پنجاب میں آئی جی، آئی جی۔۔۔!


پنجاب میں سیاسی فضا مکدر ہوتی جا رہی اور پولیس پر حکمرانوں کا دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسی حکومت جو دن رات میرٹ پرکام کرنے کے دعوے کرتی رہتی ہے، بیورو کریسی اور پولیس میں اپنے ڈھب کی تقرریاں کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ تازہ مثال پنجاب پولیس کی اعلیٰ قیادت کی تقرری کا معاملہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دو سالہ اقتدار کے دوران پنجاب میں چھٹا آئی جی لے کر آئی ہے جبکہ تین چیف سیکرٹری تبدیل کر چکی ہے۔

حال ہی میں فارغ کیے جانے والے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر ایک اچھی شہرت کے مالک ایماندار افسر تھے لیکن سیا ستدانوں نے پولیس سے جوکام لینے ہوتے ہیں اس میں راست باز، قواعد وضوابط کی پابندی کرنے والے افسروں کی کہاں گنجائش ہوتی ہے۔ شعیب دستگیر نے اپنے کنڈکٹ سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نسبتاً با اصول پولیس افسر ہیں جو حکمرانوں کی ہر ادا پرکورنش بجا لانے سے قاصر رہتے ہیں۔ جب شعیب دستگیر کو لایا گیا تھا تو وزیراعظم نے بڑے شاندار الفاظ میں انہیں جی آیاں نوں کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ ایسے مسیحا ہیں جو پنجاب میں مجرموں کا خاتمہ کردیں گے لیکن اس حکومت کی روایات کے عین مطابق ان کا نو ماہ بعد ہی دھڑن تختہ کر دیا گیا۔

خان صاحب کے ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر بنانے کے دعوے صرف ان کی خواہش کے گھوڑے دوڑانے تک محدود ہیں۔ آئی جی کی چھٹی کرانے کے باوجود صوبے کا کوتوال اعلیٰ ایسا نہیں ملا جوان کے ڈھب کے مطابق چل سکے۔ نئے آئی جی انعام غنی کی تقرری سے پہلے پانچ آئی جیز آزمائے گئے جن کی اوسط مدت ملازمت پانچ ماہ سے زیادہ نہیں رہی۔ دراصل پی ٹی آئی کی حکومت کو پنجاب کے ہر اعلیٰ پولیس افسر کے پیچھے نوازشریف اور شہبازشریف چھپا نظر آتا ہے۔

اسی بنا پر پولیس افسر کی طمطراق کے ساتھ تقرری کے ساتھ ہی اعتماد کا فقدان ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر اس کی رخصتی یا استعفے پر منتج ہوتا ہے لیکن شعیب دستگیر کے معاملے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے غلط فیصلے کرنے کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ شعیب دستگیر کی مرضی کے خلاف ایک ایسے سی سی پی او کو لاہور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جو اپنی ”اعلیٰ کارکردگی“ کی بنا پر سی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں اور جن کی اپنی سروس کے دوران قابل رشک شہرت نہیں ہے۔

اس ضمن میں ان کے کمانڈر آئی جی کے تحفظات کو رد کر کے عمر شیخ کو تعینات کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ شعیب دستگیر کے لیے یہ صورتحال قابل قبول نہیں تھی، کوئی بھی خوددار افسر اس صورتحال میں کام نہیں کر سکتا، انہوں ان حالات میں بطور آئی جی پنجاب کام کرنے سے معذرت کر لی جس پر انہیں ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے وردی پہنی اور نہ آئی جی کی تبدیلی کی تقریب میں شرکت کر کے اپنے جانشین کو آئی جی کی چھڑی دی۔

گزشتہ دنوں لاہور میں موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے قلب میں لا اینڈ آرڈر کی کیسی صورتحال ہے، اگر معالات ایسے ہی چلتے رہے تو صوبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ شیخ صاحب کو خان صاحب نے اپنے آئی جی کے مقابلے میں فوقیت کیوں دی؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ واضح کر دیا کہ حکومت کی اگر نوکری کرنی ہے تو حکمرانوں کی ہر جائز ناجائز خواہش پر صاد کرنا پڑے گا۔

حکومت کے اس فیصلے پر پولیس میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایک ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود نے نئے آئی جی انعام غنی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا بلکہ کئی سابق پولیس افسروں نے اپنی ایسوسی ایشن کے ذریعے موجودہ صورتحال پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ لگتا ہے کہ نئے سی سی پی او کو بڑی چھان پھٹک کے بعد اس اصول کے تحت لایا گیا ہے کہ یہ اپنی شہرت کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کے ہر جائز ناجائز حکم پر عمل بجا لائیں گے۔

سیاستدانوں کے لیے اپنی مرضی کے پولیس افسر اور بیوروکریسی لانا معمول کی کارروائی ہے۔ جن سرکاری اہلکاروں نے حکومت کے دعوؤں کہ نئے پاکستان میں ایسا نہیں ہو گا۔ میرٹ کی پالیسیاں اپنانے کی کوشش کی انہیں منہ کی کھانا پڑی اور ان پر یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ تبدیلی صرف حکمرانوں کی تقریروں تک ہی محدود ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے تیسرا پارلیمانی سال شروع ہونے کے ساتھ ہی اپنے اقتدار کودوام بخشنے کے لیے عملی کارروائیوں کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق آئندہ چند ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں ”مثبت نتائج“ حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے لیے ایسا کرنا ناگریز ہوگیا ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات جیتنے کی بنیاد پر ہی عام انتخابات میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ عمر شیخ کو لانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت لاہور میں پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے جا رہی ہے۔ ان دعوؤں کے باوجود کہ میرٹ اور صرف میرٹ ہی ہماری پالیسی ہے ایسے بندے کو لے کر آئے ہیں جو سی کیٹیگری میں جگہ پا چکا ہے۔

یہ بالکل وہی پیٹرن ہے جس پر مسلم لیگ (ن) اپنے ادوار اقتدار میں عمل کرتی رہی ہے اور پی ٹی آئی انہیں ہدف تنقید بنایا کرتی تھی۔ پولیس اور بیوروکریسی میں اتنے وسیع پیمانے پر تطہیر کا واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ موجودہ حکومت جو اپنے پیشروؤں کے طور طریقوں کو ہمیشہ غلط کہتی رہی اپنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ فرانسیسی مقولہ ہے جس کے مطابق جتنی بھی تبدیلی لائی جائے معاملات جوں کے توں ہی رہتے ہیں، تبدیلی کے پیامبر عمران خان کی حکومت پر پوری طرح فٹ ہوتا ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان جو ”جگت بازی“ اور آف دی کف فقروں کے لیے خاصے مشہور ہیں، ہر وقت طع آزمائی کرتے ہیں، وہ اپنی ہی حکومت کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری جو خود بھی اپنے ساتھیوں کو جلی کٹی سنانے میں مشہور ہیں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “ان کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے، میرے خیال میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہمیشہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ باز آنے والے نہیں ہیں، جس کے دماغ کو حکیم لقمان بھی ٹھیک نہ کر سکے اس کے دماغ کو کوئی بھی ٹھیک نہیں کر سکتا”۔ فیاض الحسن چوہان اکثر اوقات اپنے ساتھیوں کو ا س قسم کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ منفرد حکومت ہے کہ خان صاحب کی ٹیم میں جوتیوں میں دال بٹتی رہتی ہے اور انہیں روکنے والا یا ڈسپلن میں لانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس ناقابل رشک انداز حکمرانی پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).