اب کیا لکھا جائے۔۔۔ جنت رسوا ہو گئی


اب زمانہ ڈیجیٹلائزڈ ہو گیا ہے۔ ہر فرد کے ہاتھ موبائل۔ فون نظر آتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل۔ فون کی وجہ سے سوشل میڈیا کی تیز رفتاری یہ ہے کہ جو خبر دنوں میں عوام تک پہنچتی تھی وہ اب ایک کلک پر کچھ وقت میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اور اخبار پڑھنے کا معاملہ تقریباً اسی فیصد ختم ہو چکا ہے کیونکہ جو خبر اخبار میں دوسرے دن آپ کو پڑھنے کو ملے گی، وہ آپ راتوں رات ویب سائٹس یا مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دیکھ، سن اور پڑھ سکتے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ کچھ اپنا ہے کہ روزانہ دن میں دو تین ویب سائٹس کو وزٹ کرنا اور تازہ ترین صورت حال سے آگاہ رہنا عادت بن چکی ہے اگر دن کو وقت نہ ملے تو رات کو ایک نظر تمام خبروں پر ڈال لیتا ہوں۔ کل بھی کچھ ایسا ہی واقع پیش آیا کہ دن بھر وقت نہ ملنے پر جب رات کو ویب سائٹس وزٹ کیں تو ہر جگہ ”زیادتی“ کی خبر پڑھنے کو ملی جب کچھ لکھاریوں کو پڑھ چکا تھا تو دماغ میں ایک عجیب سا غصہ اور غم تھا۔ غصہ ان لوگوں کے لیے جو ایک عورت کو رات کے وقت نوچتے رہے اور غم یہ تھا کہ بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی جنت داغ دار کی جا رہی تھی۔

کیا اب ان بچوں اور اس عورت کو ہمارا معاشرہ جینے دے گا؟

رات بھر یہی سوچتا رہا کہ کیا لکھا جائے، مرد، مرد نہیں رہا اور اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ لکھنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ کہ لکھنے پڑھنے والوں نے بھی موقع کی تلاش پا کر بچے بچیوں کو نوچا جس میں ہمارے مختلف اسکول، کالجز اور مسجدوں کے پڑھے لکھے اساتذہ شامل ہیں۔ قبر میں پڑی عورت کی لاش ہو یا گاڑی چلاتی عورت، تعلیمی درسگاہوں کو جانے والی بچیاں ہوں یا بچے گھر میں کام کرنے والی عورت ہو یا آفس میں کام کرنے والی عورتیں ہوں سب کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

جب ٹیوٹر اور فیس بک کا رخ کیا تو ہر شخص کی طرف سے یہی لکھا پڑھنے کو ملا کے سر عام پھانسی دی جائے۔ کیا زینب کیس کے بعد ملزم کو پھانسی نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود زیادہ کیس سامنے آئے۔ اب کل کو ایک کیس موٹر وے پر ہو رہا ہے اب اس کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی کہ ایک اور گینگ ریپ تونسہ شریف میں ہو گیا ابھی وہ خبر چل رہی تھی کہ بارہ سالہ لائبہ کو گوجرانوالہ میں کسی درندے نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

ہمارا معاشرہ کس راہ پر چل نکلا ہے ہمارے علماء کرام ہیں تو وہ سنی شیعہ فسادات میں پھنسے ہوئے ہیں یا پھر ان کو سیاست سے فرصت نہیں اور سوشل میڈیا صارفین فتویٰ جاری کر رہے ہیں۔

گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت کو آج کا ہمارا یہ معاشرہ گندی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ غربت نے عورت کو مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ عورت یا کسی فیکٹری میں کام کر کے یا کسی دفتری کام کو سنبھال کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہی ہے۔ لیکن ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہم خود ہی ان کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے زیادہ کیس خودکشی کے بھی سامنے آئے۔ کسی کو کم تنخواہ پر اور کسی کو پروموشن کی لالچ میں زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

”اب کیا لکھا جا سکتا ہے۔

ہم کیا پڑھ کر اس پر عمل کرتے ہیں اور ہمارے سیاست دان یا ہماری پولیس، فوج سچ کو سننے کی ہمت رکھتی ہے۔ بالکل نہیں ”

پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ رات کے اس وقت عورت کا کیا کام گھر سے باہر تو جناب یہ آزاد ملک ہے اور آزاد ملک میں عوام اگر آزادی سے نہیں گھوم سکتی تو یہ لوگ پھر کہاں جائیں۔ جو اب ایک آزاد ملک میں بھی ٹائم فریم لے کر نکلیں گے۔ اب اگر رات کو کوئی ایمرجنسی ہے تو کیا صبح سورج نکلنے کا انتظار کیا جائے گا۔ یہاں بلی کے بچے سے لے کر انسانی زندگی تک محفوظ نہیں تو آپ کس چیز کی لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ سوالات کرنے یا سچ لکھنے پر آپ اس سچ کو یا اس آواز کو کیوں دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام میں عورت کا گھر سے اکیلا نکلنا جائز نہیں اور یہ کہاں لکھا ہے کہ عورت کو اکیلا پا کر اس کی عزت کو لوٹ لو۔ ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے اگر واقعہ سڑک پر پیش آیا تو انجام بھی ایسے لوگوں کا سڑک پر ہونا چاہیے تا کہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور ان کو مشکوک پانے کی صورت میں متعلقہ تھانہ سے رجوع کریں۔ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور ان کا اٹھنا بیٹھنا کیسے افراد کے ساتھ ہے یہ چیک کرنا والدین کی ذمہ داری ہے تا کہ کل کو آپ کا بچہ کسی نقصان سے بچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).