ووہان میں پاکستانی طلبا کی مصروفیات


چین کے شہر ووہان کا شمار اقتصادی سماجی سرگرمیوں کے اعتبار سے دنیا کے بڑے ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کے حامل اس شہر کی ایک اور وجہ شہرت یہاں تواتر سے سیاسی، سماجی، معاشی، سفارتی تقریبات کا انعقاد بھی ہے۔ ووہان اس وقت دنیا میں اس باعث بھی جانا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر یہ وہ پہلا بڑا شہر ہے جس نے کووڈ۔ 19 کو شکست دی ہے اور آج شہر کی رونقیں اور معمولات زندگی مکمل طور پر بحال ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کامیابی کے پیچھے قربانی، ایثار، جدوجہد کی ایک ایسی عظیم داستان موجود ہے جو جدید انسانی تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہے۔

رواں برس بائیس جنوری کو کووڈ۔ 19 کی شروعات میں صدر شی جن پھنگ کی ہدایات کی روشنی میں چینی حکومت نے ووہان میں لاک ڈاؤن کر دیا جس کا مقصد چینی عوام کے ساتھ ساتھ دیگر دنیا کے عوام کا تحفظ تھا۔ چینی حکومت کے اس سخت فیصلے کو عالمی سطح پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ چین کی دوراندیش اور دانش مند قیادت کا فیصلہ بالکل درست اور بروقت تھا۔ ووہان کا لاک ڈاؤن بعد میں پوری دنیا کے لیے انسداد وبا کا ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوا اور وسیع پیمانے پر اسے اپنایا گیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پندرہ عالمی تحقیقی اداروں کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر ووہان کا لاک ڈاؤن نہ کیا جاتا تو چین میں متاثرہ مریضوں کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر سکتی تھی۔ ووہان میں بائیس جنوری سے آٹھ اپریل تک 76 روزہ لاک ڈاؤن جاری رہا اور نتیجہ ووہان کی فتح کی صورت میں نکلا جسے عالمی سطح پر چین کی ایک عظیم کامیابی قرار دیا گیا۔

آج ووہان میں تعلیمی ادارے، تفریحی مقامات، کاروباری مراکز، سیاحتی مقامات اور صنعتیں کھل چکی ہیں۔ شہر میں گہما گہمی اور پررونق مقامات دیکھ کر ہر گز یہ گمان نہیں ہوتا ہے کہ یہ وہی شہر ہے جس کے باسیوں نے 76 روز دنیا سے کٹ کر گزارے ہیں، شہر میں ویرانی اور سنسانی کا وہ عالم کسی بھیانک خواب کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ ووہان کی جدوجہد نے ایک چیز دنیا کو ضرور سکھائی کہ کامیابی ہمیشہ انہی کے قدم چومتی ہے جو آزمائش میں صبر، ہمت، حوصلے اور جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حالات سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں۔

انہی عالیٰ ہمت لوگوں میں پاکستانی طلبا کی ایک بڑی تعداد بھی شامل رہی جو ووہان کی مختلف جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔ آغاز میں ووہان میں موجود چند پاکستانی طلبا مضطرب نظر آئے اور پاکستان میں بھی اس حوالے سے گرماگرم بحث ہوئی کہ شاید پاکستانی طلبا کو واپس لانے میں حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ ووہان میں کچھ طلبا نے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا اور وطن واپسی کی خواہش ظاہر کی۔ مگر بعد کے زمینی حقائق نے حکومت پاکستان کے فیصلے کو درست ثابت کر دیا اور آج ووہان میں موجود طلبا بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے واپس نہ جانے کا صحیح انتخاب کیا تھا۔

اس وقت ووہان کی مختلف جامعات میں زیرتعلیم پاکستانی طلبا کی تدریسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ پاکستانی طلبا سے گفتگو کے دوران ایک مشترک چیز سامنے آئی کہ سب نے چین کی مرکزی حکومت، ووہان کی مقامی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ ایک مشکل صورتحال میں جس انداز سے طلبا کا بھرپور خیال رکھا گیا بلاشبہ یہ بے مثال ہے۔

یونیورسٹی آف ووہان میں زیرتعلیم دو بہنوں سحر اقبال اور مہر اقبال نے بتایا کہ یونیورسٹی کھلنے کے بعد ان کی تدریسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تمام تر حفاظتی اقدامات اپنائے گئے ہیں جس میں ٹمپریچر کی پیمائش، ماسک کی پابندی، ہیلتھ کوڈ کی تصدیق اور صحت و صفائی سے متعلق دیگر احتیاطی تدابیر شامل ہیں۔ یہ دونوں بہنیں پاکستان کے مختلف میڈیا اداروں سے بات چیت میں بھی انسداد وبا میں چینی حکومت کی کاوشوں اور پاکستانی طلبا کو فراہم کردہ سہولیات کی تحسین کرتی رہی ہیں۔

سحر اقبال اور مہر اقبال نے بتایا کہ انہوں نے اس دوران یو ٹیوب پر اپنا ایک چینل بھی بنایا ہے جس میں انہوں نے ووہان میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور اپنے روزمرہ معمولات کے حوالے سے پاکستانی ہم وطنوں کو ہمہ وقت باخبر رکھا ہے۔ دونوں پاکستانی طالبات جہاں یونیورسٹی کھلنے پر خوش ہیں وہاں انتہائی مسرور ہیں کہ ووہان شہر کی تمام رونقیں اور رعنائیاں بحال ہو چکی ہیں اور زندگی لوٹ آئی ہے۔ دونوں بہنیں ووہان شہر سے وبا کے خاتمے میں چینی عوام کے نظم و ضبط کو کلید قرار دیتی ہیں۔

سنٹرل چائنا نارمل یونیورسٹی ووہان میں پی ایچ ڈی اسکالر علی نگری یونیورسٹی میں بیرونی طلبا کی نمائندہ تنظیم کی سربراہی کرتے ہیں اور طلبا کو درپیش مسائل کے حل میں پیش پیش رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تمام طلبا تعلیمی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز پر بہت خوش ہیں۔ وبائی صورتحال میں پاکستانی طلبا کا بے حد خیال رکھا گیا اور ان کی صحت و سلامتی کو یقینی بنایا گیا۔ علی نگری اس بات پر بھی خوش ہیں کہ ان سمیت دیگر پاکستانی طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ اور ووہان کی مقامی حکومت کے ساتھ مل کر انسداد وبا کی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے۔

یونیورسٹی ہاسٹل میں رہنے والے پاکستانی طلبا فارغ اوقات میں اکثر اجتماعی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں، ایک ساتھ مل کر کھانا کھانے سمیت اسپورٹس سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ووہان کی دیگر جامعات میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا سے میل ملاپ بھی جاری ہے۔ علی نگری ان پاکستانی طالب علموں کے لیے بھی پریشان ہیں جو وبائی صورتحال کے باعث پاکستان سے ابھی تک چین واپس نہیں آ سکے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ پاکستان میں بھی صورتحال جلد معمول پر آ جائے گی اور طلبا جامعات لوٹ سکیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں زیرتعلیم پاکستانی طلبا کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہے لہذا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ حصول تعلیم کے بعد یہ طلبا مستقبل میں چین۔ پاک تعلقات کے فروغ میں بطور سفیر اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).