بین الافغان امن مذاکرات: سرکاری کمیٹی کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور طالبان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم کون ہیں؟


افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلے امن مذاکرات مہینوں کی تاخیر کے بعد سنیچر کے روز خلیجی ریاست قطر میں شروع ہونے والے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افتتاحی تقریب کے لیے دوحا جاتے ہوئے اس اجلاس کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے۔

یہ مذاکرات فروری میں امریکہ اور طالبان کے سکیورٹی معاہدے کے بعد شروع ہونا تھے۔

لیکن کچھ متنازعہ قیدی کے تبادلے پر اختلافات کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

افغان حکومت کا ایک وفد جمعہ کے روز 11 ستمبر کو کابل سے دوحہ روانہ ہوا۔۔ یہ وہی تاریخ ہے جب 19 برس قبل امریکہ پر وہ حملے ہوئے تھے جن کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔

وفد کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ’منصفانہ اور باوقار امن‘ کے خواہاں ہیں۔ اس وفد میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمار اور کابینہ کے دیگر اراکین شامل ہیں۔

جمعرات کے روز طالبان نے تصدیق کی تھی کہ چھ قیدیوں کے آخری گروپ کی رہائی کے بعد، وہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔

مزید پڑھیے

افغان صدر اشرف غنی کی طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری

مذاکرات نہ ہونے کا زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا: طالبان

افغان طالبان کے ان چھ قیدیوں کو رہائی کے بعد کابل سے قطر کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔

افغان حکومت نے ستمبر کی دس تاریخ کو یہ اعلان کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بارہ ستمبر سے شروع ہوں گے۔

افغان حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لیے نامزد کردہ 21 رکنی سرکاری کمیٹی کی قیادت کرنے کے لیے افغان خفیہ ادارے کے سابق معصوم ستانکزئی کو مقرر کیا گیا ہے۔

ستانکزئی جنھوں نے دس سال تک افغان فوج میں خدمات انجام دی ہیں، انھوں نے افغانستان میں جنگ کے بارے میں کئی دستاویز بھی شائع کی ہیں اور اانھیں صدر اشرف غنی کے انتہائی قریب تصور کیا جاتا ہے۔

اہم نکات

محمد معصوم ستانکزئی کا تعلق پختون قبیلے ستانکزئی سے ہے اور ان کی پیدائش لوگر صوبے کے ضلع محمد آغا کے گاؤں مغل خیل میں 1958 میں ہوئی۔ ان کے والد محمود خان ایک سرکاری اہلکار تھے۔

انھوں نے کابل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد انھوں نے کابل کی فوجی یونیورسٹی سے فوجی ڈگری حاصل کی۔

افغانستان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے انجینئرنگ اور پائیدار ترقی اور اس کے بعد امریکہ کی پرسٹن یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔

سابق صدر حامد کرزئی کے عبوری دورۂ حکومت میں انھیں سنہ 2002 میں وزیر مواصلات نامزد کیا گیا اور اس کے بعد سن 2008 میں انھیں داخلی سلامتی کے بارے میں انھیں صدر کا مشیر مقرر کیا گیا۔

سنہ 2010 میں مسلح گروپوں سے بات چیت کے لیے حکومت کی طرف سے بنائے گے امن جرگہ کے سیکریٹریٹ کی سربراہی کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔

عبد اللہ عبد اللہ

ستانکزئی پر اب تک دو قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں

سنہ 2011 میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں وہ زخمی ہو گئے تھے اس کے بعد سنہ 2014 میں کابل میں سرکاری قافلے پر ایک اور حملے میں وہ بچ گئے تھے۔

افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی نے سنہ 2015 میں ان کا تقرر ملک کے وزیرِ دفاع طور پر کیا لیکن ملک کی پارلیمان سے وہ اس کی توثیق نہ کروا سکے۔

معصوم ستانکزئی کو سنہ 2016 میں ملک کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ڈائریکٹر جنرل کے اہم ترین عہد پر فائز کیا گیا اور اس عہد پر وہ اپنی ذمہ داریاں ستمبر سنہ 2019 تک انجام دیتے رہے جب نگر ہار صوبے میں فوجی کارروائی کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے بعد انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

اس سال مارچ میں ان کو حکومت کی طرف سے مقررہ کردہ مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرنے کے لیے چنا گیا۔ افغان طالبان اور دیگر مسلح گروپوں سے مذاکرات کے لیے تشکیل دی گئی اس کمیٹی میں سیاست، سابق اعلی سرکاری سول اور فوجی اہلکاروں کے علاوہ معاشرے کی سرکردہ شخصیات بھی شامل ہیں۔

