امریکہ میں صدارتی انتخابات: صدر ٹرمپ کا اپنی شکست کی صورت میں پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دینے سے انکار


ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں ہونے والی صدارتی انتخابات میں شکست کی صورت میں پُرامن انداز میں اقتدار کی منتقلی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خیر ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہوتا ہے، آپ کو اس بارے میں علم ہے۔‘

ایک مرتبہ پھر پوسٹل بیلٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی انتخابات کے نتائج کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے۔

زیادہ تر امریکی ریاستیں اپنے شہریوں کو کورونا کے وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے ای میل یا پوسٹل ووٹنگ کا ذریعہ اپنانے پر زور دے رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹرمپ کی ہار یا جیت سے ڈاک کے نظام کا کیا تعلق؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں پریڈ کے دوران کئی کشتیاں ڈوب گئیں

حساس معلومات کے لیک ہونے کے خدشات، امریکی انٹیلیجنس کی بریفنگنز ختم

ڈونلڈ ٹرمپ

صدر ٹرمپ کا کیا کہنا تھا؟

بدھ کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ’ہار، جیت یا مقابلہ برابر رہنے‘ کی صورت میں کیا وہ ڈیموکریٹس کے امیدوار جو بائیڈن کو پُرامن طور پر اقتدار منتقل کر دیں گے؟

واضح رہے کہ صدارتی انتخابات میں صرف 41 دن رہ گئے ہیں اور انتخابی پولز میں امریکی صدر اپنے حریف جو بائیڈن کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں بہت عرصے سے ووٹوں کے متعلق شکایات کرتا رہا ہوں، اور یہ بیلیٹ تباہ کُن ہیں۔‘

جب صحافی نے ضمنی سوال کیا کہ ’لوگ احتجاج کر رہے ہیں‘ تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ووٹوں سے جان چھڑائیں، تو اقتدار کی منتقلی نہیں ہو گی بلکہ پرامن طور پر اقتدار کا تسلسل جاری رہے گا۔‘

سنہ 2016 میں بھی صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف مقابلے کے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انھیں جمہوریت پر حملہ قرار دیا تھا۔

بلآخر انھیں اس انتخاب میں فاتح قرار دیا گیا تھا لیکن وہ پاپولر انتخاب تیس لاکھ سے ہار گئے تھے۔ اس معاملے سے متعلق آج بھی اُن سے سوال کیا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ کی سیاسی جماعت ریپلیکن کے سینیٹر مٹ رومنی، جو اکثر صدر ٹرمپ پر تنقید بھی کرتے ہیں، نے بدھ کو ایک ٹویٹ میں لکھا ’جمہوریت کا بنیادی جزو اقتدار کی پُرامن منتقلی ہے، اس کے بنا تو یہ بیلاروس جیسا ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس آئینی ضمانت کے متعلق کوئی بھی ایسی تجویز جس کی صدر ٹرمپ پاسداری نہ کریں قابل قبول اور قابل فہم نہیں ہے۔‘

ڈیموکریٹس کا کیا کہنا ہے؟

ڈیلویئر میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا اقتدار کی منتقلی پر بیان ’غیر منطقی‘ ہے۔

ان کی انتخابی مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی بھی ’شرارت‘ کے لیے تیار ہیں۔

ڈیموکریٹس کی ٹیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’امریکہ کی حکومت گھس بیٹھیوں کو وائٹ ہاوس سے نکالنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔‘

جو بائیڈن پر بھی کنزرویٹیوز کی جانب سے الیکشن میں تشدد کو ہوا دینے کا الزام ہے۔ جو بائیڈن نے اگست میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’کیا کوئی سمجھتا ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتحب ہو گئے تو امریکہ میں کم تشدد نہیں ہو گا۔‘

گذشتہ ماہ ہیلری کلنٹن نے جو بائیڈن پر زور دیا تھا کہ ’کسی بھی صورت‘ میں وہ اس مرتبہ انتحابات نہ ہاریں۔

ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ریپبلکن ’غیر خاصری میں ڈالے گئے ووٹوں میں ہیرا پھیری‘ کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے نتائج پر قانونی لڑائی کے لیے وکلا کی ایک فوج تیار کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے متعلق کیا کہا؟

بدھ کو ہی امریکی صدر نے انتخابات سے قبل سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے کہ انتحابات کے نتائج کا معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں (ان انتخابات) کے نتائج کا معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے کہ ہمارے پاس نو جج ہونے چاہیں۔‘

’میرے خیال میں یہ بہتر ہے کہ اگر آپ انتخابات سے پہلے جج کی تعیناتی کر دیں، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جو دھوکہ ڈیموکریٹس کر رہے ہیں، یہ دھوکہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے سامنے جائے گا۔‘

صدر ٹرمپ بظاہر اپنے متنازع دعوؤں کا حوالے دے رہے تھے کہ پوسٹل بیلٹس میں فراڈ کا بہت زیادہ خدشہ ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ سنیچر کو ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے نامزد کریں گے۔ اور وہ خاتون جج جسٹس رتھ بادر گنسبرگ کی جگہ لے لیں گی۔ رتھ کا گذشتہ جمعہ کو انتقال ہو گیا تھا۔

صدر ٹرمپ کے حامیوں کو امید ہے کہ اگر امریکی سینیٹ کی طرف سے اس نامزدگی کی توثیق کر دی گئی تو مستقبل میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چھ، تین کی شرح سے قدامت پسند ججوں کی واضح اکثریت ہو جائے گی۔

جدید دور میں ہر امریکی انتخابات میں ہر امیدوار نے انتخابی نتائج پر بہت کڑا مقابلہ کیا ہے۔ جن میں سنہ 1960 میں جان ایف کینیڈی نے معمولی برتری سے رچرڈ نکسن کو شکست دی اور سنہ 2000 میں فلوریڈا میں جارج ڈبلیو بش نے الگور کو معمولی برتری سے ہرایا تھا۔

امریکی شہریوں کی ڈاک کا صدارتی انتخابات سے کیا تعلق؟

کیا پوسٹل ووٹنگ میں فراڈ کا خطرہ زیادہ ہے؟

امید کی جا رہی ہے کہ رواں برس امریکی انتخابات میں کورونا کی وبا کے پیش نظر عوامی صحت عامہ کے خدشات کی وجہ سے پوسٹل ووٹوں کی تعداد میں واضح طور پر اضافہ دیکھا جائے گا۔

لیکن امریکہ کے وفاقی الیکشن کمیشن کے کمشنر ایلن وینتراب کا کہنا تھا ’اس سازشی نظریہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ ڈاک کے ذریعہ ووٹ ڈالنے سے دھوکہ دہی ہوتی ہے۔‘

تاہم امریکہ میں پوسٹل بیلیٹ فراڈ کے اِکا دُکا واقعات سامنے آئے ہیں، جیسا کہ سنہ 2018 میں شمالی کیرولائنا پرائمری الیکشن میں ریپبلکن امیدوار کے مشیر کی جانب سے بیلٹس پیپرز میں دھاندلی کے الزامات کے بعد دوبارہ انتخاب ہوا تھا۔

رواں برس نیو جرسی میں بھی ایک دھاندلی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں دیکھا گیا تھا جب سینکڑوں ووٹ ایک پوسٹ باکس میں بھرے ہوئے پائے جانے کے بعد دو ڈیموکریٹک کونسلروں پر پوسٹل ووٹنگ میں مبینہ دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

لیکن سنہ 2017 میں برینن سٹنر فار جسٹس کی جانب سے سنہ 2017 میں کی جانے والی تحقحق کے مطابق امریکہ میں پوسٹل ووٹنگ میں دھوکہ دہی کی شرح نہایت کم ہے۔

میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پولیٹکل سائنس کے ایک محقق چارلس اسٹیورٹ کی تحقیق کے مطابق پوسٹل بیلٹس لاپتہ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

انھوں نے حساب لگایا کہ سنہ 2008 کے انتخابات میں ووٹ بذریعہ میل سسٹم کے ذریعہ کھوئے گئے ووٹوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ 7.6 ملین ہو سکتی ہے ، یا پانچ افراد میں سے ایک شخص جس نے اپنے ووٹ پوسٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp