حادثے سے بڑا سانحہ


کہاں ہیں وہ اسلام پسند وزرا جو گزشتہ دور حکومت میں تقریر جھاڑا کرتے تھے کہ جرم یا مقتول کا مجرم نا ملے اس کا مجرم حاکم وقت ہوتا ہے۔ اب اگر مجرم نہ ملے تو حاکم وقت کو سزا ملنی چاہیے۔

مجھے حیرت ہے کہ پڑھے لکھے افسر جن کی ڈیوٹی ہی امن و امان قائم رکھنا ہے کیسے منہ کھول کے کہہ دیتے ہیں کہ متاثرہ عورت رات کو اکیلی سفر ہی کیوں کر رہی تھی؟ کیا اس لاجک کو دینے کے بعد محکمہ بری الذمہ ہو سکتا ہے؟ برائے مہربانی ایسی لاجک دے کے مزید جلتی پہ تیل کا کام نہ کیا جائے۔ یہ بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ گینگ ریپ کا شکار عورت کو قانون کا رکھوالا ہو کر پولیس کا سربراہ یہ کہے کہ رات کو موٹر وے پر اکیلی عورت کو سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اور اس پر اسد عمر ایک پڑھے لکھے انسان ہو کر تم کہ رہے ہو کہ پولیس افسر کا یہ یہ بیان غیر قانونی نہیں؟ دراصل جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مخالفین اور اس کے ووٹرز کی پکڑ دھکڑ کے لیے لگایا جائے گا وہاں سانحہ موٹروے اور سانحہ ساہیوال جیسے واقعات دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔ موٹر وے پر بچوں کے ہمراہ سفر کرنے والی خاتون کی بے حرمتی نہایت قابل مذمت، شرمناک اور افسوسناک ہے۔ یہ قومی شرمندگی اور قانون کی عمل داری کے پورے نظام کے مفلوج ہونے کا ثبوت ہے۔

ہم کس جہاں میں رہتے ہیں؟ کیا یہ درندوں کی بستی ہے؟ سانحہ ساہیوال کے اور سانحہ لاہور کے مجرموں کو سزا مل جاتی تو آج یہ حوا کی بیٹی یوں سر راہ نہ لٹ جاتی۔ خوف آ رہا ہے اب تو اپنی فیملی کے ساتھ سفر کرنے پر۔ میرے پاس نئی ٹیوٹا جی ایل آئی کار ہے اور وہ بھی گزشتہ روز لاہور واپسی پر فیول پمپ خراب ہونے کے سبب رک گئی اور میں سڑک کنارے سوا گھنٹہ مکینک کا انتظار کرتا رہا۔ اور اب سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ خدانخواستہ فیملی ساتھ ہوتی تو کیا گزرتی۔ خدارا عمران خان بروقت سزاوں کا نظام ہی بحال کر جاؤ اس میں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ معیشت کو سدھرنے میں وقت لگتا ہے مگر اس نظام کو بدلنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

وفاق، پنجاب اور موٹر وے پولیس اسے ٹیسٹ کیس بنائیں اور ریپسٹ کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ زینب کیس کی طرز پر تحقیق و تفتیش کا معیار ایسا رکھا جائے کہ پراسیکیوشن کے مرحلے پر مجرم سزا سے نہ بچ پائیں۔ ایسے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ موٹر وے جو محفوظ سفر کی علامت سمجھی جاتی تھی، وہ اتنی غیرمحفوظ کس کی نا اہلی کی وجہ سے ہوئی؟ اب موٹر وے پر اپنے بچوں کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے دل میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وقوع کی حدود پر جھگڑنے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر مجرموں کو پکڑیں اور متاثرہ خاندان کو انصاف دلائیں تاکہ نظام پر عوام کا کچھ تو اعتماد بحال ہو۔ ہر اہل احساس سے ملتمس ہوں کہ اس سلسلے کو نہ رکنے دیں اور جب تک مجرموں کو موٹروے پر پھانسی نہ دے دی جائے ہم ہر روز لکھیں گے۔

احتجاج کریں گے اور ہر ممکن اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے میڈیا کو موٹر وے پر اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے گھر سے نکلی ہی کیوں، ان کو اس طرح اکیلے رات گئے موٹر وے پر سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ عمر شیخ تم کتنے بے شرم ہو مگر۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔

اور پورا پاکستان اپنی اس بہن کا درد کرب تکلیف اور اذیت محسوس کرتے ہوئے عمر شیخ کے بیان کے بعد یہ کہ رہا ہے کہ
حادثے سے بڑا سانحہ تو یہ ہوا!
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

نعمان طیب
Latest posts by نعمان طیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).