یادیں برائے فروخت


’ہمارے ویزے آ گئے ہیں‘ احمر نے سرگوشی کے انداز میں مریم کو بتایا۔ مریم جو آج تک یہ ہی سمجھے بیٹھی تھی کہ احمر ایک ناممکن خواب کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس کی ناموافق تعبیر کا احساس ہی اسے پریشان کر دیتا، مگراب وہ خواب حقیقت بنے اس کے سامنے کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔ پچھلے کئی ہفتوں میں اس نے احمر کے شوق کو دیکھتے ہوئے بے دلی سے اس کی کامیابی دعائیں تو مانگی تھیں مگر دل کی ہی دل میں وہ یہ چاہتی کہ کاش ایسا نہ ہی تو اچھا ہے۔

اگلے چند دنوں میں ہنگامہ خیز انداز میں امریکہ شفٹ ہونے کی تیاری ہونے لگی اور مریم کھوئی کھوئی سی رہنے لگی، اپنے گھر سے دور جا بسنے کا احساس کچوکے لگاتا رہا۔ یہ گھر یہ گھونسلہ جو اس نے آٹھ سال کی سخت محنت اور چاہت سے تنکا تنکا کر کے بنایا تھا اجڑنے کو تھا۔ اگرچہ یہ کرائے کا مکان تھا مگر اس کی ایک ایک چیز انتہائی محبت اور خیال سے ترتیب دی گئی تھی۔

’میں آج ہی او ایل ایکس (OLX) پر اکاؤنٹ بنا کر گھر کی سب چیزوں کی تصویریں ڈال دیتا ہوں، بیچنے کے لئے‘ ۔ جب احمر کے یہ الفاظ اس نے سنے تو اسے اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔

اس گھر میں جب وہ نئی آئی تھی تو شروع شروع میں زمین پہ سونا پڑاکیونکہ ابھی پلنگ نہ خریدا تھا جب کہ آج اس گھر کی شاندار چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہیں اس کے دوسرے بچے کا جنم ہوا اور کتنے گرم سرد موسم دونوں میاں بیوی نے اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اکٹھے دیکھے تھے۔ گھر کی اک اک چیز کے ساتھ خوشیوں اور اداسی کی سینکڑوں یادیں وابستہ تھیں۔

یہ سنگھار میز اور صوفہ اس نے اپنی شادی کے موقع پر لیا، یہ کھانے کی میز اور پلنگ کمیٹی ڈال کے اس نے اپنی پسند کے بنوائے تھے، لوہے کی الماری اور نرم لکڑی کی کیبنٹ کتنے چاؤ سے فرنیچر مارکیٹ سے پسند کی تھیں۔

’آج شام کوئی صاحب ڈائیننگ ٹیبل دیکھنے آئیں گے‘ احمر کی بات سے اس کا یادوں کا محور ٹوٹا۔ شام میں ایک بزرگ جوڑا اپنی بیٹی کی شادی کے لئے ان کا فرنیچر پسند کر کے لے گیا، انتہائی سستی قیمت پر اس کا محبوب سامان اٹھا لیا گیا۔ کسی کی بیٹی کے جہیز کے لئے نئی زندگی کا سامان ہوا اور کسی بیٹی کی سامان سے جڑی یادیں رخصت ہوئیں۔ اسی میز پر بیٹھ کر اس کے بیٹے نے پہلی دفعہ خود سے کھانا سیکھا تھا اور اس کی پہلی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا، اس کی ساس کی وفات سے پہلے آخری دعوت کا کھانا کھایا گیا اور دوستوں کی ضیافتیں کی گئیں، وہ میز اپنے ساتھ سب یادیں لئے رخصت ہوا، مریم نے اپنے آنسو چھپا لئے۔

ایک ایک کر کے وہ سب چیزیں، وہ نیا فرج جسے مریم نے پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد ابھی صرف چھ ماہ پہلے خریدا تھا، وہ ٹیلی ویژن جس نے بے خواب راتوں میں اس کا ساتھ دیا، وہ ائر کنڈیشنر جس نے تپتی دوپہروں میں جاب سے واپسی پہ آرام دہ جنت فراہم کی تھی، وہ قالین جس پر اس کی بیٹی نے رینگنے سے کھڑے ہونے اور پھر چلنے تک کا سفر طے کیا تھا، باورچی خانے کے برتن جن میں بہت سے اس کے میکے کا تحفہ تھے سب کچھ رخصت ہوتا گیا۔ مریم کو یوں لگا جیسے گھر خالی نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا وجود اور دل خالی ہو گیا تھا۔

انسان کی چیزیں بھی اس کی یادوں کا البم ہوتی ہیں، یہ ایک خوبصورت کتاب ہوتی ہیں جن کے صفحات پر گزرے دنوں کی کہانیاں لکھی ہوتی ہیں۔ اس کے بیٹے کا پنگھوڑا اٹھا تو وہ آنسوؤں پہ قابو نہ رکھ سکی اسے تصور میں اپنے زچگی کے بعد کے دنوں میں بچے پنگھوڑے میں لیٹے نظر آئے جن کی ایک سسکی پہ وہ انہیں سینے سے لگائے گھنٹوں بیٹھی رہتی۔

احمر نے گھر کی چیزیں کیا بیچیں اس کی یادیں انتہائی سستے داموں فروخت کر دیں۔ اس نے رخصتی سے پہلے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے سسرال والوں کی دعوت کی، اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ ان سب کو چھوڑ کے رخصت ہو رہی ہے اس کی سہیلی جس نے اس سے پلنگ خریدا تھا وہ اسے آخری دن تک اس کے پاس ہی چھوڑ گئی لیکن جب وہ بھی اٹھا لیا گیا تو وہ زمین پر ہی بیٹھ گئی، اس نے اپنے گرد خالی کمروں کو دیکھا تو اسے وحشت محسوس ہونے لگی۔ احمر کہیں ہم غلط تو نہیں کر رہے؟ خدا کی اتنی نعمتوں کو ٹھکرا کر نئی منزلوں کی تلاش میں جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ رستے کھو جائیں اور ہم بھٹکتے پھریں اور کہیں نامراد واپس آئیں اور پھر اپنی چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمارے رشتے بھی کوچ کر چکے ہوں اور پھر ہمارے پاس گرد کے سوا کچھ نہ بچے۔

احمر مجھے یہاں سے نہ لے جاؤ میری خوبصورت چیزیں میری قیمتی یادیں مجھ سے نہ چھینو، میں یہاں سے کہیں نہیں جانا چاہتی، کاش یہ سب ایک خواب ہو اور ابھی میری آنکھ کھلے اور اور میرا بیٹا اپنی پسندیدہ سائیکل چلا رہا ہو اور بیٹی پنگھوڑے میں بیٹھی اپنی پسندیدہ رکابی میں کھیر کھا رہی ہو۔ میں پردیس نہیں جاؤں گی، میری یادیں مت بیچو، اسے یوں لگا کہ اس کا یہ محل محض تاش کے پتوں کا قلعہ تھا جو ہوا کا ایک جھونکا آنے پر زمین کو آ رہا اور اس کے اندر کچھ منہدم ہو گیا۔

مریم دفعتاً بلند آواز سے چلائی اور اچانک اس کی آنکھ کھل گئی، وہ خواب دیکھ رہی تھی۔ وہ امریکہ میں اپنے آرام دہ بستر میں تھی اور ساتھ احمر محو خواب تھا۔ آج اسے امریکہ شفٹ ہوئے پانچ برس ہو چکے تھے وہ پرانی یادیں اونے پونے فروخت کر کے ایک نئی اجنبی دنیا میں آ بسی تھی اور اب اتنی ہی محبت سے ایک اور محل کھڑا کر رہی تھی مگر ماضی کی یہ حقیقت اکثر خواب بن کے آج بھی اس کی راتوں کو بے چین رکھتی۔

اب اس نئے گھر کی بنیادوں میں اس کی یادوں کانیا مجموعہ اکٹھا ہو تا جا رہا تھا، کیا یہ گھر اس کا آخری پڑاؤ ہو گا؟ وہ سوچنے لگی۔ عورت زندگی میں کتنے گھر بدلتی ہے لیکن کوئی بھی گھر اس کا مستقل گھر نہیں ہوتا، ہر گھر کو وہ اپنی محبت کے خون سے سینچتی ہے اور پھر کسی دن کوچ کا نقارہ بج جاتا ہے اور وہ پیچھے اپنی یادوں کا قبرستان چھوڑے اپنا رخت سفر باندھ لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).