افغانستان میں امن کی قیمت کیا خواتین کو ادا کرنی پڑ رہی ہے؟
ابھی صبا سحر کو کابل میں اپنے گھر سے روانہ ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ ان کے شوہر کو گولیوں کی آواز آئی۔ صبا ایک اداکارہ اور فلم ہدایتکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سینیئر پولیس اہلکار بھی ہیں۔ انھیں کئی بار دھمکیاں دی جا چکی تھیں اسی لیے گولیوں کی آواز سنتے ہی ان کے شوہر نے صبا کو فون کرنے کی کوشش کی۔
ان کے شوہر ایمل زکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صبا نے فون اٹھایا اور مجھے کہا کہ جلد از جلد آ جاؤ۔ انھیں گولی لگ چکی تھی۔‘
موقعے پر پہنچنے والے پہلے شخص ایمل تھے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی ایک دیوار کے پیچھے چھپی بیٹھی تھیں۔ انھوں نے اور ان کے محافظوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا تھا۔ صبا کو متعدد گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایمل نے اپنی بیوی کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال کی طرف بھاگے۔
صبا سحر افغانستان کی پہلی خواتین فلم ہدایتکاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی زندگی میں افسانہ اور حقیقت کبھی کبھی ایک دوسرے میں لپٹ جاتے ہیں۔ صبا نہ صرف افغان پولیس میں اہلکار ہیں بلکہ انھوں نے افغان پولیس کے بارے میں ایک ٹی وی سیریز میں بنائی ہے۔
اس وقت صبا ہسپتال میں صحت یاب ہو رہی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا کام دوبارہ شروع کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر کا خیال ہے کہ انھیں خواتین کے حقوق کے حوالے سی ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔زکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو خواتین آواز اٹھاتی ہیں وہ ہمیشہ خطرے میں ہوتی ہیں۔ مگر میرے خیال میں یہ حملہ افغانستان کی خواتین کی آواز کو خاموش کرنے میں ناکام رہیں گی۔‘
1990 کی دہائی میں طالبان کے دور میں افغانستان کی خواتین کو کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 2001 میں ان کی حکومت گرائے جانے کے بعد اس حوالے سے تھوڑی بہت بہتری آئی ہے مگر ابھی بھی اس حوالے سے کافی چیلنجز موجود ہیں۔
طالبان کا اب کہنا ہے کہ خواتین کے کام کرنے یا ان کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں مگر بہت سے لوگ ابھی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
صبا سحر پر حملہ گذشتہ چند ماہ کے دوران معروف خواتین پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان میں سے بیشتر واقعات میں طالبان نے واقعے کی ذمہ داری نہیں لی ہے مگر کسی اور گروہ نے بھی ایسا نہیں کیا ہے۔
ان مخصوص حملوں کا سلسلہ جن میں کسی ایک فرد کو نشانہ بنا جائے یا چھوٹے چھوٹے بم استعمال کیے جا رہے ہیں، اس طرح کے حملوں میں کابل میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ دیگر طرز کے حملوں میں کمی آئی ہے۔ جب سے فروری میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہے، کابل میں بڑے پیمانے پر ہونے والے خودکش حملوں میں بہت کمی ہوئی ہے تاہم دیہاتی علاقوں میں بڑے حملے جاری ہیں۔آئندہ چند روز میں طالبان اور افغان حکام کے درمیان مذاکرات شروع ہونے والے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سول سوسائٹی کو خاموش کرنے اور ڈرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان حملوں کے متاثرین میں وزارت تعلیم کی ایک سینیئر اہلکار جنھوں نے ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی تھی اور ملک کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ جون میں افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن کی ملازم فاطمہ خلیل کے قتل پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
گذشتہ ماہ سیاستدان فوزیہ کوفی جو کہ مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ ہیں، انھیں کابل میں گولیاں ماری گئی۔ وہ اس حملے میں زخمی ہوئیں مگر بچ گئی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حملہ انھیں اپنا کام کرنے یا طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے روکے گا نھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’بلکہ اس سے میں اور پرعزم ہوگئی ہوں۔ میں دیکھ رہی تھی کہ پوری عوام میرے ساتھ کھڑی ہے۔ جو لوگ میری رائے سے متفق نہیں ہیں، وہ بھی اس حملے کی مذمت کر رہے تھے۔‘
ان کا خیال ہے کہ انھیں دو وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ہے، ایک تو ان کے سیاسی خیالات اور دوسرا مذاکرات کو خراب کرنے کی کوشش کرنا۔
اب تک یہ واضی نہیں ہے کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے۔ کیا طالبان ان کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں اور وہ ذمہ داری قبول نہیں کر رہے؟ کیا دولتِ اسلامیہ جیسے کوئی اور گروہ ان میں ملوث ہیں؟ یا علاقائی انٹیلیجنس ایجنسیاں معاملات بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہیں؟
فوزیہ کوفی کا کہنا ہے کہ انھیں یہ پریشانی لگی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں اور ماہ میں مزید خواتین کو نشانہ بنایا جائے گا۔
’ہمیں بدقسمتی سے امن حاصل کرنے سے قبل ایک بڑی قیمت ادا کرنی ہوگی۔‘
- چڑیا گھر میں سات سال تک نر سمجھا جانے والا دریائی گھوڑا مادہ نکلی - 25/04/2024
- امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ 61 ارب ڈالر کی عسکری امداد یوکرین کو روس کے خلاف کیسے فائدہ پہنچائے گی؟ - 25/04/2024
- امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).