قیامت تو گزر چکی بس جہنم تک پہنچنا باقی ہے


افسوس صد افسوس۔ ۔ ۔ اسکول میں ریپ، دفتر میں ریپ، مدرسے میں ریپ، گلیوں میں ریپ، ستر سالہ سے ریپ، سات سالہ سے ریپ، زندہ سے ریپ، قبروں سے نکال کے میتوں سے ریپ، مساجد کے حجروں میں بچوں سے ریپ، رات کو ریپ، دن دیہاڑے ریپ، خواجہ سراہوں سے ریپ، دو بچوں کی ماں سے ریپ۔

سوچو پوری زندگی وہ بیٹا بیٹی کس اذیت سے گزریں گے؟ وہ ماں کس اذیت سے گزرے گی؟

آپ کہیں بھی محفوظ نہیں، یہ اس لئے نہیں کہ انسانیت مر گئی وغیرہ وغیرہ، انسانیت مردہ ہی رہی اس لئے قوانین بنائے گئے، ہم انسانیت سے زیادہ ڈر کے قائل ہیں، جب چوک پہ لٹکائے جانے کی مثالیں موجود ہوں گی تو آٹومیٹک یہ درندے ختم ہوں گے، اگر انسانیت کو دیکھا جاتا تو سنگ ساری والے قانون نا ہوتے، چورتو نبی کریم ص کے دور میں بھی تھے تب ہی تو ہاتھ کاٹے جاتے تھے، سب اس لئے ٹھیک تھا کہ قانون سخت تھے، قانون کا نفاذ تھا، پیغمبر اسلام اپنی بیٹی کا بھی کہتے تھے کہ اگر فاطمہ نے چوری کی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا،

صحیح البخاری حدیث نمبر 6787

حدثنا ابو الولید، حدثنا اللیث، عن ابن شھابٍ، عن عروة، عن عائشة، ان اسامة، کلم النبی صلى اللہ علیہ وسلم فی امراةٍ فقال ‏ ”‏ إنما ہلک من کان قبلکم انھم کانوا یقیمون الحد على الوضیع، ویترکون الشریف، والذی نفسی بیدہ لو فاطمة فعلت ذلک لقطعت یدھا ‏“ ‏‏۔ ‏

ترجمہ:

ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہؓ سے کہ اسامہ بن زیدؓ نے (جو آپﷺ کے بڑے چہیتے تھے ) ایک عورت کی سفارش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا (واہ واہ) تم سے پہلے جو امتیں گزریں وہ اسی وجہ سے تو تباہ ہوئیں۔ وہ کیا کرتے تھے کم ذات (غریب آدمی) پر تو (شرعی) حد قائم کرتے تھے اور شریف کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہؓ (میری بیٹی) بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

لیکن یہاں؟ سب کے پیچھے کوئی ایم این اے، کوئی ایم پی اے ہوگا، کوئی وزیر ہوگا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔

بالکل اسی طرح جیسے 11 ستمبر 2020 کو لاہور موٹروے پرایک خاتون کے ساتھ اس کے معصوم بچوں کے سامنے کی جانے والی زیادتی کے معاملے پر اس کے اصل ملزموں کو بچایا جا رہا ہے۔

یہ میں نہیں اس واقع کے اب تک کے حقائق اور متضاد بیانات کہہ رہے ہیں۔ نیوز چینلز پر چلنے والے سی سی پی او، عمر شیخ کے مطابق متاثرہ خاتون کی گاڑی ٹول پلازہ کراس کرتے ہی تقریباً رات 1 بجے ان کی گاڑی خراب ہوئی جس پر سب سے پہلے انہوں نے اپنے گھر بھائی اور کزنز کو اطلاع دی اور اس کے فوراً بعد 15 پر کال کر کے پولیس کو اطلاع دی، جس کا مطلب ان کی لوکیشن کا اس وقت یہ تو ان کے گھروالوں کو علم تھا یہ پھر صرف پولیس والوں کو۔

پھر دوسری طرف ڈولفن پولیس کے ایک محافظ کا بیان آتا تھا، جن کے مطابق انہیں 15 پر 2 : 49 am پر ایک کال موصول ہوئی جس میں موٹروے پر ڈکیتی کی واردات کا ذکر کیا گیا اور 2 : 53 am یہ لوگ موقع واردات پر پہنچ گئے جہاں انہیں گاڑی کے شیشے ٹوٹ ہوئے ملے لیکن متاثرہ خاتون پاس موجود گھنے جنگل میں ڈری ہوئی بچوں کے ساتھ لپٹی ہوئی ملی خیر پھر ایک تیسرا بیان سامنے آتا ہے آئی جی موٹروے ڈاکٹرسید کلیم امام کا وہ کہتے ہیں کہ 2 : 01 am پر ان کے 130 پر ایک کال موصول ہوتی ہے جہاں متاثرہ خاتون کو بتایا گیا کہ جس لوکیشن پر ان کی گاڑی خراب ہوئی وہ ان کی حدود میں نہیں آتا لیکن پھر ساتھ ہی انہوں نے 0309 پر ایف ڈی او سے رابطہ کیا اور اسی وقت متاثرہ خاتون کا مزید کسی اور سے اس کال کے دوران رابطہ کروایا گیا یہ سب اسی 02 : 01 بجے کے دوران ہوا۔

