وطن کے بارے میں کڑھنا کیوں؟


ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت کی نا اہلی کے سبب ہی لوگ ملک کے حالات بارے کڑھنے لگے ہوں، کڑھنے والے تب سے کڑھتے رہے ہیں جب سے یہ مملکت معرض وجود میں آئی تھی۔ کڑھتا کون ہے؟ ایسا شخص جو یا تو درد دل رکھتا ہو یا اس کے ذاتی مفادات پورے نہ ہوتے ہوں۔ درد دل رکھنے والا اس لیے کڑھتا ہے کہ اسے لوگوں کے بد سے بدتر ہوتے ہوئے حالات زندگی، لوگوں کی معاملات بارے سرکاری محکموں تک داد رسی کے فقدان، لوگوں کی بے چارگی کا قلق ہوتا ہے مستزاد یہ کہ وہ خود بھی لوگوں کا حصہ ہوتا ہے۔

ذاتی مفادات پورے نہ ہونے کے سبب کڑھنے والا بھی نظام سے شاکی ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی طرح عمرانی حوالے سے متوسط طبقہ سے اعلٰی طبقے تک سعود کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ کڑھنے والا ایک تیسرا فریق بھی ہوتا ہے جو اگرچہ ممکن ہے بہت زیادہ بدحال نہ بھی ہو مگر حساس ہو اور اس کے حساس پن کو علم و ادب نے مزید مہمیز دی ہو۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ درد دل رکھنے والے اور حساس افراد میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ درد دل رکھنے والا کوئی بھی اللہ کا بندہ ہو سکتا ہے مگر حساس وہ ہوتا ہے جو پڑھتا لکھتا بہت ہو، دنیا جہان کے بارے میں علم رکھتا ہو۔

ایک چوتھا فریق بھی ہوتا ہے جو کڑھتا وڑھتا نہیں ہے مگر کڑھنے کا سب سے زیادہ ذکر اسی کی زبان سے ہوتا ہے۔ کڑھنے کا ڈرامہ کرنے والے یہ لوگ خوشحال لوگ ہوتے ہیں جو امرا کے کلبوں، سیاسی، سماجی محافل اور مشترکہ عوامی بیٹھکوں میں خود کو درددل رکھنے والے اور حساس ثابت کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کا سبب ان کا لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنانے کا قصد ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف تبدیلی اور انقلاب کے نقیب بنتے ہیں بلکہ جب کوئی تبدیلی آ جائے یا انقلاب برپا ہو جائے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی انہی لوگوں کو پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے انقلاب فرانس کا ذکر عام سنا ہوگا، اس انقلاب کے اگوان عام لوگ یا مزدور نہیں بلکہ سربرآوردہ و خوشحال وکلا اور دانشوروں کا گروہ تھا۔ اسی طرح روس کے اکتوبر انقلاب کی سربراہی کرنے والی تمام کی تمام شخصیات بھی اسی قبیل کے افراد میں سے تھیں۔

کڑھنا اور صرف کڑھتے رہنا کوئی مثبت جذبہ یا فعل نہیں مگر کڑھتے ہوئے اگر آپ کڑھنے کے اسباب، ان اسباب کے سد باب اور سد باب کے بعد بہتر صورت احوال پیدا کرنے کا نقشہ کھینچتے ہوں چاہے بول کر، لکھ کر یا عملی طور پر تو کڑھنا محض مثبت نہیں بلکہ بہت ہی مثبت عمل قرار پائے گا۔

بھلا کون نہیں جانتا کہ کڑھنے کی وجوہات میں عسرت، غربت، بے روزگاری، مشاہروں اور اخراجات میں مہنگائی کے سبب گہرا تفاوت، افسرشاہی، دادرسی کے فقدان، انصاف کی فراہمی سے گریز، سرکاری نظام کا مبنی بر امتیاز ہونا، تعلیم اور صحت کا کمیاب یا نایاب ہونا، ماحول کا گندا ہونا، صفائی کی کمی، مکھیوں مچھروں کا ہونا یعنی من حیث المجموع سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کا ہونا شامل ہے۔

انتہائی غریب لوگوں کو نہ اس بارے میں شعور ہوتا ہے نہ وہ اس بارے میں سوچ سکتے ہیں کیونکہ وہ نمک کی کان میں نمک بن کر رہ رہے ہوتے ہیں۔ درمیانے طبقے کے افراد میں آگے جانے کی آرزو بھی ہوتی ہے اور پیچھے جانے کا خوف بھی اس لیے وہ ان سب معاملات بارے سوچتے بھی زیادہ ہیں اور کڑھتے بھی بہت ہیں مگر اس طبقے کے لوگوں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی خواہشوں کو تج دینے سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں چنانچہ اس معاملے میں کسی طرح کا عملی اقدام لینے سے گریزاں رہتے ہیں تاہم اسی طبقے سے کچھ لوگ سب کی بھلائی کی خاطر اپنا کچھ نہ کچھ یا بہت کچھ یا سب کچھ تج دینے کی ہمت بھی کر لیتے ہیں اور ٴکئی لوگ اپنا کیریر بنا لینے کے بعد یا خاصا کچھ پا لینے کے بعد اپنے کڑھنے کو مثبت شکل دینے کے جتن بھی کرنے لگتے ہیں۔

بہت خوشحال لوگوں میں بھی خال خال ہی سہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فی الواقعی کڑھتے ہیں اور ان سب باتوں کے بارے میں دل سے بولتے بھی ہیں، دل سے لکھتے بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر عملی طور پر اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو مالی طور پر کسی ایسی تحریک یا تنظیم کی مدد بھی کرتے ہیں جو تبدیلی یا انقلاب کی داعی ہونے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کی خاطر کوئی عملی کام بھی کر رہی ہوتی ہے۔

کڑھنے سے چھٹکارہ تو تب ہی ہو سکتا ہے جب معاشرے کو تمام مسائل سے نجات مل جائے مگر یقین کیجیے بہشت ایسا معاشرہ کوئی بھی نہیں ہوا کرتا بہشت ہونے کے نزدیک تر ضرور ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سوویت دور میں روس کے تمام سکولوں میں بچوں کو ناشتہ اور دوپہر کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا تھا مگر آج سوویت یونین کے خاتمے کے ایک عرصہ بعد ناشتہ چوتھی جماعت تک مفت ہے اور پانچویں جماعت کے بعد پیسے دے کر۔ دوپہر کا کھانا بھی معاوضہ دے کر، پیسے بھی کچھ کم نہیں بلکہ پاکستان کی کرنسی کے مطابق تقریباً پندرہ ہزار روپے ماہوار۔

اگر کسی کے دو سے زیادہ بچے ہوں تو اسے سرکار سے مالی امداد تب ہی ملے گی اگر وہ ملازمت کرتا / کرتی ہو یعنی ٹیکس دہندہ ہو۔ ہے نہ عجیب بات۔ مطلب یہ کہ قوانین یا اصول امتیازی نوعیت کے ہیں۔ ایسے ہی امتیازی معاملات بہت اچھے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں۔ مگر ان معاملات پہ کڑھن خالص ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے جس کا مداوا فرد اپنی محنت یا استعداد کو بروئے کار لا کرکے کر سکتا ہے۔

اس کے برعکس جہاں معاملات اجتماعی ہوں اور ان سے خاطر خواہ طور پر نمٹے جانے کی سعی کیے جانے کا شائبہ تک نہ ہو وہاں کڑھنا ایک عمومی ردعمل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).