کل جماعتی کانفرنس اور اس کے نتائج



سیاسی اکھاڑے کا درجہ حرارت 17 ستمبر 2020 سے بڑھنا شروع ہو چکا ہے، جب سے حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کی ہے، تب سے حزب اختلاف جو پہلے ہی قومی احتساب بیورو کے رحم و کرم پر تھی، مستقبل کا نوشتہ دیوار پڑھ چکی ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ غریباں رکھے روزے تے دن ہوئے لمبے۔

شہباز شریف جو لاہور اور پنڈی میں صلح کے ماہر اور نبض شناس سمجھے جاتے تھے، ان کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ راحت و سکون اب نصیب میں مشکل ہی ہے۔ دوسرا دونوں سیاسی جماعتوں کا ووٹر بھی ان سے بدظن ہوتا جا رہا ہے، لہذا جو پہلے یہ سوچتے تھے کہ حکومت اپنے وزن سے گرے گی ان کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ حکومت تو نہیں جائے گی، البتہ ہم پیاز بھی کھائیں گے اور بعد میں جوتے بھی، اس دفعہ جوتا بھی پنجابی ہو گا کیونکہ سی سی پی او بھی چن کر لگایا گیا ہے۔

اس ساری محنت و مشقت کا مقصد کیا ہے، اس سب کا مقصد اس سیاسی مساوات Equation کو تبدیل کرنا ہے، جس میں پنڈی کو کسی طرح نیوٹرل یا مستقل کر لیا جائے اور حکومت اور حزب اختلاف کو دنگل کا موقع دیا جائے۔ ان تمام چیزوں میں حزب اختلاف اپنے اوپر لگے ہوئے داغ نہیں دھو سکتی، جو کرپشن، اقربا پروری اور بدعنوانی کے ہیں۔ ان داغوں کو دھونے میں صرف حکومت کی کاردکردگی اور زبان درازی مدد کر رہی ہے۔ کارکردگی اب تک صفر ہے اور ہو سکتا ہے آگے منفی کی طرف رواں دواں ہو جائے، لیکن زبان درازی کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ جس طرح قانون سازی ہو رہی ہے، حکومت کو اندازہ ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی ایک صفحہ پر ہیں۔

دوسرا مقصد سینٹ کے الیکشن ہیں، جو مارچ میں متوقع ہیں سے پہلے زمین ہموار کر کے فصل کی تیاری کرنا ہے۔ حکومت کے لئے فی الحال چیلنج تو کوئی نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ عوام الناس کو کوئی سکون فراہم نہیں کر سکی یا دوسرے الفاظ میں کہیں تو بجلی، گیس، اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں لا سکی۔ جب سے کل جماعتی کانفرنس کا اعلان ہوا معلوم نہیں کہ حکومتی وزراء اور معاونین کیوں ہیجان کا شکار ہیں، جو کل سے سخت ردعمل دیے جا رہے ہیں، اور خوامخواہ سیاسی درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں۔

اس کا بنیادی مقصد اس بات کے تاثر کو زائل کرنا ہے کہ کوئی ش لیگ بننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے، جس کا خواب جناب شیخ رشید احمد دیکھ رہے ہیں۔ نیز سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے اور پنڈی کا باور کروایا جا سکے، جناب خدمت ہم بھی کرنی جانتے ہیں، آپ خدمت کا موقع تو دیں، ہم آپ کو شکایت کا موقع نہی دیں گے۔ پنڈی والے بین الاقوامی اور علاقائی معاملات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں، جس میں بھارت اور چین کا تنازع، نیز کشمیر کا خصوصی سٹیٹس، افغان امریکہ امن مذاکرات، ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کی تکمیل اور کرونا ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

نتیجہ اس کل جماعتی کانفرنس کا یہ نکلے گا کہ اب چند ایک معاملات پر حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جلسہ اور جلوس کرونا کی وجہ سے ممکن نہیں، اور پیپلز پارٹی کبھی بھی سندھ کی حکومت کو مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے لئے قربان نہیں کرے گی۔ لہذا امید یہی ہے کہ سب ہی لوگ پرانی تنخوہ پر کام جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).