آرمی چیف سے ملاقات نون لیگ کی پالیسی کے خلاف ہے: مریم نواز


ستمبر کا آخری ہفتہ رخصت ہونے کو ہے اکتوبر کی آمد آمد ہے۔ جو لوگ اسلام آباد رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اکتوبر میں اسلام آباد کا موسم انگڑائی لیتا ہے اور سرما کی آمد کی نوید دیتا ہے مگر لگتا ہے جس طرح پاکستانی سیاست میں گرمی عروج پر ہے موسم نے بھی اس سے اثر لے لیا ہے۔

آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں اہم کیسز کی سماعت ہونا تھی۔ سابق صدر آصف زرداری کی ضمانت کا کیس، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا ایون فیلڈ ریفرنس اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہونا تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کیسز کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کرنا تھی۔

میں صبح نو بجے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب روانہ ہوا۔ پشاور موڑ سے نیا نام دیا گیا سری نگر ہائی وے پر عازم سفر ہوا تو جی الیون اشارے پر مجھے روک لیا گیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں سے منہ ماری ہوئی۔ ڈیوٹی پر مامور ایس ایچ او سے کہا کہ سر آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا کہیں سے بھی جانے نہیں دیا جا رہا۔ مریم نواز نے تو پیشی پر جانا ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت مریم نواز سے اتنے خوف میں کیوں مبتلا ہے؟ آپ نے تو سری نگر ہائی وے پر بھی خار دار تاریں لگا رکھی ہیں۔

نیک نام پولیس افسر بولا سر ہم تو حکم کے پابند ہیں ان باتوں کا ہمیں کیا پتہ؟ آپ جی نائن سے واپس ہائی کورٹ کی طرف جائیں وہاں سے ہم نے صحافیوں کے داخلے کا انتظام کر رکھا ہے۔ چار و ناچار مجھے واپس جی نائن کی سروس روڈ استعمال کرنا پڑی۔ سروس روڈ استعمال کرتے ہوئے نادرا دفتر کے سامنے پہنچا تو سڑک کو پھر روڈ بلاک سے بند پایا۔ ٹریفک کا بے پناہ ہجوم وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ سماعت شروع ہونے میں تھوڑا وقت باقی آگے نہ جانے کتنی خواری دیکھنا پڑے گی۔

گاڑی کو یو ٹرن دیا۔ وزیراعظم عمران خان والا یوٹرن نہیں مجھے واقعی حقیقی مسئلہ تھا۔ تھرڈ روڈ سے اندر جائیں تو ایک پوری مارکیٹ گاڑیوں کی ورکشاپس پر مشتمل ہے۔ جہاں پرانی اور خراب گاڑیوں کی اوور ہالنگ کے بعد دوبارہ سڑکوں پر دوڑانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

گاڑی پارک کرنے کے بعد پیدل تین سے چار کلو میٹر کی مسافت کے بعد ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوا۔ کمرہ عدالت میں پہنچا تو نون لیگ کے ڈاکٹر مصدق ملک کے ساتھ نشست پر بیٹھ گیا۔ کیس کی سماعت شروع ہونے میں پون گھنٹہ کا وقت باقی تھا۔ غنیمت جانتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک سے گفتگو شروع کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس وقت مضبوط ترین اپوزیشن ہے اس بات پر ڈاکٹر صاحب ہنسے اور بولے جی بالکل ایسا ہی ہے جو حشر ہمارا ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ مطیع اللہ جان، ڈان کے رپورٹر اسد ملک، اسد طور اور دنیا نیوز سے رضوان قاضی بھی شامل گفتگو ہوئے۔

مریم نواز پونے ایک بجے کمرہ عدالت میں داخل ہوئی ان کے آنے سے قبل نون لیگ کے اہم رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے جن میں سردار ممتاز، مائزہ حمید، میاں جاوید لطیف، نزہت صادق، حنا پرویز بٹ اور دیگر موجود تھے۔ مریم نواز نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کا امیون سسٹم کمزور ہے جس کی وجہ سے ان کا آپریشن ممکن نہیں ابھی وہ دوائیاں استعمال کر رہے ہیں کرونا کی وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد ان کا آپریشن ممکن ہو گا۔

پارلیمانی لیڈروں کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات پر پوچھے گئے سوال کا جواب انھوں نے دیتے ہوئے کہا کہ نون لیگ پالیسی میں یہ شامل نہیں اگر کوئی ملا ہے تو وہ ذاتی حیثیت میں ملا ہو گا۔ پارلیمانی لیڈروں کو ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ مضبوط ادارہ ہوتا ہے وہاں سب فیصلے ہوتے ہیں۔

ایک بج کر پانچ منٹ پر دو باریش نوجوان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ منصفین آنے والے ہیں۔ منصفین کے آنے پر آوازہ لگا آصف زرداری بنام سرکار۔ اس کیس کی سماعت پانچ منٹ ہوئی اگلا آوازہ لگا مریم نواز بنام سرکار، صفدر اعوان بنام نیب۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر گئے پانچ منٹ سماعت ہوئی اور دسمبر کے اخری ہفتے کی اگلی تاریخ دے دی گئی۔

کمرہ عدالت میں نون لیگی ورکر مریم نواز کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ کیپٹن صفدر مریم نواز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے رہے۔ کارکنوں کی یلغار سے انھیں بچاتے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر لے گئے باہر آ کر مریم نواز نے ایک بار پھر میڈیا سے گفتگو کی اور انھوں نے وہی باتیں دہرائی جو کمرہ عدالت میں ہم سے کر چکی تھی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui