیں مقرر تھیں۔

کھڑی میں سمعوال شریف اور سکھ چین پور ہندوؤں کی آبادی کے دو بڑے گاؤں تھے۔ سکھ چین پور میں لکڑی کی ایک بہت بڑی منڈی تھی۔ وادی جہلم اور نیلم سے دریا کے ذریعے لکڑی لائی جاتی اور سکھ چین پور کے مقام پر دریا سے نکال کر وہاں پربنی منڈی میں لا کر بیچی جاتی۔ اس وقت مہاراجہ کی ایک کوٹھی یہاں موجود تھی۔ ٹیلیفون کی سہولت مہیا تھی۔ ایک تھانہ تھا اور ایک سکول بھی تھا۔

اس علاقہ کے عوام نے مہاراجہ کے خلاف بہت پہلے تحریک آزادی شروع کی تھی۔ اسی طرح مالیہ۔ لگان اور مہاراجہ کے بیجا ٹیکسوں کے خلاف 1932 ء میں جب تحریک چلی تو کھڑی کے لوگوں نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ انیس سو اٹھاسی بکرمی کی اس شورش (بغاوت ) میں میموں پور۔ نواں گراں۔ چک لنگاہ۔ بنی ساہنگ۔ منگراج اور دوسرے کئی گاؤں کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر کے سکھ چین پور تھانہ میں بندکیا گیا۔ علاقہ کے کچھ لوگوں نے تھانہ کی حوالات کو توڑ کو وہاں قید لوگوں کو چھڑا لیا۔ اسلحہ لوٹ لیا جس کی پاداش میں اس بغاوت میں ملوث ان بہادر افراد کو چھپن چھپن سال قید کی سزائیں ملیں۔ (راقم کی اس پر تحقیق جاری ہے۔ جلد اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ رہا ہوں )

سمعوال شریف میں مہاجن اور ساہوکار رہتے تھے جو لوگوں کو سود پر قرضہ فراہم کرتے۔ سود در سود کے اس چکر میں مسلمان کاشتکار بری طرح جھکڑے ہوئے تھے۔ اس گاؤں میں بھی ہندو زیادہ تعداد میں تھے۔ سمعوال شریف تین سو سال سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہیں سے عارف کھڑی حضرت میاں محمد بخشؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم یہاں کے حافظ صاحبان سے حاصل کی۔ یہاں کی تین سو سال پہلے تعمیر ہونے والی مسجد بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مسجد علاقہ کھڑی کا ایک تاریخی ورثہ ہے۔ افسوس حکومت آزاد کشمیر نے اس پر کبھی توجہ نہیں دی۔ علاقہ میں گزشتہ دو زلزلوں کی وجہ سے اب مسجد کی عمارت اب کافی خراب ہو گئی ہے جس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کھڑی کا گھٹیالی پتن بھی کافی مشہور تھا۔ یہ چیچیاں کے مقام پر واقع ہے اور اب تو سالوں سے دریا میں پانی بہت کم ہونے کی وجہ سے متروک ہو چکا ہے۔ یہاں سے دریا کا پاٹ چوڑا ہونے کہ وجہ سے دریا جہلم کو عبور کرنا آسان تھا۔ یہاں سے کشتیوں پر دریا پار کر کے جہلم پہنچ کر وہاں سے جی ٹی روڈ اور ریلوے کے ذریعے سے لاہور اور دہلی تک کا سفر کیا جاتا تھا۔ پونچھ کے مہاراجہ کی یہ گزرگاہ تھی۔ اس پتن سے تھوڑا نیچے گنڈے سروانی کے مقام پر مہاراجہ کی ایک کسٹم چوکی تھی۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے اپنی کتاب ً میری یادو ں کے چنار ً میں پونچھ سے لاہور اور دہلی کے سفر کے دوران متعدد بار گھٹیالی پتن کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے گھٹیالی پتن کے پس منظرمیں دو افسانے بھی لکھے ہیں۔

کھڑی کھڑیالی سیاست کے والی راجہ اللہ داد خان کی جاگیر بھی لہڑی علاقہ کھڑی میں ہی واقع تھی۔ ان پر ایک انگریز مصنف رونالڈ کوہان جیسی رسل نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ نہر اپر جہلم پر صرف آزاد کشمیر کی حدود میں آپ کو ہر ایک میل کے فاصلے پرپل نظر آتے ہیں جو پنجاب میں نہیں ہیں۔ 1910 میں علاقہ کھڑی میں منگلا کے مقام پر دریا جہلم سے نہراپر جہلم نکالی گئی تو مہاراجہ کے ساتھ جو برٹش انڈیا حکومت کا معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت یہ طے پایا کہ نہر کی زمین مہاراجہ کی ملکیت رہے گی اور ریاست کی حدود میں ہر ایک میل پر نہر پر ایک پل بنے گا۔

تا کہ لوگ نہر کے پار اپنی زمینوں میں جا سکیں۔ جاتلاں اور چیچیاں کے مقام پر مہاراجہ نے بڑے پل بنانے کہ کہا کیونکہ جاتلاں پل کے ذریعے سکھ چین پور سے لکڑی اوردوسرا سامان میرپور اور ریاست کے دوسرے مقامات تک پنچایا جاتا تھا۔ اسی طرح چیچیاں پل سے سامان میرپور پنچایا جاتا۔ اس کی ایک اوربڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں سے مہاراجہ کی سواری گزرتی تھی۔ گھٹیالی اور سکھ چین پور کے پتن سے مہاراجہ اور اس کے خاندان کے لوگ جہلم پہنچتے تھے اور وہاں سے ریل کے ذریعے لاہور اور دہلی جاتے تھے۔ چیچیاں کے قریب نہراپر جہلم اور دریا جہلم کے درمیان 1941 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے انگریز وائسرائے ہندکے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر جو ایک یاد گاری تختی یہاں پر لگی تھی وہ ایک دیہائی پہلے تک موجود تھی۔ اس کے آثار چند سال تک چیچیاں تھانہ کے کہیں آس پاس موجود تھے۔

1948 میں میرپور شہر میں بہت فساد ہوئے تھے۔ اس وجہ سے میرپور کے پہلے ڈپٹی کمشنر خان عبد الحمید خان نے کچھ عرصہ کے لیے اپنا دفتر کھڑی میں افضل پور کے مقام پر قائم کیاجو شہر میں امن ہ امان کی صورت حال بہتر ہونے تک یہاں رہا۔ گورنمنٹ ایجوکیشن کالج کی بلڈنگ کے ساتھ اس عمارت کے آثار اب بھی ہیں۔

بابا پیرے شاہ غازی ؒ اور میاں محمد بخشؒ کے تذکرہ کے بغیر کھڑی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ حضرت باباپیرے شاہ غازیؒ کا مزار سینکڑوں سال سے لوگوں کے لئے مرجع خلائق عام ہے۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ مقام ولائیت پر فائز ہونے کے علاوہ ان کی شعرہ آفاق تصنیف ً سفر عشق۔ سیف الملوک ً کو پنجابی ادب اور صوفیانہ کلام میں ایک کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).