“سب اچھا ہے” کا راگ اور حقائق


جب آنکھوں والے بھی حقیقت سے چشم پوشی کریں اور سب اچھا ہے کی رٹ لگانا شروع کر دیں تو پھر حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال موٹروے پرحالیہ اجتماعی زیادتی کے ہولناک واقعہ کے بعد دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ مہم جوایک کینیڈین خاتون روزی گیبرئیل جو کہ بلاگر ہیں اور پاکستان میں موٹرسائیکل پر ٹریول کرتی رہی ہیں کی تصاویراس تحریر کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کہ ”یہ روزی گیبرئیل ہے اور کئی برس سے پاکستان میں اکیلی موٹرسائیکل پردن رات دشت و بیاباں، پہاڑوں اور شہروں میں گھومتی رہی ہے۔ اس کو آج تک کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا کہنا یہ تھا کہ موٹروے کے واقعہ کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ملک غیر محفوظ ہے۔“

ان میں شاید اس طرح کی مثبت سوچ موٹیویشنل سپیکرزکے دھواں دار لیکچرز کو سن کر پیدا ہوئی ہو۔ مثبت سوچنا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ حقائق سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے اور اپنے گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات کو شعور کی آنکھ سے دیکھا اور پرکھا جائے اوران کے محرکات کا بخور جائزہ لیا جائے تا کہ ایک منطقی نتیجہ پر پہنچ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔

اگر ایک کبوتر بلی کے سامنے آنکھیں بند کر کے مثبت سوچنا شروع کر دے تو وہ بلی سے بچ نہیں سکتا۔ اگر وہ واقعی بچنا چاہتا ہے تو حالات کی سنگینی کے پیش نظراسے فوری بچاؤ کی تدابیر کرنی پڑیں گی۔

جہاں تک رہی بات روزی گیبرئیل کی تو یہ اچھی بات ہے کہ ان کے ساتھ پاکستان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ورنہ پاکستان کی حکومت کو نجانے کہاں کہاں جواب دینا پڑتا۔

اگراس ضمن میں حقائق کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک ریپ کا کیس سامنے آ رہا ہے اور ہر آٹھ گھنٹے میں ایک اجتماعی زیادتی کا افسوس ناک واقعہ پیش آتا ہے۔ یہ ذکر صرف ان واقعات کا ہے جو رپورٹ کیے جاتے ہیں اور جو واقعات عزت نیلام ہونے، ملزمان کے با اثر ہونے، تھانے اور کچہری میں ذلیل ہونے کے ڈر کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیے جاتے وہ اس میں شامل نہیں ہیں۔

موٹروے پر اجتماعی جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون اور اس کے بجوں سے اگر پوچھا جائے کہ کیا یہ ملک ان کے لیے محفوظ ہے توان کا جواب کیا ہوگا؟

2015 میں قصور کے گاؤں حسین خانیوالہ میں منظر عام پر آنے والا سکینڈل جس میں تقریباً تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے ویڈیوز بنائی گئیں۔ اگر ان بچوں اور ان کے والدین سے پوچھا جائے کہ یہ ملک ان کے لیے محفوظ ہے تو ان کا جواب کیا ہوگا؟

اگر زینب کے والدین سے پوچھا جائے کہ یہ ملک ان کے اور بچوں کے لیے محفوظ ہے تو ان کا جواب کیا ہوگا؟

کراچی میں جس پانچ سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اگراس معصوم کے والدین سے پوچھا جائے کہ یہ ملک ان کے لیے محفوظ ہے تو ان کا جواب کیا ہوگا؟

جہلم میں امام مسجد نے جس چھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ کیا یہ ملک اس معصوم کے لیے محفوظ ہے؟

بہاولپور میں 20 سالہ لڑکی کے ساتھ ایک زمیندار کا اوباش بیٹا زیادتی کا مرتکب ہوا اور پولیس نے اس ستم زدہ کی سنوائی نہ کی اوراس نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلی۔ اس لاچار کے لیے یہ ملک محفوظ تھا؟

وہاڑی میں جس ذہنی معذور خاتون کے ساتھ پانچ افراد نے اجتماعی جنسی زیادتی کی، کیا اس بیچاری کے لیے یہ ملک محفوظ ہے؟

ایک پولیس افسر جس کا کام لوگوں کی جان ومال اورعزت و آبرو کا تحفظ کرنا ہوتا ہے وہ بھی اپنی حفاظت کے لئے اپنے ساتھ گارڈز لیے پھرتا ہے۔ کیا اس کے لیے یہ ملک محفوظ نہیں ہے؟

اگر روزی گیبریل کی مثال اور حقائق کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ملک غیر ملکی گوروں کے لیے، انگریزی بولنے والوں کے لیے اور با اثر افراد کے لیے تو محفوظ ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اپنے عام شہریوں کے لیے غیرمحفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

جوناتھن سوئفٹ کہتا ہے کہ قانون مکڑی کے اس کمزور جالے کی مانند ہوتا ہے جو کیڑوں، مکوڑوں کو تو پکڑ لیتا ہے مگر بھاری بھرکم بھونڈ اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی میں ظلم و ستم کا شکار یہی کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں جن کے پاس قانون کو خریدنے اور توڑنے کی قوت اور استطاعت نہیں ہوتی۔

فرض کریں موٹروے پرجنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کی جگہ اگر سی سی پی او لاہور عمر شیخ یا ان کے خاندان کے کسی فرد کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوجاتا، تو کیا ان کے ساتھ بھی متاثرہ خاتون جیسا سلوک کیا جاتا؟ نہیں، ہرگز نہیں! ان کوتو چند منٹوں میں پٹرول تو کیا، پٹرول سے بھری ہوئی نئی گاڑی پیش کی جاتی اور ان کو منزل تک اسکارٹ کر کے چھوڑا جاتا۔

پاکستان سے محبت کرنے والے ہر با شعور فرد اور شہری کی یہ خواہش تو ضرور ہو سکتی ہے کہ پاکستان بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب، عقیدہ، صنف اور عہدہ ہر شہری کے لیے یکساں محفوظ ہو اور ہر شخص کو برابری کی بنا پر حقوق حاصل ہوں مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تمام شہری قانون کی ”نظر“ میں تو برابر ہو سکتے ہیں مگرقانون کے ”عمل“ میں ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا جاتا۔

اگر ہم واقعی ہی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس میں بہتری اور حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو حکومت سمیت ہم سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا اور اپنی برائیوں اور کوتاہیوں کا حقیقی معنوں میں جائزہ لینا ہوگا اور صدق دل سے اپنے معاملات، کردار اور اعمال کو درست کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).