اپوزیشن کی کانفرنس اور کپتان کا مستقبل


اپوزیشن جماعتوں کی ایک اور مشاورتی کانفرنس ختم ہو چکی ہے۔ حالیہ کانفرنس کی سب سے اہم پیش رفت میاں محمد نواز شریف کا لندن سے ویڈیو لنک پر خطاب ہے۔ اس خطاب سے پہلے نواز شریف نے سوشل میڈیا پر ٹویٹر اکاؤنٹ بنایا جس نے چند گھنٹوں میں ہی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ آج کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر پر سبھی کی نظریں جمی تھیں کہ دو سال کی خاموشی کے بعد وہ کیا کہیں گے۔ اس تقریر کا ان کے حامی اور مخالفین دونوں کو شدت سے انتظار تھا۔ دوپہر میں ہونے والی جارحانہ تقریر نے کانفرنس میں سماں باندھ دیا۔ دو سال کی خاموشی کے بعد بولے تو ایسا لگا گویا ان کے سینے میں چھپا کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہو۔

تاریخ پاکستان کا احاطہ کرتی یہ تقریر پوری کانفرنس پر بھاری نظر آئی۔ نواز شریف نے عوام کے حق حکمرانی کی بات کی اور ووٹ کو عزت دلانے کے عزم کو بھی دہرایا، جمہوریت کو یرغمال بنانے والوں کا ذکر کیا اور ان کے ماورائے آئین اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔ یک طرفہ احتساب کا تذکرہ کیا اور انصاف کے دہرے معیار کو بھی زیر بحث لائے۔ ڈان لیکس اور مسلم لیگ نون کی بلوچستان حکومت ختم کرنے والے کرداروں پر بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ جولائی الیکشن میں کی جانے والی بدترین دھاندلی کو بھی موضوع سخن بنایا اور حکمرانوں کے ظلم و استبداد کے آلہ کی حیثیت اختیار کر جانے والے نیب کے دہرے احتساب کا بھی خصوصی ذکر کیا جو حکومتی کیسز پر آنکھیں بند رکھتا ہے اور اپوزیشن کو بے بنیاد مقدمات میں طلب کیا جاتا ہے۔ میڈیا پر پابندی، تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ اور علیمہ خان کی خفیہ جائیدادوں سمیت الغرض ماضی کے تمام تلخ حقائق کو کھلے الفاظ میں دہرایا۔

یاد رہے کہ کچھ دن پہلے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی خصوصی طور پر سعودی عرب گئے تھے جہاں ان کی سعودی ولی عہد سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ نواز شریف نے خارجہ معاملات میں سعودی عرب سے تعلقات اور شاہ محمود قریشی کے بیان سے پڑنے والے اثرات کو خاص طور پر موضوع گفتگو بنایا۔ گمان ہے یمن میں فوج بھیجنے کے معاملہ پر بڑھنے والی دوری اب کچھ کم ہو رہی ہے۔

کانفرنس کا اعلامیہ سامنے آ چکا ہے۔ عمران خان کے استعفیٰ سمیت نئے الیکشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے سلیکٹڈ حکومت کے خلاف جلسے جلوس کریں گی اور پھر حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا۔ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ جنوری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ عاصم باجوہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا کوئی جماعت اس کے خلاف عدالت بھی جائے گی یا صرف بات مطالبہ تک ہی رہے گی۔ نواز شریف کی دلیرانہ تقریر کے گلگت بلتستان کے الیکشن پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا یہ کانفرنس مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے گی اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

اس آل پارٹیز کانفرنس کے نتائج کیا ہوں گے اس کے لئے دو واقعات پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ سال بھی ایک کل جماعتی کانفرنس کی تھی اور اس کا اہم نقطہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی تھا۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد سے ایک رات پہلے آصف زرداری سے مقتدر قوتوں کے اہلکاروں کی ملاقات کی بازگشت سنی گئی اور پھر ہم نے دیکھا اپوزیشن جماعتیں بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کو تبدیل نہیں کر سکیں اور نہ ہی اپنے منحرف اراکین کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔

شہباز شریف نے سہیل وڑائچ صاحب کے ساتھ انٹرویو میں اعتراف کیا کہ گزشتہ الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک مقتدر حلقوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کے روابط اس حد تک استوار ہو چکے تھے کہ ان کی کابینہ کے نام بھی فائنل کر لئے گئے تھے مگر انھیں اقتدار نہیں مل سکا تھا۔ گزشتہ سال کے اختتام پر مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے سے پہلے ہی مارچ اپریل میں اس حکومت کی تبدیلی کی افواہیں سرگرم تھیں لیکن دھرنا ختم ہو گیا اور کسی بھی قسم کی تبدیلی کوسوں دور نظر آئی۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں ہوس اقتدار کی طمع برقرار رہے گی پاور بروکرز کے یہ کھیل کامیاب ہوتے رہیں گے۔

اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ سیاسی نظام میں مقتدرہ کا اثر بہت بڑھ چکا ہے۔ کوئی بھی تبدیلی مقتدرہ کی مرضی کے بغیر روبۂ عمل میں نہیں آ سکتی۔ کپتان سے اچھا فرمانبردار مقتدرہ قوتوں کو نہیں مل سکتا۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کا سروائیول ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہے۔ با اثر حلقوں کے سعودی عرب سے تعلقات میں دراڑ ضرور پڑی ہے لیکن فیصلہ کن اختیار آج بھی انہی قوتوں کے پاس ہے۔ کپتان اور مقتدرہ قوتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور کسی بھی قسم کی تبدیلی بعید از قیاس ہے۔ دوسری جانب دو سال گزرنے کے بعد بھی اپوزیشن جماعتیں استعفے دینے یا نہ دینے پر متفق نہیں ہو سکیں۔ استعفوں کا معاملہ جنوری تک مؤخر کرنا اپوزیشن جماعتوں کی غیرسنجیدگی ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے البتہ نواز شریف کی پر اثر تقریر نے مسلم لیگی کارکنوں میں ایک نیا جوش بھر دیا ہے اور گلگت بلتستان الیکشن سے پہلے ایسی جاندار تقریر بہت ضروری تھی۔

اس کانفرنس میں تمام جماعتوں نے مقتدرہ قوتوں کے کردار پر بہت کھل کر بات کی۔ متفقہ طور پر صدارتی نظام کی بازگشت مسترد کی گئی۔ اداروں کو ان کے دائرہ کار میں رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ میڈیا کی آزادی اور سیاسی جمود کے خاتمے کا عزم دہرایا گیا۔ الیکشن میں دھاندلی روکنے کے لئے مقتدرہ قوتوں کے اختیارات میں کمی کی بات کی گئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ کپتان اپنی مدت پوری کرے گا لیکن اگر سیاسی جماعتیں بیان کردہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گئیں، اگر کسی بھی جماعت نے آئندہ رات کے اندھیرے میں اقتدار کی ڈیل نہ کی، اگر انہوں نے مصمم عزم کر لیا کہ وہ مقتدرہ کی سازشوں کا آلہ کار نہیں بنیں گی تو سمجھیں یہ کانفرنس اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).