اب آپ خود اندازہ لگا لیں کے حادثہ کب پیش آیا؟ کب اور کس وقت کس کو اطلاع دی گئی؟ کون اس حدود میں جلد پہنچ سکتا ہے؟ اور کون کس وقت وہاں پہنچا؟ کیونکہ ایف آئی آر میں ان کے اہلخانہ کے مطابق وہ لوگ وہاں صبح 4 بجے جائے وقوعہ پر پہنچ اور اس وقت تک وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ سب کے بیانات میں بتائے گئے اوقات بھی آپ کے سامنے ہیں۔

پھر اچانک سے 2 مبینہ ملزمان کی تصاویر بھی نشر کردی جاتی ہیں اور ان کو پکڑنے پر بھاری رقم کا بھی اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایک اور ڈراپ سین تب ہوتا ہے جب وقارالحسن نامی ملزم خود پیش ہو کر صحت جرم سے انکاری ہوتا ہے۔ مطلب اگر وہ سچ کہہ رہا ہے تو حکومت نے کن شواہد کی بنیاد پر اس کا نام دیا؟ وہ سچ میں مجرم ہے تو خود پیش کیوں ہوا؟ اور اگر وہ بے قصور ہے تو اصل مجرم کون ہے؟ کیا پولیس کے اپنے لوگ اس میں ملوث ہیں؟ اپنے کن لوگوں کو بچانے کی خاطر ان کے نام دیے گئے؟ اور اگر یہ اصل مجرم تھے تو تمام تفصیلات حاصل کرنے کے بعد سیدھا انہیں پکڑا کیوں نا گیا؟ تصاویر نشر کرکے انہیں بھاگنے کا موقع کیوں دیا؟ کیا یہ اصل مجرموں کو روپوش کریں گے؟ یا پھر اپنے کسی پیٹی بھائی کے لیے کسی کی قربانی دیں گے؟

خیر یہ تو بیانات ہیں ہمارے محافظوں کے جن کے ہوتے ہوئے ہم محفوظ نہیں۔ ہماری پولیس، ڈولفن فورس اور موٹروے پولیس سب کے ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں تاریخ گواہ ہے انہوں نے ہمیں کتنا تحفظ فراہم کیاہے، زیادتی، ڈکیتی اور قتل جیسے واقعات کی شرح میں کس قدر اضافہ ہوا سب اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان سب افسران کی ترقی سے لے کر تبادلوں تک صرف اور صرف سیاست ہی ہوتی ہے۔ پھر ہم ان سے کس قسم کے تحفظ کی امید کرتے ہیں۔

اصل ریاست مدینہ میں حضرت عمر کے دور میں مدینہ سے دمشق جانے والی سونے سے لدی عورت اگر محفوظ تھی تو اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ اس ساتھ کچھ بھی ہوا تو کرنے والے کی لاش مکہ کے انٹری دروازے پہ لٹکی ملے گی۔ لیکن یہاں نا تو وہ ریاست ہے، نا وہ قانون ہیں نا ہی اس کے رکھوالے۔

اپنے قانون ٹھیک کریں تاکہ ”دیسی لبرلز“ کو اسلام کے خلاف بات کرنے کا موقع نا ملے، انہیں بتائیں کہ اسلام کا قانون اور تھا، ہم غلام ہیں، ہم بظاہر آزاد ملک لیکن قوانین کوئی بناتا ہے، بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام بدلیں اور سادہ پاکستان رکھیں کیونکہ آپ کی وجہ سے دین بھی بدنام ہو رہا ہے کہ شاید اسلام بھی ایسا تھا کیونکہ اسلام کے نام پہ آزاد ہونے والے ملک میں ایسا ہورہا ہے، اور جن لبرل بچوں کو اسلام پڑھنے کی توفیق نہیں کی وہ پھر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں اور ماشاءاللہ اسٹڈی تو ہم نے بھی نہیں کی کہ دفاع کر سکیں، خدا کے لئے بتائیں انہیں کہ ہمارے قانون کمزور ہیں، قانون طاقتور کے گھر کی لونڈی ہے، قانون بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سوار پہ تو لاگو ہوتا ہے لیکن دن دیہاڑے ٹریفک وارڈن کو کچلنے والی ایم پی اے کی گاڑی پہ خاموشی اختیار کرتا ہے، قانون اپنی عدالت کی توہین پہ تو نوٹس لے کے سزا دیتا ہے لیکن باقی لاکھوں پینڈنگ کیسز پہ اس کی زباں بندی ہے، قانون بے گناہ لوگوں کو سزا دینے کے پانچ سال بعد انہیں بے گناہ کہہ کے تب سوری کرلیتا ہے جب اسے قبر میں گئے بھی پانچ سال ہو جاتے ہیں، قانون اتوار کے روز عدالت لگا کے پچاس روپے کے ضمانتی مچلکوں پہ سیاست دان کو ملک سے جانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن بچوں کے سامنے گینگ ریپ ہونے والی ماں سے ثبوت مانگے گا اور وہ کیسے ثابت کرے گی کہ میرے ریپ کو دیکھنے والے گواہ میری بیٹی بیٹا ہیں؟ پھر ان کی گواہی قبول نہیں ہوگی اور یوں یہ سب باعزت بری ہوں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).