ان کے اپنے الفاظ میں

بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے چند روز قبل تین ستمبر 2020 کو انھوں نے حکومتی ٹیم کی تشکیل کا دفاع کیا تھا۔

طلوع ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ‘امن مذاکرات کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کا نصب العین ایک ترقی پسند، آزاد اور متحد افغانستان کا قیام ہے جس میں یہاں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔’

ستانکزئی نے کئی مرتبہ پاکستان کے خلاف کھلے عام بات کی ہے اور اس پر افغانستان کے اندر مداخلت کرنے اور طالبان کی شر پسندانہ کارروائیوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے۔

انھوں نے سنہ 2015 میں کہا تھا کہ پاکستان کے اندر کھلے اجلاسوں میں طالبان کے رہنماؤں کی بیت کی جاتی ہے اور طالبان افغانستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ اقدامات غیر اعلانیہ جنگ کو اعلانیہ جنگ میں تبدیل کرنا ہے۔’

اور لوگ کیا کہتے ہیں

ستمبر سنہ 2019 میں ستانکزئی کا این ڈی ایس کے سربراہ کے طور پر استعفی قبول کرنے کے بعد صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ‘ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے شہریوں کی ہلاکتیں کس صورت بھی برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ میں نے ستانکزئی کا اسعتفی قبول کر لیا ہے جن کی بہت خدمات بھی ہیں۔’

ان کے استعفی کے بعد ان کے بہت سے ناقدیں کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تیزی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے تھے۔

افغانستان کے سابق نائب وزیر داخلہ بسیر سلانگی نے کہا کہ ستانکزئی این ڈی اے کے سربراہ کے طور پر دوسرے کاموں میں زیادہ مصروف رہے۔ ان کے مطابق صدر اشرف غنی کے معاون ہونے کے ناطے وہ امن معاملات، بیرونی دوروں اور دوسرے مسائل میں الجھے رہے اور این ڈی اے کے سربراہ کے طور پر قومی سلامتی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ نہیں دے سکے۔

مولوی عبدالحکیم کون ہیں؟

افغان طالبان نے بھی ان مذاکرات کے لیے اکیس رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے ان مذاکرات کی قیادت طالبان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم کریں گے۔

مولوی عبدالحکیم کو افغان طالبان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورطالبان تنظیم کے اندر جنگ کے بارے اکثر فتوے انھی کی جانب سے جاری ہوتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے لیے مولوی عبدالحکیم کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ مولوی عبدالحکیم افغان طالبان میں سخت گیر موقف رکھنے والے رہنما ہیں لیکن ان کے بعض قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولوی عبدالحکیم اصولی موقف اور اکثر مشکل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان میں متعدد مرتبہ مشکل مراحل آئے جنھیں مولوی عبدالحکیم نے حل کر دیا تھا۔

مولوی عبدالحکیم کی عمر لگ بھگ 65 سال ہے اور انھوں نے ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی تھی جبکہ پاکستان کے شہر اکوڑہ خٹک میں جامعہ دارلعلوم حقانیہ میں انھوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور یہاں ان کی دستار بندی کی گئی تھی۔ افغانستان میں وہ مولوی محمد نبی محمدی کی جماعت کا حصہ رہے۔ اس جماعت میں ان کے والد بھی رہے تھے۔

موجودہ حالات میں طالبان کے مذاکراتی ٹیم کے لیے دیگر افراد پر بھی غور کیا گیا تھا لیکن مولوی عبدالحکیم کے قطر جانے کے بعد انھی کو ان مذاکرات کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

طالبان کی جس ٹیم نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیے تھے اب اس مرتبہ ٹیم میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کی جگہ اب ڈاکٹر محمد نعیم کو تنظیم کا ترجمان مقرر کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد نعیم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ براہ راست طالبان کا حصہ نہیں رہے تھے بلکہ انھوں نے پاکستان میں انٹرنیشنل اسلام یونیورسٹی اسلام آباد سے اعلی تعلیم حاصل کی ہے اور یہیں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔اس کے علاوہ بھی افغان طالبان کی ٹیم میں اس مرتبہ دیگر افراد کو بھی مذاکرات کے لیے شامل کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد نعیم نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا افتتاحی اجلاس سنیچر کی صبح دوحہ میں ہو رہا ہے جس کے لیے ان کی ٹیم مکمل طور پر تیار ہے۔ انھوں نے کہاکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات ہو رہے ہیں جس میں افغان طالبان بہتر انداز میں شریک ہوں گے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں مکمل امن اور اسلامی نظام نافذ ہو سکے۔

افغان حکومت کے وفد میں کابینہ کے اراکین کے علاوہ دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ افغان حکومت کے مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ تاریخی مذاکرات ہو رہے ہیں جس میں ان کی کوشش ہو گی کہ ملک میں سالوں سے جنگ کے آثار اور لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے فیصلے کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اعتماد سازی کے کچھ فیصلوں کے بعد ممکن ہو سکا ہے۔

طالبان

طالبان قیدی رہا کر دیے گئے ہیں؟

سوشل میڈیا پر جمعہ کے روز ان چھ افغان طالبان قیدیوں کی تصاویر بھی وائرل ہوئیں جنھیں رہا کرکے کابل ایئر پورٹ پر قطر روانہ کیا جا رہا ہے۔ ان افغان طالبان قیدیوں کی رہائی پر فرانس اور آسٹریلیا کو تحفظات تھے۔

ان قیدیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بڑے جرائم میں ملوث رہے اور یورپی ممالک کے اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھے۔

ان قیدیوں میں ایک حکمت اللہ ہیں افغان نیشنل آرمی کے اہلکار تھے۔ انھوں نے سال 2011 میں افغانستان کے اوروزگان صوبے میں آسٹریلیا کے تین فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکمت اللہ پر الزام ہے کہ ان فوجیوں پر حملے کے بعد وہ افغان نیشنل آرمی کی گاڑی میں فرار ہوے اور پھر سال 2011 کے آخر میں طالبان کے ساتھ مل گئے تھے۔

دوسرے قیدی عبدالصبور ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بھی افغان آرمی کے اہلکار تھے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کپیسا صوبے کے شہر تگاب میں فرانس کے پانچ فوجیوں کو ہلاک اور 13 کو زخمی کر دیا تھا ۔ یہ واقعہ سال 2012 میں پیش آیا تھا ۔ عبدالصبور کابل کے ضلع موساہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک قیدی کا نام داؤد اور دوسرے کا سید رسول بتایا گیا ہے اور یہ دونوں فوجی بھی بڑے واقعات میں ملوث بتائے گئے ہیں۔

افغان رہنماؤں میں سے کون شریک نہیں ہو رہا؟

ان مذاکرات میں بظاہر افغان حکومت اور افغان طالبان کے وفود نمایاں ہیں جبکہ امریکہ، قطر اور پاکستان سے اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہے ۔

لیکن دوسری جانب جیسے ان مذاکرات کو بین الافغان مذاکرات کا نام دیا گیا ہے اس کے برعکس کچھ اہم افغان دھڑے ان مذاکرات میں شریک نہیں ہو رہے۔ ان اہم شخصیات میں سابق افغان وزیر اعظم اور اپنی جماعت کے سربراہ گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔

انھوں نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ افغان حکومت نے ان مذاکرات کے لیے ایک کمزور ٹیم تشکیل دی ہے جسے مذاکرات کے بارے میں کچھ تجربہ اور معلومات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے وفد کو ان مذاکرات کے ایجنڈے سے باخبر نہیں رکھا گیا اور یہ کہ موجودہ افغان مذاکراتی ٹیم ملک میں امن کے قیام کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتی۔

گلبدین حکمت یار کی جماعت کی جانب سے اس خطبے کے اقتباسات تحریری طور پر موصول ہوئے ہیں۔ ان کے جماعت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ گلبدین حکمت یار کو اس وفد پر تحفظات ہیں اس لیے وہ یا ان کی جماعت کا کوئی رکن ان بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کر رہے۔

اس کے علاوہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا سابق صدر حامد کرزئی، جمعیت اسلامی افغانستان اور حزب وحدت کے نمائندے ان مذاکرات میں شریک ہو رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان میں 5000 افغان طالبان کے قیدی افغان حکومت رہا کرے گی جبکہ طالبان کی تحویل میں موجود 1000 افغان حکومت کے اہلکاروں کو طالبان رہا کریں گے۔

اس دوران امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کردے گا۔ امریکی فوجیوں کی ایک تعداد افغانستان سے واپس امریکہ روانہ ہو گئی تھی اور قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع تو ہو گیا تھا لیکن اس میں رکاوٹیں آتی رہیں اور تاخیر ہوتی رہی۔ اگرچہ بین الافغان مذاکرات معاہدے کے دس روز بعد شروع ہونا تھے لیکن اس میں 6 مہینے اور بارہ دن لگ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp