خواتین کی صحت: پاکستان میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا نظام کتنا موثر ہے؟


حاملہ

تعلیم یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکر سے باقاعدگی کے ساتھ چیک اپ کروایا جائے تو ہر حاملہ خاتون کو ہسپتال آنے کی ضرورت نہیں

سنہ 2008 میں پنجاب کے دیہی علاقوں کی آبادی اندازاً پانچ کروڑ تھی تب یہاں سنہ 1993 میں شروع ہونے والے ایک منصوبے کے تحت 515 ایسے مراکز قائم تھے جن کا کام حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے مسائل کو حل کرنا تھا۔

دس سال بعد یعنی 2019 میں پاکستان کے ادارہ شماریات نے ملک میں صحت کی سہولیات سے متعلق دستاویز شائع کی۔ اس دستاویز کے مطابق دس برسوں میں پنجاب میں ان صحت مراکز کی تعداد کم ہو کر 284 رہ گئی۔ دوسری جانب اس دورانیے میں صوبے کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق علاج کی سہولیات میں بلوچستان سب سے پیچھے ہے جہاں دوران زچگی شرح اموات ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

بلوچستان میں سنہ 2008 میں ماں اور بچے کے لیے بنیادی صحت کے 93 مراکز تھے جبکہ ادارہ شماریات کے مطابق 2019 میں یہ تعداد صرف دو مراکز کے اضافے کے ساتھ 95 تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں میں وقفہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ختم ہو گئی ہوں‘

پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

پاکستان میں حاملہ خواتین کا بڑا مسئلہ ’اینیمیا‘ کیوں ہے اور اس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟

صحت کے ان بنیادی مراکز میں تسلسل کے ساتھ کمی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس بارے میں بی بی سی نے ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی سے بات کی جو وفاق میں وزارت صحت میں ڈائریکٹر نیوٹریشن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب صحت کے بنیادی مراکز نہیں ہوں گے یا کم ہوں گے تو اس کا بوجھ براہ راست بڑے ہسپتالوں پر پڑتا ہے۔

پاکستان میں حاملہ خواتین کے صحت کے مراکز ذریعہ: ادارہ شماریات پاکستان
صوبہ سنہ 2008

سنہ 2019

پنجاب

515

284

سندھ

150

220

خیبر پختونخواہ

144

153

بلوچستان

93

95

اسلام آباد (وفاقی دارالحکومت)

05

04

انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نظامِ صحت تین حصوں میں کام کرتا ہے، پہلا حصہ پرائمری یعنی بنیادی ہیلتھ کیئر ہے جس میں کمیونٹی کی سطح پر صحت کے مراکز قائم کیے جاتے ہیں جیسا کہ حاملہ خواتین کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام۔

دوسری یا سیکنڈری سطح پر ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح کے ہسپتال آتے ہیں۔ جبکہ تیسری سطح پر صحت کے نظام میں شہروں میں واقع بڑے ہسپتال آتے ہیں جہاں آپریشن اور زیادہ بیمار افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’کمیونٹی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے شروع ہونے والا نظام گائناکالوجسٹ یا سپیشلسٹ پر ختم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بنیادی مراکز صحت کا نظام اس سطح کا نہیں کہ وہ ہماری ماؤں یا حاملہ خواتین کے لیے مناسب ہو، ہمارے صحت کے اعشاریے تیسری دنیا کے ممالک میں نچلی سطح پر ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام آیا تو یہ فائدہ ہوا کہ خواتین میں آگاہی پیدا ہوئی اور وہ اپنے علاج کے لیے باہر نکلیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد انتہائی کم ہے اور اس وقت بھی صحت کے شعبے کے بنیادی یا پرائمری انفراسٹرکچر کے لیے ہمیں 80 ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے۔‘

حاملہ

ڈاکٹر سیدہ بتول کے مطابق حاملہ خواتین کے وارڈ میں رش اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ خواتین کی دوران زچگی پیچیدگیاں زیادہ ہو رہی ہیں

واضح رہے کہ پاکستان میں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام سنہ 1993 میں وضع کیا گیا تھا اور ملک بھر میں صحت کے بنیادی مراکز قائم کیے گئے تھے۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق دو ہزار خواتین کی بھرتی سے شروع ہونے والے اس پروگرام میں اس وقت لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔

ملک میں کاغذوں کی حد تک تو صحت کا مضبوط بنیادی ڈھانچہ نظر آتا ہے لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں میں 1500 مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے، جبکہ حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کے لیے ملک بھر میں صرف 756 بنیادی صحت کے مراکز ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سنہ 2008 میں سرکاری ہسپتالوں کی تعداد 948 تھی جبکہ سنہ 2019 میں یہ بڑھ کر 1282 ہوئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور ’ہسپتالوں کی یہ تعداد 22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کے لیے نہایت کم ہے۔‘

ہسپتالوں کی تعداد، طبی عملے کے مطابق حاملہ خواتین کے لیے قائم صحت کے مراکز کی ذمہ داریاں بھی بٹ گئی ہیں، جن مراکز کو 24 گھنٹے کام کرنا تھا وہ چھ سے آٹھ گھنٹے ہی خواتین کے لیے کھلے رہتے ہیں۔

حاملہ

ڈاکٹر بتول کے مطابق ملک میں ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ ڈاکٹرز کی تقسیم کا ہے، شہروں میں بڑی تعداد ہے ڈاکٹروں کی مگر دیہی علاقوں میں نہیں ہے

بی بی سی نے اس بارے میں ڈاکٹر سیدہ بتول سے بات کی جو اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال پمز میں کئی دہائیوں سے ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ ان کے زیرِ انتظام مرکز ’مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹر‘ میں ایک دور میں علاج کی بہترین سہولتیں موجود تھیں مگر اب آبادی کا تناسب جس تیزی سے بڑھا ہے، صحت کے اس مرکز پر بوجھ بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اب بھی ’ہمارے پاس جو مریض خواتین آتی ہیں ہم ان کا مکمل علاج کرتے ہیں، مگر یہ سمجھنا ہو گا کہ حمل بیماری نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے اور ایک تجربہ کار، تعلیم یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکر سے باقاعدگی کے ساتھ چیک اپ کروایا جائے تو ہر حاملہ خاتون کو ہسپتال آنے کی ضرورت نہیں۔‘

ڈاکٹر سیدہ بتول کے مطابق حاملہ خواتین کے وارڈ میں رش اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ خواتین کی دوران زچگی پیچیدگیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ ’ان پیچیدگیوں کی وجہ یہی ہے کہ خواتین حمل کے دوران لیڈی ہیلتھ ورکرز یا اپنے علاقے میں موجود کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہی نہیں ہیں یا ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتی ہیں، جب بچے کی پیدائش کا مرحلہ آتا ہے تو یہ عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق حاملہ خواتین کا ’فشارِخون بھی بلند ہو جائے تو انھیں ڈسٹرکٹ یا تحصیل ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے، ہمارے پاس بڑی بیماریوں یا پیچیدگیوں کے مریض آنے چاہییں مگر ہمیں معمولی مسائل کا بھی علاج کرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر بتول کہتی ہیں کہ شہر کے ہسپتالوں میں جو حاملہ خواتین آتی ہیں وہ زیادہ تر ’لاپرواہی‘ کے کیسز ہوتے ہیں۔

ان کی اسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ڈاکٹر بصیر اچکزئی کہتے ہیں کہ ’پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کا تعلق نہایت کمزور ہیں، اور نہ ہی ہم نے بنیادی یا سکینڈری ہیلتھ کیئر پر توجہ دی ہی نہیں۔ اور یہ دو مراکز مضبوط ہو جائیں تو بڑے ہسپتالوں پر بوجھ ختم یا بہت کم ہو جائے گا۔‘

حامملے

ماہرین کا خیال ہے کہ تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہوں تو ہر دس میں سے نو بچے محفوظ طریقے سے گھر میں ہی پیدا ہو سکتے ہیں

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران ماؤں کے ہلاک ہونے کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک خاتون کو زچگی کے دوران پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہوں تو ہر دس میں سے نو بچے محفوظ طریقے سے گھر میں ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے صحت کے بنیادی مراکز کو فعال اور عملے کی تربیت کے انتظامات کرنا ہوں گے۔

ڈاکٹر سیدہ بتول کے مطابق ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی یونٹ 24 گھنٹے کام ہی نہیں کرتے، صحت کے مراکز چھ سے آٹھ گھنٹے بعد بند ہو جاتے ہیں، مگر بچے کی پیدائش کا مرحلہ تو وقت کا پابند نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر بتول کے مطابق ملک میں ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے، ’ہو سکتا ہے کہ تعداد ترقی یافتہ ممالک کی طرح نہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز کی تقسیم درست نہیں ہے، شہروں میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ہے مگر دیہی علاقوں میں نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اب پنجاب حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کہ ڈاکٹروں کے لیے لازمی ہو گیا کہ وہ دیہی علاقوں میں بھی خدمات سرانجام دیں گے، مگر ہمارا اصل مسئلہ پیرامیڈک سٹاف کا ہے جن کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہییے۔

ڈاکٹر بتول کے مطابق ’لیکن اس سے پہلے صحت کے بنیادی مراکز کو مکمل طور پر فنکشنل کر دیا جائے تو کم از کم ماں اور بچے کی صحت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ حمل کے دوران کم از کم چار مرتبہ لیڈی ہیلتھ ورکر یا ڈاکٹر کے پاس جائیں تاکہ دوران زچگی پیچیدگی نہ ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp