ہندوستان کی رانی جس نے چیچک کے پہلے حفاظتی ٹیکے کے لیے ماڈلنگ کی


سنہ 1805 میں جب دیوجممانی میسور کے شاہی دربار پہنچیں تو ان کی وہاں کے حمکراں کرشن راجہ واڈیار سوئم سے شادی ہونی تھی۔ دونوں کی عمریں 12 سال تھیں اور کرشن راجہ کو جنوبی ہندوستان کی ایک سلطنت کا نیا حکمران بنایا گیا تھا۔

لیکن دیوجممانی نے جلد ہی اپنے آپ کو ایک اور اہم مقصد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ وبائی مرض چیچک کی ویکسین کی تشہیر اور بیداری کی مہم میں شامل ہو گئيں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک مورخ ڈاکٹر نائیجل چانسلر کے مطابق: ‘ان کے اس اتفاقی کردار کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک پینٹنگ میں پیش کیا گیا ہے جو کہ ’حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی‘ کے لیے کمیشن کی گئی تھی۔

چیچک کا علاج کافی نیا تھا۔ ایک انگریز ڈاکٹر ایڈورڈ جینر نے محض چھ سال قبل اسے دریافت کیا تھا اور ہندوستان میں اس حوالے سے شکوک و شبہات اور مزاحمت کا سامنا تھا۔ اس کی ایک وجہ بھی تھی کہ اسے انگریز پیش کر رہے تھے جن کی طاقت 19ویں صدی میں تیزی سے ابھر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

‘کورونا سے نہ گھبرائیں، بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں‘

ویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکوں کی مختصر تاریخ

وہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دی

دنیا کے سات ارب لوگوں کی ویکسینیشن کا چیلینج

لیکن انگریز ہندوستانیوں کو حفاظتی ٹیکہ لگانے کی اپنی عظیم سکیم سے دستبردار نہیں ہونے والے تھے۔ انھوں نے اس کے جواز کے طور پر ہر سال بہت سی جانوں کو بچانے کی بات ہندوستانیوں کو ذہن نشین کرائی اور یہ وعدہ کیا کہ اس سے ’کثیر آبادی سے حاصل ہونے والے وسائل میں اضافہ’ ہو گا۔

اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سیاست، طاقت اور ترغیب کے ذریعے انڈیا میں دنیا کا پہلا ٹیکہ متعارف کرایا جو کہ ان کا سب سے بڑا نوآبادیاتی کاروبار تھا۔ اس میں برطانوی سرجن، ہندوستانی ویکسینیٹر، منصوبہ ساز کمپنی کے مالکان اور دوستانہ شاہی ریاستیں شامل ہوئيں۔ واڈیاروں سے زیادہ انگریزوں کا کوئی احسان مند نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ انگریزوں نے انھیں 30 سال کی جلاوطنی کے بعد دوبارہ تخت نشین کرایا تھا۔

پینٹنگ میں شامل خواتین

ڈاکٹر چانسلر کا خیال ہے کہ یہ پینٹنگ جو کہ سنہ 1805 یا اس کے آس پاس کی ہے صرف ملکہ کی ویکسینیشن کا ریکارڈ نہیں ہے بلکہ یہ انگریزوں کی کوششوں کے انکشاف کا ایک در بھی کھولتا ہے۔

کینوس پر آئل سے پینٹ کی جانے والی تصویر آخری بار سنہ 2007 میں سودبی کے نیلام گھر کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس میں شامل افراد نامعلوم تھے اور ان کے بارے میں اس وقت تک یہ خیال ظاہر کیا گيا تھا کہ یہ رقص کرنے والی خواتین ہیں یا پھر دربار کی خواتین ہیں جب تک کہ ڈاکٹر چانسلر کی اس پر نظر نہیں پڑی۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’فوراً ہی یہ سمجھ لیا کہ اس کے بارے میں کہی جانے والی باتیں غلط ہیں۔‘

انھوں نے دائیں طرف کی عورت کی شناخت چھوٹی ملکہ دیوجممانی کے طور پر کی۔ انھوں نے کہا کہ ان کی ساڑھی کے پلو سے عام طور پر ان کے بائیں بازو کو ڈھانپا گیا ہوتا، لیکن اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ ‘پر وقار انداز میں’ اس مقام کی نشاندہی کر سکیں جہاں انھیں ٹیکہ لگایا گیا تھا۔

