فلم انڈسٹری: وہ دور جب کراچی کے ہر کونے میں ایک سینما تھا


پشاور سینما

ایک زمانہ تھا جب کراچی میں 125 سے زیادہ سینما گھر ہوا کرتے تھے اب شاید اتنے سینما گھر پورے پاکستان میں بھی نہیں ہوں گے۔ کراچی میں قائم ہونے والا پہلے سینما گھر کا نام سٹار سینما تھا جو بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) کے اُس مقام پر قائم ہوا تھا جہاں اب اللہ والی مارکیٹ ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بولتی فلموں کا آغاز نہیں ہوا تھا،اس سینما میں جو پہلی فلم نمائش پذیر ہوئی اس کا نام ’ہینڈز اپ‘ تھا اور اس فلم کی ہدایت کار ٹوڈبرائوننگ اور ولفرڈ لوکاس تھے جنھوں نے اس فلم میں کولین مورے کے ساتھ اداکاری بھی کی تھی۔

سٹار سینما کی ملکیت اور نام کئی مرتبہ تبدیل ہوئے۔ سٹار کے بعد اس کا نام رنجیت سینما اور پھر میجیسٹک سینما رکھا گیا۔

سٹار سینما کے بعد کراچی میں جو سینما گھر قائم ہوئے ان میں کراؤن، پیلس، پکچر ہاؤس، کیپٹل، پیراڈائز، رٹز، لائٹ ہاؤس، بلٹرز، تاج محل، رادھا (ناز)، مے فیئر، ریو، ریکس، اوڈین، ریگل، قسمت، نگار، کمار ٹاکیز، راکسی، سپر ٹاکیز اورنور محل کے نام شامل تھے۔

ان سینما گھروں کے نام بھی کئی مرتبہ بدلے گئے اور ان میں سے کئی سینما پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل ختم بھی ہو گئے۔ اگست 1947 میں پاکستان بنا تو کراچی میں 20 کے لگ بھگ سینما گھر موجود تھے۔

قیام پاکستان کے وقت کراچی میں ایک سینما گھر اپنی تکمیل کے مراحل میں تھا، جس کا نام جوبلی سینما تھا۔ جمیلہ سٹریٹ پر واقع اس سینما گھر کا افتتاح 18 ستمبر 1947 کو ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

لالی وڈ کی فلم نگری: وہ جگہ جہاں وقت تھم سا گیا ہے

صبیحہ خانم: جو اپنی معصوم اداکاری سے پاکستانی سینما کی خاتون اول بن گئیں

کیا آپ نے پاکستان کی یہ دس ’بہترین‘ فلمیں دیکھی ہیں؟

اس سینما گھر میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’وامق عذرا‘ تھی جو سنہ 1946 میں غیر منقسم ہندوستان میں تیار ہوئی تھی۔ وامق عذرا کے فلمساز و ہدایت کار نذیر تھے، موسیقی اے آر قریشی نے ترتیب دی تھی، کہانی اور مکالمے منشی دل نے اور نغمات تنویر نقوی اور عزیز مینائی نے تحریر کیے تھے۔

اس فلم کی کاسٹ میں نذیر، سورن لتا، ایم اسماعیل، ڈبلیو ایم خان، علاؤالدین اور آغا پیر جان شامل تھے۔ اس فلم میں اوما دیوی (اداکارہ ٹن ٹن) نے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

پاکستان میں پہلی عیدالاضحی 24 اکتوبر 1947 کو منائی گئی اور اس وقت جن سینما گھروں میں فلموں کی نمائش جاری تھی ان کی تعداد 17 تھی اور ان میں چند کے باقاعدہ اخبارات میں اشتہارات جمعہ سات نومبر 1947 کو شائع ہوئے۔

ان اشتہارات کے مطابق امپیریل سینما میں انڈین فلم ’بندیا‘ لگی جس کے ہدایتکار سی ایم لوہار تھے۔ اداکاروں میں راگنی، امر، شاکر اور ای بلوریا شامل تھے۔ ریجنٹ سینما میں ہدایت کار گنجال کی فلم ’پنہاری‘ لگی جس کی کاسٹ میں شانتا آپٹے، سریندر اور یعقوب تھے۔

ہدایتکار جاگیردار کی فلم بیرم خان کی نمائش لائٹ ہاؤس سینما میں ہوئی جس میں جاگیردار، مہتاب، غلام محمد، شاہنواز نے اداکاری کی۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم ’جگنو‘ رادھا سینما (جو بعد میں ناز سینما ہو گیا) میں دکھائی جا رہی تھی جس میں دلیپ کمار، نور جہاں اور غلام محمد شامل تھے۔ یہ وہ سینما گھر تھے جو قیام پاکستان سے پہلے شائقین کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے تھے۔

جمعہ 25 دسمبر 1947 کوایم اے جناح روڈ پر واقع نشاط سینما کا افتتاح بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں ہدایتکار اوجھا کی فلم ’ڈولی‘ سے ہوا تھا۔ اس فلم میں واسطی، سلوچنا، چٹرجی، ششی کلا، جینت، مادھوری اور سوشل کمار اداکاروں میں شامل تھے۔

یاد رہے کہ تقسیم سے قبل اس سینما کی تعمیر شروع ہو چکی تھی اور اس وقت یہ ’کشن‘ کے نام سے تعمیر ہو رہا تھا کیونکہ اس کے سامنے ایک اور سینما تھا جس کا نام اس وقت ’رادھا‘ تھا۔ اس نسبت سے اس کا نام ’کشن‘ رکھا گیا مگر پاکستان بننے کے بعد اس کا نام ’نشاط ٹاکیز‘ ہو گیا جبکہ ’رادھا‘ کو بعد میں ناز کا نام دے دیا گیا۔

نشاط سینما اس لحاظ سے ایک یادگار سینما تھا کہ اس پر اُردو، انگریزی، ہندی، پنجابی اور بنگالی زبان کی فلموں کی نمائش کی گئی۔ فلم ڈولی کے بعد نشاط سینما میں میری کہانی، رومیو جولیٹ، تان سین، کھڑکی، شام سویرا، ساون آیا رے، ملن، ہماری منزل، ناچ، برسات جیسی بھارتی فلموں کی نمائش ہوئی۔

اس سینما میں جو پہلی پاکستانی فلم ریلیز ہوئی وہ پنجابی فلم ’شہری بابو‘ تھی جس کے اداکاروں میں سنتوش کمار، سورن لتا، ایم اسمٰعیل، علاؤالدین اور عنایت حسین بھٹی شامل تھے۔ یہ فلم جمعہ 10 جولائی 1953 کو نیازی فلمز کی معرفت ریلیز کی گئی اور تین ہفتے تک زیر نمائش رہی۔

اس کے بعد نشاط سینما جن پاکستانی فلموں کا مرکز رہا ان میں محبوبہ، ہچکولے، شام ڈھلے، ثریا اور چراغ جلتا رہا وغیرہ شامل ہیں۔ منگل 26 فروری 1963 کو عیدالفطر کے دن سے نشاط سینما کو ایوریڈی پکچرز کے جگدیش چند آنند نے اپنی فلموں کے لیے حاصل کر لیا اور سنہ 1970 تک ان کی فلمیں ریلیز کی جاتی رہیں جن میں باجی، خاندان، ایسا بھی ہوتا ہے، عید مبارک، عادل، کوہ نور، تاج محل، بازی اور سوغات جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔

اسی دورانیے میں اس سینما پر غفار دانہ والا کے ادارے سنے سینٹر کی فلم درشن اور وحید مراد کے والد نثار مراد کے ادارے پاکستان فلمز کی فلم ’دل میرا دھڑکن تیری‘ نے کامیاب بزنس کیا۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی میں جس سینما کی تعمیر کا آغاز ہوا اس کا نام ’ایروز‘ سینما تھا۔ یہ سینما گھر مارسٹن روڈ (موجودہ وحید مراد روڈ) پر واقع تھا۔ اس کا افتتاح بھی جمعرات 21 ستمبر 1950 کو محترمہ فاطمہ جناح نے کیا۔

ایروز میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’بابل‘ تھی جس کے ہدایتکار ایس یوسنی، موسیقار نوشاد اور نغمہ نگار شکیل بدایونی تھے۔ اس فلم میں دلیپ کمار، نرگس اور منور سلطانہ نے مرکزی کردار ادا کیے۔

اس سینما گھر میں پاکستان میں بننے والی جو پہلی فلم نمائش پزیر ہوئی اس کا نام دوپٹہ تھا۔ یہ فلم 11 جولائی 1952 کو نمائش پزیر ہوئی۔ اس سینما گھر میں جو فلمیں ریلیز ہوئیں ان میں سے کئی فلموں نے غیر معمولی کاروبار کیا۔ ان فلموں میں ’سسی‘ کا نام سرفہرست ہے جو اس سینما گھر میں 34 ہفتے نمائش پذیر رہی اور اس نے پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔

کراچی میں سب سے پہلے جس پاکستانی فلم کی نمائش کی گئی وہ ہدایت کار ظہور راجا کی فلم جہاد تھی۔ یہ فلم جمعرات 28 جولائی 1949 کو عیدالفطر کے دن مرکزی ناز سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ظہور راجا، روفی، زرینہ، ریشماں (یاسمین)، شاکر، اجمل اور عاشق حسین نمایاں اداکار تھے۔ یہ فلم لاہور میں جمعہ 13 جنوری 1950 کو پربھات سینما میں ریلیز کی گئی تھی۔

پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کراچی میں ریلیز ہونے والی دوسری پاکستانی فلم تھی جو فلم ساز دیوان سرداری لعل اور ہدایت کار داؤد چاند نے بنائی تھی، اس فلم کا سکرپٹ خادم محی الدین نے لکھا، موسیقار ماسٹر ناتھ تھے، نغمہ نگار تنویر نقوی، قتیل شفائی اور طفیل ہوشیار پوری، عکاسی رضا میر، تدوین کار ایم اے لطیف تھے۔

اس فلم کے اداکاروں میں ناصر خان (اداکار دلیپ کمار کے بھائی)، آشا پوسلے، نجمہ رانی کرن، زبیدہ، نذر، جہانگیر اور ماسٹر غلام قادر شامل تھے۔ یہ فلم لاہور میں اتوار 7 اگست 1948 کو عیدالفطر کے موقع پر بھات سینما میں ریلیز ہوئی۔ کراچی میں یہ فلم جمعہ 4 نومبر 1949 کو مرکزی ایمپائر سینما میں ریلیز کی گئی تھی۔

جیسے جیسے شہر کو وسعت حاصل ہوتی گئی نئی بستیوں میں آبادی میں اضافے کے ساتھ سینماؤں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ اگرچہ نئے سینما معیاری اور نئے تھے مگر شہر کے پرانے سینما اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے تھے۔ نئی فلمیں شہر کے سینما کا فلم کا مین تھیٹر قرار دے کر کئی کئی سائیڈ کے سینماؤں پر چلائی جانے لگیں۔ سنہ 1954 میں پاکستانی فلم ’سسی‘ مین تھیٹر کے علاوہ دیگر چار سینما گھروں میں ریلیز کی گئی۔

سنہ 1948 میں نو دیگر سینما گھروں نے فلموں کی نمائش شروع کی۔

اس کے بعد آنے والے برسوں میں بہت سے مزید سینیما کھلے۔

سنہ 1992 میں گارڈن روڈ پر لیرک سینما کے ساتھ منی لیرک ٹو کا افتتاح ہوا۔ سنہ 2006 میں کلفٹن میں یونیورسل سنے پلیکس کا افتتاح ہوا اور سنہ 2010 میں صدر میں تین سینما ایٹریم کے نام سے قائم ہوئے۔

بمبینو سینما حاکم علی زرداری نے قائم کیا تھا اور اس کا افتتاح پاکستان کے سابق وزیراعظم اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ سنہ 1965 میں کراچی میں سٹیڈیم روڈ پر پاکستان کا پہلا ڈرائیو ان سینما قائم ہوا۔ اب اس سینما کی جگہ پر شان مغلیہ ریسٹورنٹ قائم ہے۔

کراچی میں ایک طرف نئے سینما تعمیر ہو رہے تھے وہیں 1956 میں ایم اے جناح روڈ پر واقع پکچر ہاؤس سینما کراچی کا پہلا سینما تھا جو توڑ دیا گیا اور اس کی جگہ پہلے پیٹرول پمپ بنا اور پھر اسے توڑ کر دکانیں بنا دی گئیں۔

سنہ 1958 میں دوسرا سینما مے فیئر (فاطمہ جناح روڈ صدر) کو بند کر دیا گیا تاہم پاکستانی سینما کی بربادی کا باقاعدہ آغاز سنہ 1979 میں ہوا جب جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں پانچ سو سے زائد فلموں کے تمام سنسر سرٹیفکیٹ منسوخ کر کے ان فلموں پر پابندی لگا دی گئی۔ فلم سازوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا گیا جس سے فلموں کے بننے کا عمل رک گیا۔

سنہ 1980 میں صرف 57 فلمیں ہی ریلیز ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی گھر گھر وی سی آر عام کر دیا گیا اور رات، رات بھر انڈین فلمیں دیکھی جانے لگیں۔

دوسری طرف سینما گھروں پر تفریحی ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا جس سے سینما کے ٹکٹوں کی شرح ٹکٹ میں اضافہ ہو گیا۔ سینما مالکان کی من مانیاں بڑھنے لگیں۔ سینما ہال کے تعفن زدہ ماحول کی وجہ سے شائقین بددل ہو گئے۔ اشیائے خورونوش مہنگی ملنے لگیں، انٹرویل میں سینما کے باہر جانے کے دروازے بند کر دیے جاتے تاکہ شائقین سینما سے باہر جا کر کھانے پینے کی چیزیں نہ خرید لائیں اور سینما کے ٹھیکیدار کینٹین والوں سے ہی مطلوبہ اشیا مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہو جائیں۔

کچھ سینماؤں نے بزنس حاصل کرنے کے لیے غیر سنسر شدہ سین چلانے شروع کر دیے جس کا انجام یہ ہوا کہ شائقین نے فیملیز کے ساتھ ان سینماؤں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا جس سے فلمیں بنانے والوں نے اس صنعت سے اپنا سرمایہ نکال کر دوسرے کاروباروں میں لگانا شروع کر دیا۔

یہی نہیں بلکہ سینما مالکان نے سینماؤں کے ماحول اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنے کی بجائے ٹکٹیں بلیک کرنے اور اے سی چارجز کی وصولی کے باوجود اے سی کو نہ چلانے جیسی حرکتیں شروع کیں جن سے شائقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے گھر بیٹھے وی سی آر کی صورت میں سستی تفریح حاصل کرنا شروع کر دی۔

سنہ 1995 میں کراچی کے سینما گھروں کے ساتھ ملک بھر کے سینما کی بحالی شروع ہوئی۔ ہدایت کار سید نور کی فلم ’جیوا‘،ہدایت کارہ شمیم آرا کی فلم ’منڈا بگڑا جائے‘ نے کروڑوں کا بزنس کیا اور شائقین نے ان فلموں کو دیکھا اور سراہا۔

اس کے بعد یکے بعد دیگر کئی فلمیں بے حد کامیاب رہیں ان میں سرگم، جو ڈر گیا وہ مر گیا، لو 95، چور مچائے شور، چیف صاحب، معاملہ گڑ بڑ ہے، ہم تو چلے سسرال، دیوانے تیرے پیار کے، ہوائیں، کڑیوں کو ڈالے دانہ، مس استنبول، کھلونا، سنگم، نکاح، ڈاکو رانی، گھر کب آؤ گے، مجھے چاند چاہیے، سلطانہ ڈاکو، تیرے پیار میں، کھوئے ہو تم کہاں، ڈکیت، یہ دل آپ کا ہوا، سلاخیں، کوئی تجھ سا کہاں اور پنجابی فلمیں چوڑیاں اور مجاجن شامل ہیں۔

لیکن ہمیشہ کی طرح پھر بدقسمتی سامنے آئی اور پنجابی فلمیں بنانے والے ہدایتکار اُردو فلمیں بنانے لگے اور پھر راجہ صاحب، لخت جگر، ممی، چیز بڑی ہے مست مست، بے قابو، چوروں کے گھر چور، مہندی، مافیا، شرافت، جسے دے مولا، کھل نائیک، دنیا دیکھے گی، تو چور میں سپاہی، کنگ میکر، کوئلہ، دنیا سے کیا ڈرنا، دیکھا جائے گا، حکومت، میری پکار اور ایسی کتنی فلمیں ریلیز ہوئیں جنھوں نے ایک بار پھر سینما گھر ویران کر دیے۔

کراچی میں اس وقت 25 سینما چل رہے ہیں جن میں فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں ان میں کیپری، بمبینو، افشاں، ایٹریم (تین سینما)، رینو، نشیمن، اسکالا، امپیریل، ڈیلائٹ، زینت، سنگیت، شیش محل، غالب، کرائون، لالہ زار، مسرت، میٹرو، نرگس، نسرین، نسیم، وینس، یونیورسل سنے پلیکس (دو سینما) شامل ہیں۔

سب سے زیادہ چلنے والی فلم ’آئینہ‘ کا ریکارڈ نہ ٹوٹ سکا

ہدایت کار نذرالاسلام کی اردو فلم ’آئینہ‘ نے کراچی کے سینما میں سب سے زیادہ ہفتے چلنے کا جو ریکارڈ بنایا تھا وہ ٹوٹ نہ سکا۔ جمعہ 18 مارچ 1977 کو بمبینو سینما کے ساتھ دیگر 23 سینما گھروں خیام، ڈیلائٹ، ریکس، ریلیکس، سنگم، سنگیت، صبا، عرشی، غالب، فلمستان، گلزار، لالا زار، لبرٹی، شبانہ، نگار، نفیس، نگینہ، نیرنگ، ہالی ووڈ اور ڈرائیون میں ریلیز کی گئی۔

یہ فلم مرکزی بمبینو سینما پر جمعرات نو فروری 1978 تک نمائش پذیر رہی اور 48 ہفتے مکمل کیے جبکہ 10 فروری سے اسکالا سینما پر شفٹ کر دی گئی اور جمعرات 14 جنوری 1982 تک 206 ہفتے تک چلتی رہی اور کل 401 ہفتے تک نمائش پذیر رہی اور یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp