مبارک ہو، آپ خوف کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوئے



لاہور موٹروی پہ ہوئا المناک حادثہ تمام نیوز چئنلز بشمول سوشل میڈیا پہ وائرل ہو چکا ہے، بھیانک خواب جیسے اس حادثے کو وہ عورت اب زندگی میں کبھی بھلا نہیں پائے گی، جو مذہب اسلام کی محبت میں، ریاست مدینہ کا نام سن کر بچوں کہ ہمراہ فرانس سے دوڑی چلی آئی۔ وہاں پہ عریانی دیکھ کر وہ سمجھی کہ میں مدینے جیسی ریاست میں بچوں کہ ساتھ محفوظ رہوں گی، جہاں میری آزادی کبھی داغ دار نہ ہوگی، پر یہ تو ہونے سے رہا۔ یہ تو طئے رہا کہ بیچھ راستے پہ، اپنے بچوں کی موجودگی میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی وہ عورت اب کبھی کھل کہ جی نہیں پائے گی۔

یہ بھیانک حادثہ اس کی دل و دماغ پہ اس قدر حاوی ہو چکا ہے، کہ اب وہ کبھی اکیلے سفر کرنے کا سوچے گی بھی نہیں، بھلے کبھی وہ دیر رات کو تکلیف میں مبتلا ہو یا بیمار ہو، اب وہ اکیلی نہیں نکلے گی۔ وہ بھول جائے گی کہ، ایک عورت بھی ڈرائیونگ کر کہ کار چلا سکتی ہے۔ نہ صرف وہ پر اس کہ اردگرد موجود تمام خواتین جو کہ اپنی آزادی کو انجوائی کرنے کے لیے باہر نکلتی ہیں، جو کہ اپنے جائز حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے چار دیواری پار کرتی ہیں، اب ان سب میں خوف پیدا کرنے کا جو ہدف تھا، وہ کسی حد تک پورا ہو چکا ہے۔

پاکستان میں خواتین تمام شعبہ جات سے منسلک ہیں، ان میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا پروفیشن ان کو اکیلے سفر کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ جیسا کہ میڈیا سے وابستہ خواتین، دور دراز ملازمت کرتی خواتین، اور گھر کی اکیلی ذمہ داری سنبھالتی خواتین، ان سب کو نہ چاہتے ہوئی بھی اکیلے سفر کرنا پڑتا ہے، اور وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے اندر میں موجود تمام خوف کو شکست دے کر نکلتی ہیں۔ یہی شکست ان کو بہادری دیتی ہے، اور وہ اپنی، اپنے خاندان اور بچوں کی زندگیوں کو زیادہ بہتر اور پرسکون بنانے کے لیے، گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ یاد رہے کہ عورت کا گھر سے نکلنے کا مقصد کہیں نہ کہیں گھر والوں کو بہتر زندگی کی سہولیات دینا بھی ہوتا ہے۔

پر جس خوف کو وہ پیچھے چھوڑ کر نکلتی ہیں، افسوس وہ ان کہ دل و دماغ میں پھر سے تازہ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی معصوم زینب، کبھی معصوم ماروا، اور نہ جانے کتنی معصوم بچیاں اور خواتین جنسی زیادتی کا شکار اس لیے بھی ہوتی ہیں، کہ یہ باہر کیوں نکلیں، پردہ کیوں نہ کیا، برقعہ پوش کیوں نہ ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ کئی بیچاریاں تو مار دی جاتی ہیں، کچھ جو خوشقسمتی سے بچ جاتی ہیں، وہ بھی باقی زندگی اس عذاب کو بھلا نہیں پاتی۔

ایک طبقہ، ایک تنگ نظر سوچ، ایک ذہنی انتہاپسندی، جو عورت کو گھر میں قید کر کہ رکھنا چاہتی ہے، مذہب اسلام کی غلط تشریح کر کہ عورت کو محکوم بنانا چاہتی ہے، وہی سوچ ایک دفعا پھر اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ہماری ریاست، جس کہ ذمے پھلے ہی بہت جرم ہیں، اس کہ کندھوں پہ اور ایک جرم کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کسی بھی بچی، یا بڑی عورت سے ریپ کا سبب اس کہ کپڑے، اس کا میک اپ تو بتایا جاتا ہے، پر یہ کبھی نہیں کہا جاتا ہے، کہ وہ بھی ایک انسان ہی تو ہے۔

اس کو بھی تکلیف ہوتی ہے، درد ہوتا ہے، جب کوئی زبردستی اس کو نوچتا ہے، سانپ کی طرح اس پہ رینگتا ہے، اس کے ساتھ حیوانوں والا سلوک کرتا ہے۔ پر گلا کس سے کیا جائے، ہماری ریاست جس کو مدینہ کی مثالی ریاست کا نام دیا جا رہا ہے، وہ تو کوفہ سے بھی بدتر نکلی۔ جہاں ایک ماں، ایک بیٹی، ایک بہن اور بیوی محفوظ نہیں، وہاں اس سے زیادہ باقی اور کیا غلط ہو سکتا ہے؟ خواتین کہ ساتھ ہوتا ہوئا ہر ظلم، دو دن تک میڈیا پہ چھایا رہتا ہے، اور پھر اسے مٹی میں دفن کر دیا جاتا ہے، اور ظلم کرنے والے یونہی دن دناتے پھر رہے ہوتے ہیں، اور ایک نئے شکار کی تلاش کرتے ہیں۔

وہ ان حادثات کہ ذریعے اس قدر خوف بٹھانا چاہ رہے ہیں، کہ عورت مرتی مر جائے، پر گھر سے باہر نہ نکلے۔ خدا جانے ایسے لوگ اپنے گھر کی خواتین کہ ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے؟ خواتین جب اپنے جائز حقوق کی مانگ کہ لیے راستوں پہ آ کہ، یہ نعرہ لگاتی ہیں کہ ”میرا جسم، میری مرضی“ ، تو اسی طبقے سے تعلق رکھتے لوگوں کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں، جسم بھلے کسی بھی بچی یا عورت کا ہو، پر مرضی ہماری چلے، ہم جس طرح چاہیں اسے اذیت دیں، اپنی ہوس نکالیں، اور اسے تڑپائیں۔

ان لوگوں کہ خلاف تو کبھی کوئی فتویٰ، کوئی اسلامی حکم نامہ جاری نہیں کیا جاتا، پر جب یوم خواتین پہ خواتین اپنا حق مانگنے کہ لیے نکلتی ہیں تو، ان کو برا بھلا کہنے کہ لیے ہمارے مولوی حضرات اور تمام عالم دین سرگرم نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں نامور سماجی کارکن ماروی سرمد کو ایک عالم دین نے لائیو پروگرام پہ ایسی غلیظ اور ننگی گالیاں دیں، جو ہم لکھ اور بول بھی نہیں سکتے۔ باقی جو ریپ کا واقعہ موٹروی روڈ پہ ہوا، اس پہ اب تک وہی لوگ خاموش ہیں، ایک مذمتی بیان تک ان کی طرف سے جاری نہیں ہوئا، جو سمجھتے ہیں اس خاتون کہ ساتھ جو بھی ٹھیک ہی ہوئا۔

دیر رات کو اکیلی نکلنے کا مطلب یہی ہے کہ عورت ریپ کروانا چاہتی تھی، اف اللہ میری توبہ، یہ کس قسم کہ لوگ ہیں، جن کہ نزدیک عورت کہ انسان ہونے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور یہی خاموشی ان کی طرف سے اس بات کا اقرار ہے کہ، تین بچوں کی ماں کہ ساتھ جو ہوئا، وہ ٹھیک ہی ہوا۔ یہاں تک کہ حیرت تو سی سی پی او عمر شیخ کہ بیان پہ ہوئی، جس نے ساری حادثے کا ذمہ دار اس عورت کو ٹھرادیا، جو ظلم کا شکار ہوئی۔ اس ملک میں خوف اور دہشت کا راج تو پھلے سے ہی ہے، پر حالیہ واقعہ ان تمام لوگوں کی جیت ہیں، جو عورت کو محض ایک غلام اور ہوس نکالنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

ان کو اس بات کی بھی خاطری ہے کہ، چاہے جو بھی کر لیں، ہمیں سزا نہیں ہوگی، کیونکہ اس ریاست میں حکمرانوں کی فرمائشوں پہ ہر جگہ ایسے بندے بٹھائے ہوئے ہیں، جو ان کو کبھی کسی قانون کہ کٹھہرے میں آنے نہیں دیں گے۔ یہ وحشی درندے تو وہ ہیں جنہوں نے قبر میں مدفون خواتین کی لاشوں کو نہیں بخشا، ، معصوم ناسمجھ بچیوں پہ نہیں رحم کھایا، بلی کہ بچے کو نہیں چھوڑا، ڈولفن مچھلیوں کو نہیں جانے دیا، وہ ایک ماں کو کیسے بنا ریپ کیے جانے دے سکتے ہیں؟

یقیناً ایک ایسی ہی ماں کی گود سے ان کا جنم ہوئا ہوگا، جس نے ان کو دودھ پلا کر، پرورش کر کہ بڑا کیا ہوگا۔ انہوں نے یہ سب کرتے ہوئے ایک دفعہ بھی اپنی ماں، بیٹی، بہن کو حافظے میں نہیں لایا، جو بھی ایک خاتون ہے۔ جو کسی دوسری ماں کو بخش نہیں سکتے، کیا ان کہ شر سے ان کی اپنی بہن، بیٹیاں اور مائیں محفوظ ہوں گی؟ مجھے تو نہیں لگتا۔

حیران کن بات تو یہ بھی ہے کہ اس حادثے کا شکار عورت نے، پیٹرول نہ ہونے کی اطلاع پولیس کو بھی دی، تو عین ممکن ہے، انہیں میں سے کسی کی چغلی، یا کسی کی دی ہوئی خبر، اس واقعہ کا سبب بنی ہو۔ بے حس بنتے اس معاشرے میں، ہمیں اب شہر کہ رکھوالوں سے بھی کوئی امید نہیں، جو مجرم کہ بجائے مظلوم کو ہی قصور وار ٹھرانے میں دیر نہیں کرتے۔ اس حادثے کہ بعد، اپنی حقوق کی جنگ کڑنے والی کافی خواتین راستوں پہ آ کہ احتجاج کر رہی ہیں، کراچی، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں وہ اس حادثے کہ ملزموں کو پھانسی دینے کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں، پر ملزموں کی شناخت ہوجانے اور گرفتاری دینے کہ بعد بھی، کوئی خاصی امید نہیں ہے۔

ان کو سزا بھی آ جائے تو جو خوف کی فضا قائم ہوئی ہے، وہ اتنی جلد ختم نہیں ہو پائے گی، جو ڈر خواتین کہ دلوں میں بٹھایا گیا ہے، وہ اتنا جلد کوچ نہیں کر پائے گا۔ عمران خان کی اس نئی ریاست مدینہ، اور نئے پاکستان میں، اسلام کہ نام پہ جو خوف کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، وہ اس میں اب کامیاب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اس بات پہ وہ مبارکباد کہ مستحق ہیں۔ میں تمام کابینہ کہ وزراء، پنجاب پولیس اور دیگر پی ٹی آء کہ ممبران کو خصوصی طور پہ مبارکباد دیتی ہوں، پر ایک عرض کرتی ہوں کہ اس ریاست کا نام ریاست مدینہ کہ بجائے، ریاست کوفہ رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).