ان کا خیال ہے کہ بائیں طرف کی عورت راجہ کی پہلی بیوی ہیں اور ان کا نام بھی دیوجممانی ہے۔ ڈاکٹر چانسلر نے کہا کہ ان کی ناک کے نیچے اور ان کے منہ کے چاروں طرف واضح نشان زدہ رنگ چیچک وائرس کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔

جو مریض صحت یاب ہو چکے تھے ان کا پھوڑا پھنسی نکالا جائے گا اور اس کی بھوسی کو ان کی ناک کے سامنے اڑایا جائے گا جنھیں یہ مرض نہیں ہوا۔ یہ ٹیکہ لگانے کا ایک طریقہ تھا جسے وائرولیشن کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کا مقصد ہلکا انفیکشن پیدا کرنا تھا۔

ڈاکٹر چانسلر نے اپنے نظریہ کی تائید کےلیے حوالے کے ساتھ تفصیلات پیش کیں جو کہ سنہ 2001 میں پہلی بار ایک مضمون میں شائع ہوا۔

ایک تو یہ کہ پینٹنگ کی تاریخ واڈیار بادشاہ کی شادی کی تاریخوں اور جولائی 1806 کے عدالتی ریکارڈ سے ملتی ہے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ دیوجممانی کو ٹیکے لگانے کا ’خوشگوار اثر‘ بہت سے لوگوں پر ہوا اور وہ ٹیکہ لگوانے کے لیے آگے آئے۔

دوسرے یہ کہ میسور کی تاریخ کے ماہر کی حیثیت سے ڈاکٹر چانسلر کو یقین ہے کہ ’بھاری سونے کی چوڑیاں‘ اور ’شاندار ہیڈ ڈریس‘ واڈیار رانیوں کی خصوصیت ہیں۔ اس کے علاوہ مصور تھامس ہکی نے اس سے قبل بھی واڈیاروں اور دربار کے دیگر اراکین کی پینٹنگز بنا رکھی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ سب سے اہم بات اس کی ’ناقابل فراموش صفائی‘ ہے جو دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ کسی یورپی پینٹر کے لیے نیم مسکراتی ہوئی شاہی خواتین اور وہ بھی پُرسکون انداز میں تیوریاں چڑھانے کے لیے کافی تھیں اگر یہ معمولی کام کے لیے ہوتیں۔

لیکن کیا ہوگا اگر یہ کسی کا نعمل بدل ہو؟

یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ سنہ 1799 میں اس نے اپنے آخری عظیم دشمن اور میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کو شکست دے کر واڈیاروں کو ان کی جگہ تخت پر بٹھایا تھا۔ تاہم تب بھی برطانوی تسلط کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔

چنانچہ ڈاکٹر چانسلر کے مطابق مدراس (اب چینئی) کے گورنر ولیم بینٹک نے اسے ایک مہلک بیماری سے لڑنے کا ایک سیاسی موقع جانا۔

ایک دوسرے برطانوی تاریخ دان پروفیسر مائیکل بینیٹ نے اپنی کتاب ’وار اگینسٹ سمال پوکس‘ میں ہندوستان میں ویکسین کے مشکل سفر کی روداد پیش کی ہے اور لکھا ہے کہ برطانوی ‘بیرونی آبادی کے تحفظ کے لیے’ ہندوستانیوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے پر مصر تھے۔

دیوی

ہندو چیچک کی دیوی کی پوجا کرتے اور ان کی ناراضگی کو مٹانے کی کوشش کرتے

ہندوستان میں چیچک کا انفیکشن بہت زیادہ تھا اور اموات بھی عام تھیں۔ علامات میں بخار، درد اور چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر دانے نکلنے کی وجہ سے شدید تکلیف شامل تھی۔ زندہ بچ جانے والوں کے چہرے پر اکثر زندگی بھر کے لیے داغ رہ جاتے تھے۔

صدیوں سے اس کا علاج مذہبی رسومات کے ساتھ مختلف طریقے سے کیا جاتا رہا۔ ہندو اسے چیچک کی دیوی مریمما یا سیتلا کے غیظ و غضب کی علامت کے طور پر دیکھتے اور ان کی ناراضگی کو طرح طرح سے دور کرنے کی کوشش کرتے۔

لہٰذا ایک ویکسین کی آمد جس میں کاؤپکس وائرس بھی شامل تھا اس کا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ برہمن ٹیکہ لگانے والے نے اس نئے طریقہ کار پر ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اس نئے طریقے سے ان کے معاش کو خطرہ لاحق تھا۔

پروفیسر بینیٹ نے کہا: ‘سب سے بڑی پریشانی ان کے صحت مند بچے میں کسی مویشیوں کی بیماری کو ڈالنے کی بات تھی۔’

‘آپ کاؤ پوکس کا ترجمہ کس طرح کرتے ہیں؟ انھوں نے سنسکرت کے سکالروں کو بلایا اور انھیں یہ پتہ چلا کہ چیچک سے بچنے کے لیے اس بیماری کو اپنے اندر داخل کرنا ہے۔ اور انھیں اس بات کا بھی خطرہ ہوا کہ کاؤ پوکس ان کے مویشیوں کو تباہ کردے گا۔’

ایک اور بڑی پریشانی یہ تھی ویکسین لگانے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ‘بازو سے بازو’ پر ٹیکہ لگانا تھا۔ اس طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے پہلے فرد کو انجیکشن یا لینسیٹ کے ذریعہ اپنے بازو پر سویاں چبھوئی جاتی تھیں۔ ایک ہفتے کے بعد جب اس جگہ پر ایک کاؤ پوکس کا زخم تیار ہو جاتا تو ایک ڈاکٹر اس کو کاٹ کر اس کی پیپ دوسرے شخص کے بازو پر منتقل کرتا تھا۔

کبھی کبھی کسی مریض کے بازو سے حاصل شدہ پیپ کو خشک کرکے شیشے کی پلیٹوں کے درمیان مہر بند کر دیا جاتا اور اسے کہیں اور منتقل کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ عام طور پر اس سفر میں نہیں بچ پاتا تھا۔

استرے

ٹیکہ لگانے کے لیے پہلے سوئی اور استرے کا استعمال کیا جاتا تھا

کسی بھی صورت یہ ویکسین تمام نسلوں، مذاہب، ذاتوں اور صنفوں سے گزر رہی تھی اور یہ بات ہندوؤں کے چھوا چھوت کے نظریے سے متصادم تھی۔ ان پریشانیوں پر ہندو بادشاہوں کی مدد سے قابو پانا کتنا اہم تھا جن کی طاقت ان کے خون میں اور نسب میں ہوتی ہے؟

کم از کم اںڈیا میں اس ویکسین کا سفر واڈیار رانیوں میں اس وقت شروع ہوا جب ایک برطانوی ملازم کی تین سالہ بیٹی اینا ڈسٹ ہال کو ٹیکہ لگايا گیا۔

سنہ 1800 کے موسم بہار میں یہ ویکسین برطانیہ سے جہاز کے ذریعہ خشک پیپ نمونوں کی شکل میں یا ‘ویکسین کورئیرز’ یعنی سفر کے دوران بازو سے بازو پر منتقلی کی صورت میں انڈیا پہنچائی گئی تھی۔ لیکن ان میں سے کسی بھی ویکسین کو ہندوستان آنے کے بعد نہیں لیا گیا۔

متعدد ناکام کوششوں کے بعد، خشک ویکسین کو شیشے کی پلیٹوں کے مابین سیل کرکے پہلی بار مارچ 1802 میں کامیابی کے ساتھ ویانا سے بغداد پہنچایا گیا۔

پھر اسے ایک آرمینیائی بچے کو دیا گیا اور اس کے بازو سے پیپ لے کر عراق کے شہر بصرہ لے جایا گیا، جہاں ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرجن نے بازو سے بازو پر منتقلی کا سلسلہ قائم کیا جسے بمبئی (اب ممبئی) پہنچایا گیا۔

14 جون سنہ 1802 کو انڈیا میں اینا ڈسٹ ہال پہلی فرد قرار پائیں جنھیں چیچک کے خلاف کامیابی کے ساتھ ٹیکہ لگایا گیا۔

جس ڈاکٹر نے انھیں ٹیکہ لگایا تھا ان کے نوٹ کے علاوہ اس بچی کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔

انھوں نے اپنے نوٹ میں لکھا تھا کہ وہ ’بہت ہی خوش مزاج‘ بچی ہیں۔ پروفیسر بینیٹ نے کہا کہ ڈسٹ ہال جزوی طور پر یورپی نژاد تھیں لیکن ان کی ماں کی نسل کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔

ٹیکہ

یورپ میں بھی ٹیکے کی مخالفت ہوئی تھی

انھوں نے کہا: ‘ہم سب جانتے ہیں کہ برصغیر میں ویکسینیشن کی ابتدا اسی لڑکی سے ہوئی ہے۔’

اگلے ہفتے بمبئی میں پانچ دیگر بچوں کو ڈسٹ ہال کے بازو کی پیپ سے ٹیکہ لگایا گیا۔ وہاں سے یہ ویکسین ہندوستان کے مختلف حصوں میں بازو سے بازو پر منتقلی کے تحت پہنچا۔ انگریز کے مختلف اڈوں حیدرآباد، کوچین، تیلیچری، چنگلیپٹ، مدراس اور بالآخر میسور کے شاہی دربار تک اسی طرح پہنچا۔

انگریزوں نے ہمیشہ ان لوگوں کے نام ریکارڈ نہیں کیے جنھوں نے فراہمی کو جاری رکھا لیکن انھوں نے یہ ضرور نوٹ کیا کہ یہ بہت سے “غیر مخصوص جسموں’ سے گزرا۔

انھوں تین نصف ذات بچوں کا ذکر کیا جنھوں نے مدراس میں دوبارہ فراہمی کا سلسلہ قائم کیا اور ایک ملایا لڑکے کا ذکر کیا ہے جس نے ویکسین کو کلکتہ (کولکتہ) پہنچانے کا کام کیا۔

یہ معلوم نہیں ہے کہ نوجوان ملکہ دیوجممانی کو خشک پیپ سے ٹیکہ لگایا گیا تھا یا کسی دوسرے مریض کے پیپ سے۔ ڈاکٹر چانسلر نے کہا کہ اس خاندان میں یا دربار میں کسی اور کو ٹیکہ لگائے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔

یہ غیر معمولی بات نہ تھی کیونکہ دوسرے شاہی خاندان کو بھی ٹیکہ لگانے کی بات سامنے آئی ہے۔

انگریز

ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد انڈیا میں انگریزوں کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہوا

لیکن کسی نے بھی اسے ایک تصویر میں یادگار نہیں بنایا۔ ڈاکٹر چانسلر کے مطابق اس سیاست کا سہرا بادشاہ کی دادی لکشمی امانی کو جاتا ہے جنھوں نے اپنے شوہر کو چیچک کی وجہ سے کھو دیا تھا۔

ان کا خیال ہے کہ تینوں خواتین کے پورٹریٹ کے وسط میں وہی خاتون ہیں جنھوں نے واڈیار کی جانب سے ویکسین کی منظوری پر مہر ثبت کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا ’بیضوی چہرہ اور بڑی آنکھیں‘ اس خاندان کی خاص بات ہیں۔

ڈاکٹر چانسلر کا کہنا ہے کہ پینٹنگ اس لیے ممکن ہو سکی تھی کہ وہ اس کی انچارج تھیں۔ بادشاہ اعتراض کرنے کے لیے بہت چھوٹا تھا اور ملکہ بھی انکار کرنے کی عمر میں نہیں تھیں۔

یہ مہم جاری رہی کیونکہ لوگوں کو اس طریقہ کار کے فوائد کا ادراک ہونے لگا اور بہت سارے ٹیکہ دار نے جھاڑ پھونک کے بجائے ٹیکہ دینے کے فن کو اپنا لیا۔ پروفیسر بینیٹ کا اندازہ ہے کہ سنہ 1807 تک دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ٹیکہ لگایا جا چکا تھا۔

بالآخر پینٹنگ کسی طرح انگلینڈ پہنچ گئی اور عوامی نظر سے غائب ہو گئی۔

یہ سنہ 1991 تک پھر نظر نہیں آئی جب تک کہ ایک نمائش میں ڈاکٹر چانسلر کی نظر اس پر نہیں پڑی اور انھوں نے ان خواتین کو طاق نسیان ہونے سے بچا لیا اور انھیں دنیا کی پہلی ٹیکہ مہم میں جگہ دلا دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp