میں ہار نہیں مانوں گی


اسلام آباد میں جنوری کی سرد دوپہر ایک ٹریننگ سیشن کے دوران ندا اور یاسر کے درمیان گرما گرم بحث جاری ہے۔ ورکنگ وومن ایمپاورمنٹ کی حامی ندا اپنے حقوق کی جنگ زوروشور سے لڑ رہی ہے جبکہ دوسری طرف یاسر اسے گھر خاندان اور شوھر کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ گرما گرم بحث کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ہر کوئی اپنی استعداد کے مطابق حصہ ڈالتا گیا۔ ایسے میں جب کسی کو خیال آیا کہ میں خاموش ہوں تو توپوں کا رخ میری طرف جاتا ہے اور بولنے سے پہلے میرے سامنے میرے ماضی کی فلم چل پڑتی ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی گھر کے کاموں میں مصروف بھاگتی دوڑتی نظر آتی ہے کہ جس کے لئے قبر میں سوئی ماں کے کھردرے ہاتھوں کا لمس ہی کل اثاثہ ہے۔ اگلے سین میں ایک دبلی پتلی لڑکی اپنے محنتی اور دن بھر کے تھکے ہارے باپ کو خوش کرنے کے لئے کتابوں میں مصروف کچھ بڑا کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

پھر سین بدلتا ہے اور وہ دبلی سی لڑکی دلھن بنی اپنے آپ کو کسی ملک کی شہزادی سمجھتے ہوئے دل میں امیدوں کا ایک جہان لے رخصت ہو رہی ہے اس کے بعد کلائمکس پہ جیسے انٹرول آ جاتا ہے اور انٹرول کے بعد جیسے بالکل مختلف کہانی شروع ہو جاتی ہے بالکل ویسے اس فلم میں وہ شھزادی اپنے survival کی جنگ بہت سے محاذوں پر لڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ کبھی اپنے قریبی رشتوں کی خوشی کے لئے خود کو کہیں اندر تک تھکا رہی ہے تو کبھی امیدوں، امنگوں اور رنگوں بھرے اپنے کل جہان کو اپنے ہی اندر دفن کر رہی ہے تو کبھی اپنے اندر بیٹھی معصوم سی شہزادی کو زندگی کی تلخ حقیقتیں سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے تو کبھی اپنے دل کے شھزادے کو بے حس، جذبات احساسات سے خالی ہوتا دیکھ کر اپنے دل کو سب ٹھیک ہے کے لئے قائل کر رہی ہے۔

پھر اچانک سے منظر بدلتا ہے اور خدا کو شاید اس اچھی لڑکی پہ رحم آ جاتا ہے یا پھر شاید وہ اپنے حصے کی آزمائش سے کامیاب نکل آ تی ہے اور اسے دو بہت پیارے پھول آ سمان سے تحفتا ”دیے جاتے ہیں۔ ان پیارے پھولوں کو پا کر وہ پھر سے اپنے آپ کو شھزادی سمجھنے لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے جیسے پھر سے اسے اس کائنات کی ساری دولت مل گئی ہے۔ ان ننھے پیارے پھولوں کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں ہوا روشنی، پانی سب دھیرے دھیرے آ نے لگتے ہیں۔

چڑیاں چہچہانے لگتیں ہیں۔ تتلی جگنو اس کے آ نگن میں اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ اسے لگتا ہے ک اس کا شہزادہ ہی ہے جو اسے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، اس کا خیال رکھنے والا ہے اس کے لیے ایک سائبان ہے، چھت ہے۔ وہ اپنے ماضی کی ہر زیادتی ہر دکھ بھول جاتی ہے اور اپنے شھزادے کو اپنا سب کچھ مان کر اپنا پیار، اعتماد اور یقین تو کیا اپنا کل اثاثہ حیات بھی وار دیتی ہے۔

پھر اچانک سے منظر بدلتا ہے اور ایک اور انٹرول اس کا منتظر ہوتا ہے۔ وہ حیران پریشان کھڑی دیکھ رہی ہے کہ اس بار تو ایسا طوفان آ تا ہے کہ سب کچھ ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ ایساجان لیوا طوفان کہ جس کا پیش خیمہ بھی اس کا اپنا شھزادہ ہے۔ اس کا اعتماد، یقین، پیار سب راکھ کے ذروں کی طرح بکھر جاتا ہے۔ اور ان بکھرے ذروں کے ساتھ ساتھ خود اپنا وجود بھی بکھرتا، ادھر ادھر ہوا کے رحم وکرم پہ دکھائی دیتا ہے۔

اسے لگتا ہے کہ اس بار وہ دوبارہ زندگی کے لیے اٹھ نہیں سکے گی کہ اب جینے کی نہ کوئی خواہش، امنگ رہی تھی نہ یہ امید تھی کہ کسی کو اس کی ضرورت ہے۔ وہ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ اپنے رب سے سوال کر رہی ہے کہ میری قسمت میں آ پ نے اتنے طوفان لکھ دیے صرف اس لیے کہ میں ایک عورت ہوں جبکہ میرے مالک عورت بھی تو مجھے آ پ نے ہی بنایا وہ شکوہ کر رہی ہے مالک کائنات سے کہ تیری اس مملکت میں جو میرے نام کا بندہ تھا اس کے دل میں میرے لیے سچائی اور پیار کی جگہ جھوٹ اور فریب کی دولت کیوں ڈال دی جبکہ میرے دل میں صرف اور صرف سچ ڈالنے والی بھی تو تیری ہی ذات تھی۔ وہ گلہ کررہی ہے ہمیشہ رہنے والی ذات سے کہ اتنی محنت، پیار اور خلوص سے بنائے گئے میرے چھوٹے سے گھروندے کو ریت کے محل کی طرح سمندر کی موجوں کے حوالے کیوں کیا جبکہ اس کو بنانے کا سامان کرنے والی ذات بھی تو تیری ہی تھی۔

میں اپنے انہی خیالوں میں گم اچانک سے ہڑبڑا اٹھی جب ساتھ بیٹھی سعدیہ نے مجھے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ یکلخت میری آ نکھوں کے سامنے اس لڑکی کے دو ننھے کلکھلاتے پھول آ گئے۔ میں نے اپنے آ پ سے سوال کیا اس کو ان بار بار کے طوفانوں سے ہار مان لینی چاہیے یا اپنے چھوٹے سے گھروندے کا تنکا تنکا پھر سے اکٹھا کرنا شروع کر دینا چاہیے؟

اپنے خیالات کو جھٹک کر میں نے بولنا شروع کر دیا۔ ”ندا اور یاسر دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں یاسر کی توقعات ہیں کہ میں گھر سنبھالوں، بچوں کا خیال رکھوں شوھر کی خدمت کروں۔ یہ سب کرنا میری اولین ترجیح اور میرا فرض ہے جبکہ میری جاب میرا کیریر میری خواہش اور میری اپنی پسند ہے بالکل ایسے جیسے ندا سوچ رہی ہے۔ اب میں نے یہ دیکھنا ہے کہ کس طرح میں اپنے فرائض کو بہت اچھے سے پورا کر سکتی ہوں تاکہ یاسر اور اس معاشرے کو خوش کر سکوں۔

اور کس طرح اپنی جاب اپنے کیریر کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہوں تاکہ خود کو اپنے ہونے کا احساس دلا سکوں۔ مجھے دونوں کشتیوں کو ایک ساتھ بحفاظت ساحل پہ لانا ہے کسی کی مدد کے بغیر۔ میری بات جیسے ہی پوری ہوئی تالیوں کا شور اٹھا۔ اور اس شور میں میرے اندر شام اتر آ ئی وہ چھوٹی سی بچی بھی ان کھردرے ہاتھوں کا لمس محسوس کرنے لگی اور سوچنے لگی کہ عورت تو چاہ کر بھی ہار نہی مان سکتی۔ بقول پروین شاکر

کتر کے جال صیاد کی رضا کے بغیر
تمام عمر نہ اڑتی اسیر ایسی تھی

ڈاکٹر فرح یاسمین
Latest posts by ڈاکٹر فرح یاسمین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).