زندگی کے لئے اوزون


اللہ تعالیٰ نے قدرت کا جو نظام بنایا ہے اس کے متعلق جدید دور میں بھی سائنس اسے مکمل طور پر نہیں جان سکی لیکن قرآن پاک میں قدرت کی ان تمام نشانیوں کا نہ صرف ذکر موجود ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تسخیر کرنے کا راستہ بھی بتایا گیا ہے، اسی لئے آج سائنس دان قرآن پاک کی رہنمائی میں تجربات و تحقیق کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سائنس جوں جوں ترقی کرتی جا رہی ہے اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیاں دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان ایک خاص ترتیب اور ترکیب سے بنائے ہیں۔ قدرت کے ایک عظیم شاہکار زمین پر پہاڑ بنائے گئے تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے جبکہ آسمان پر سورج، چاند، ستارے بنائے گئے تاکہ دن اور رات کا تعین ہو سکے اور زمین پر بسنے والے جانداروں کو روشنی اور حرارت مل سکے لیکن اب انسان نے سائنس کی ترقی میں کھو کر قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرنا شروع کر دیا ہے جس کا نتیجہ بدلتے موسم، وبائی امراض اور قدرتی آفات میں اضافہ ہے۔

دنیا اب آہستہ آہستہ ایک بڑے خطرے کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ پائی جاتی ہے۔ یہ زمین کا ایک فضائی غلاف ہے جو ایک گارڈ کی طرح سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین تک براہ راست پہنچنے سے روکتا ہے۔ اگر سورج سے نکلنے والی یہ خطرناک شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچ جائیں تو جانداروں کو موت کے منہ تک پہچا سکتی ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان خطرناک شعاعوں سے بچانے کے لئے ایک خاص فلٹر بنایا ہے جسے اوزون کی تہہ کہتے ہیں۔

اوزون کی تہہ سورج سے نکلنے والی نہایت خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی فلٹر کر لیتی ہیں۔ امریکی ماہرین ماحولیات نے 1974 میں اوزون کی تہہ کے متعلق بتایا تھا کہ اگر زمین پر سے یہ تہہ ختم ہو گئی تو دنیا کا درجہ حرارت شدید بڑھ جائے گا اور قطب جنوبی میں برف پگھل جائے گی جس سے ساحلی شہر تباہ ہوجائیں گے اور شدید درجہ حرارت سے جاندار معدوم ہوجائیں گے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اوزون کی تہہ کو بچانے کے لئے مناسب اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو 75 برسوں میں اوزون کی تہہ کا وجود بالکل ختم ہو جائے گا۔

ماہرین کی تحقیق پر اوزون پرت کو مزید تخفیف سے بچانے کے لئے عالمی پیمانے پر 1980 کی دہائی میں کوششیں تیز ہوئیں۔ 16 ستمبر 1987 کو بہت سارے ممالک کی حکومتوں نے اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں پر کم سے کم انحصار رہنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک معاہدہ پر دستخط کیے جسے مونٹریال پروٹوکول ( Montreal Protocol ) کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994 میں اس معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مونٹریال پروٹوکول کی تاریخ یعنی 16 ستمبر کو ہی اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد دنیا میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا تھا کہ اوزون کی تہہ زندگی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔

اسی مناسبت سے اس سال اس دن کا موضوع ہے ”زندگی کے لئے اوزون“ ۔ اگرچہ بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مواد پر پابندی لگانے کے لیے ایک معاہدہ کیا جس کے بعد سے دنیا بھر میں سی ایف سی گیسز کے اشیا میں استعمال کو ترک کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود ابھی بھی اوزون کی تہہ کو بہت سے خطرات درپیش ہیں جن میں آلودگی، درختوں کی کٹائی، بدلتے موسم، صنعتی کارخانوں سے اوزون دشمن زہریلی گیسوں کا اخراج شامل ہیں، ان عوامل کی وجہ سے اوزون کی تہہ کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ دنیا کے بعض مقامات پر سورج کی شعاعیں مکمل طور پر فلٹر نہیں ہور ہیں، ایسے علاقوں میں رہنے والے انسان او ر جانور جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر کا شکار ہو رہے ہیں۔

حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے انسانوں کی اکثریت پانی کی کمی، ہیپاٹائٹس اور گردوں کے شدید امراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔ ادھر ماہرین حیاتیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہو جائے گی جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کا آخری سنہری مینڈک جو 1999 میں موسمیاتی تغیر کے باعث مر گیا تھا، اسے جانوروں کی پہلی معدومیت قرار دیا گیا ہے۔

سورج کی شعاعوں سے ہمیں محفوظ رکھنے والی اوزون کی تہہ کا وجود برقرار رکھنے کے لئے ہمیں آلودگی اور صنعتی زہریلی گیسوں کی روک تھام کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہوں گے تاکہ موسموں میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلی واپس اصلی حالت میں لوٹ آئے اور دنیا کا حفاظتی غلاف اوزون قائم رہ سکے کیونکہ اوزون ہی زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).