مسڑ کراچی! باولے ہو تم، کسی کو تم سے پیار نہیں


مولانا رومی کی حکایت سے ”ایک چڑا اور چڑی شاخ پر بیٹھے تھے۔ دور سے ایک انسان آتا دکھائی دیا تو چڑی نے چڑا سے کہا اڑ جاتے ہیں یہ ہمیں مار دے گا۔ چڑا کہنے لگا کہ دیکھو ذرا اس کی دستار پہناوا شکل سے شرافت ٹپک رہی ہے یہ ہمیں کیوں مارے گا۔ جب وہ قریب پہنچا تو تیر کمان نکالی اور چڑا کو مار دیا۔۔۔ چڑی فریاد لے کر بادشاہ وقت کے پاس حاضر ہوگئی، شکاری کو طلب کیا گیا اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ بادشاہ نے چڑی کو سزا کا اختیار دیا کہ جو چاہے سزا دے۔ چڑی نے کہا اس کو بول دیا جائے کہ اگر یہ شکاری ہے تو لباس شکاریوں والا پہنے۔ شرافت کا لبادہ اتار دے“ ۔ ہمارے ملک بھی ایسے ہی دہرائے پر کھڑا ہے عوام چڑچڑے اور شکاری حکمران، اب وقت کا پہیا کہاں یو۔ ٹرن لیتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔

جب سے عمران خان صاحب وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں عوام کے مسائل حل کیے یا نہ کیے اپنے مذاقیہ پیکجز سے عوام کو لطف اندوز ضرور کر رہے ہیں۔ گھبرانا نہیں یہ تکیہ کلام تو برداشت کر ہی رہے ہیں لیکن پرانے تحفے پر نیا ریپر یہ بات ہاضم نہیں ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے لیے 1100 ارب مالیت کے سب سے تاریخی پیکج کا اعلان کیا ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا تعاون ہوگا۔ اس کے کچھ ہی دنوں میں دونوں حکومتوں میں یہ کھلبلی مچ گئی کون کتنا ارب ملائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کو اس بحث مباحثہ سے کوئی مطلب نہیں کیونکہ وہ اس سے قبل کئی ایسے پیکجز دیکھ چکے ہیں جو سنہرے خواب کی طرح سنائے تو جاتے ہیں لیکن عملاً صفر ہیں پھر وفاق نے کھایا یا صوبائی نے اس سے کیا فرق پڑتا ہے عوام تو ہمیشہ خالی ہاتھ ہی رہے ہیں۔

1100 ارب بہت بڑی رقم ہوتی ہے اگر درست استعمال کیا جائے تو واقعی کراچی کی حالت بدل جائے۔ اس پیکج کی مدد سے کراچی کے مرکزی مسائل جیسے پانی، نالے، سیوریج کانظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کا حل ڈھونڈا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس رقم کی تقسیم یوں ہوگی:

پانی کی فراہمی پر 92 ارب روپے
سیوریج پر 141 ارب روپے
ماسٹرانسٹ پر 572 ارب روپے
سالڈ ویسٹ، بارش کے پانی کی نکاسی، تجاوزات، آبادکاری وغیرہ پر 267 ارب روپے
جبکہ سڑکوں کی تعمیر پر 41 ارب روپے

اس رقم سے تین سال میں کراچی کے مسائل کو حل کر دیاجائے گا یعنی روزانہ کی بنیاد پر 1 ارب روپے کا استعمال ہوگا۔ لیکن کیا اس وقت ان ہی اہم مسائل نے کراچی کو گھیرا ہوا ہے؟ آپ کو یاد دلاتی چلوں گزشتہ برس مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ کراچی میں 162 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور اسی سال ستمبر میں وزیر اعلی مراد علی شاہ نے بھی بتایا تھا کہ صوبائی حکومت کراچی کے لیے 800 ارب روپے کا پیکج پیش کرے گی۔ جبکہ جون 2020 میں پیش کیے گئے سالانہ صوبائی بجٹ میں بھی کراچی کی ترقی کے لیے 26 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ یہ رقم کب، کہاں، کیسے استعمال کی گئی عوام اس سے لاعلم ہیں کیونکہ کراچی کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ہاں ایک کام حکومت نے ضرور کیا ہے کہ کراچی کی دیواروں پر یہ نصب کروادیا ”آئی ایم کراچی، آئی لو کراچی“ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ”مسٹر کراچی! باولے ہو تم۔ کسی کو تم سے پیار نہیں“ کیونکہ یہاں جو آتا ہے اپنی ہی پونجی ڈبل کر کے جاتا ہے۔

کراچی کے گٹر نالوں سے بچہ بچہ واقف ہے بعض بچے تو انہی نالوں میں کھیلتے کھیلتے بڑے ہوئے ہیں اب ان سے بہتر میں اور آپ نالوں کے بارے میں بات نہیں کر سکتے کہیں کالے کالے ابلتے ہوئے گٹر کے پانی میں تیراکی کی جاتی ہے تو کہیں نالوں سے سفید جھاگ یوں اڑ اڑ منہ پر آنے لگتی ہے گویا جلد کو چمکا دینے والے صابن کا کمرشل جاری ہو، سونے پہ سہاگا بارش کے بعد سے اب تک پورے شہر میں غلاظت پھیلی ہوئی ہے جس پر کام کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عوام ٹیکس ادا کرنے باوجود گلی محلوں میں اپنی مدد آپ کے تحت پیسے جمع کر کے علاقے کے گٹر نالوں کی صفائی کرواتے ہیں۔

بجلی والے بھی کسی کی نہیں سنتے جو کرنا ہے کر لو، ایک حکومت آئی دوسری گئی لیکن ان بجلی والوں کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ شاید جتنی زیادہ شکایات کی جاتی ہیں یہ ادارہ پھر اتنا ہی عوام کو پریشان کرتا ہے بہر حال نیپرا کے ایکشن لینے کے بعد بھی بجلی مسلسل غائب ہی ہے۔ بعض علاقے گیس کے مسائل سے بھی دوچار ہیں وہ یہی کہتے ہیں بجلی والے کیا کم تھے جو باقی کسر گیس والے پوری کر رہے؟ پانی سے محروم بھی ہیں ہم اور جہاں پانی میسر ہے وہاں صاف پانی نہیں، اس سب کے بعد ٹرانسپورٹ رہ جاتی ہے جسے چلانے والے اپنی من مانی کرتے ہیں جب کرائے مقرر ہیں تو گیس یا پیٹرول کی بندش پر یہ منہ مانگے کرائے وصول کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

جگہ جگہ پڑے کچروں کی صفائی کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ادارے کے ایم سی اور ڈی ایم سی بڑے بڑے مالز، ہسپتالوں اور دیگر ایسی جگہوں پر کھڑے ہیں جہاں عوام کا بے تحاشا آنا جانا ہو اور یہ وہاں عوام کی مدد کے لیے قطعاً نہیں کھڑے ہوئے بلکہ پارکنگ کے نام پر پیسے وصولی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کا دور دور تک کے ایم سی اور ڈی ایم سی کوئی تعلق نہیں جو نقلی کاغذات کی بنیاد پر عوام کو لوٹ رہے ہیں اور ہم پڑے لکھے باشعور ہونے کے باوجود اس غلط فعل میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ ہم ہی ہیں جو انہیں بڑھاوا دیتے ہیں یہ سوچ کے کہ دس بیس پچاس روپے دینے سے کیا ہو جائے گا لیکن اس وقت یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم ایک یا دو بار دینے سے انکار کردیں تو آہستہ آہستہ اس سے مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔

کراچی والوں تم گھبرا سکتے ہو کیونکہ فی الحال حکومت کے پاس نہ تو جادوئی چھڑی ہے اور نہ ہی الدین کا چراغ جو ہمارے مسائل حل کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).