اگر آئین سے عہد وفا کرتے تو۔۔۔


اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کا ہنگام ابھی تھما نہیں تھا کہ میڈیا پر پارلیمانی رہنماؤں اور آرمی چیف کی ملاقات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ذرائع کے حوالے سے چلنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات میں عسکری قیادت نے کہا ہے کہ فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے۔ آرمی چیف نے واضح کہا کہ سیاست میں مداخلت کا کوئی شوق نہیں۔ جو بھی منتخب حکومت ہوگی اس کا ساتھ دیں گے۔ میڈیائی خبروں کے مطابق اس ملاقات میں گلگت بلتستان کے انتظامی امور پر بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے کی تجویز پر اتفاق کیا گیا۔ آرمی چیف کی یہ تجویز بہت صائب ہے اور اسی بارے میں اعتزاز احسن نے بھی کہا تھا

فوج لگے گی سب کو اچھی
جب سرحد کے پاس رہے گی

فوج کا بحیثیت ادارہ سیاست میں ملوث ہونے کا نہ تو کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی آئینی گنجائش ہے لیکن فوج کی سیاست میں مداخلت سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ کوئی بھی نوجوان جب بطور سپاہی فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو سب سے پہلے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ کچھ فوجی افسران کی سیاست میں مداخلت کی بھنک پاتے ہوئے قائداعظم نے بھی جون 1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے خطاب میں ان کا حلف نامہ دہراتے ہوئے انہیں یہ باور کرایا کہ ان کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے بلکہ ان کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

محققین یہ بھی لکھتے ہیں پہلا مارشل لا لگانے والے ایوب خان کے بارے میں قائداعظم کو ان کی زندگی میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی دلچسپی فوجی کاموں سے زیادہ سیاسی کاموں میں ہے اور انہوں نے اسے برطرف کرنے کی بھی سفارش کی تھی لیکن وہ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کی ملی بھگت سے برطرف نہ کیا جا سکا اور اس گٹھ جوڑ کا نتیجہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ یہ وہی ایوب خان ہیں جس نے اپنے الیکشن میں بانی پاکستان کی بہن پر بھی غداری کے فتوے لگوا دیے تھے۔

حالیہ بحث نواز شریف کی اے پی سی میں تقریر کے بعد شروع ہوئی ہے۔ آمرانہ طرز عمل اور ریاستی استبداد کے خلاف نواز شریف نے جو سوالات اٹھائے وہ مبنی برحقیقت ہیں۔ اس نظام کی بقا کے لئے ان سوالات کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے۔ دوسری جانب آرمی چیف کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث نہیں کرنا چاہیے لیکن جس ملاقات میں یہ کہا گیا اس کی خبر بھی اسی شیخ رشید نے پھیلائی جو اکثر فوجی معاملات پر پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی وہ ایسے بیانات دیتے ہیں کہ گویا وہ فوج کے غیر سرکاری ترجمان بن چکے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ سیاستدان گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں، کبھی فوج کو ستو پینے کا طعنہ دیتے ہیں اور کبھی فوجی مداخلت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہو کر وزیر ریلوے بننے والے شیخ رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن جیتنا ہے تو فوج کے ساتھ بنا کر رکھنی پڑتی ہے۔ شیخ رشید خود بیان کرتے ہیں کہ جب کونسلر کا الیکشن لڑنے کے لئے ان کے کاغذات مسترد ہوئے تو وہ اپیل کرنے کے لئے کسی عدالت میں نہیں گئے تھے بلکہ جنرل اختر عبدلرحمان کے گھر گئے کہ آپ ہی مجھے الیکشن لڑوا سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کی آمریت میں چودھری پرویز الہی بھی کہتے رہے ہیں کہ ہم وردی میں ہی دس بار صدر منتخب کروائیں گے۔ افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے ایسے خلاف آئین دعوؤں کی کبھی بھی مذمت نہیں کی جاتی۔

شیخ رشید یا پرویز الہی جیسوں پر کبھی فتوے نہیں لگے کہ کسی بھی آرمی چیف کو وردی میں صدر منتخب کروانا خلاف آئین ہے۔ ہر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اکثر توسیع دینے کے مطالبے شروع ہو جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے ’جانے کی باتیں جانے دو‘ ۔ ایسے بیانات نہ صرف ادارے کے وقار کے منافی ہیں بلکہ اس الزام کو تقویت دیتے ہیں کہ فوج سیاست میں بھی ملوث ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو سیاستدان فوج کو سیاست میں ملوث کرتے ہیں انھیں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں، وہی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کے تارا بنتے ہیں۔ جو اس مداخلت کی نشاندہی کرتے ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اس کی مذمت کرتے ہیں، ان پر غداری کے فتوے لگتے ہیں، وہ جیلوں میں سڑتے ہیں یا پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ اچانک کہیں سیر پر چلے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حقائق بیان کرنے والے بہادر صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں جو بہرصورت ایک قابل مذمت حرکت ہے۔

اسی ملاقات کے حوالے سے مریم نواز کا بھی ایک بیان سامنے آیا کہ سیاسی معاملات جس نے ڈسکس کرنے ہیں وہ پارلیمنٹ میں آئے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے۔ آئینی طور پر ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن درحقیقت ایسا نہ ہونا بھی سیاستدانوں کی ناطاقتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے اتحاد و اتفاق سے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اس کے لئے انھیں خود سے عہد کرنا پڑے گا کہ آئندہ رات کی تاریکی میں کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ اقتدار بھلے نہ ملے لیکن آئین کی پاسداری ضرور ہونی چاہیے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے مداخلت ہی بھگتی ہے۔ متعدد ججز اس بات کا اعتراف کر چکے ہے کہ انھیں فیصلہ دینے کے لئے دباؤ کا سامنا تھا۔ حال ہی میں سابق جج ارشد ملک کا اعتراف بھی اسی دباؤ کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔ حلف سے روگردانی یا مداخلت کا سارا الزام صرف آرمی افسران کو دینا مناسب نہیں لیکن کسی عاقبت نااندیش کے گمراہ کرنے پر اپنے حلف سے روگردانی کرنا بھی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔

ایوب خان سے لے کر پرویزمشرف تک ہم نے دیکھا ہے کہ افسران جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں اسی کو ردی کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ اسی طرح عام حالات کو ایک خاص رنگ دے کر توسیع لینا بھی لائق تعریف نہیں۔ مارشل لائی ڈکٹیٹر کا غیرملکیوں کو فوجی اڈے دینا بھی حب الوطنی قرار پاتا ہے جبکہ منتخب وزیراعظم کا بھارتی وزیراعظم سے ملنا بھی غداری بنا دیا جاتا ہے۔ وجہ بڑھتا عوامی شعور ہو یا خود احتسابی لیکن اگر آرمی چیف کو یہ احساس ہوا ہے کہ انھیں سیاست سے دور رہنا چاہیے تو انھیں صرف خود سے آئین کی پاسداری کا عہد کرنا پڑے گا ورنہ کچھ عرصہ میں شاید بھرم بھی ختم ہو جائے اس کا نقصان صرف اور صرف ادارے کو ہو گا۔

اگر مارشل لائی ڈکٹیٹرز ہوس اقتدار میں مبتلا ہونے کی بجائے آئین سے عہد وفا کرتے تو آج پاکستان میں نہ صرف جمہوری نظام مضبوط ہوتا بلکہ پاکستان کے دشمن بھی کشمیر پر دیدہ دلیری سے قبضہ نہ کرتے۔ اسی کشمیر پر جسے ہم اپنی شہ رگ کہتے رہے ہیں اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم آج تک صرف دھوپ میں کھڑے ہو کر احتجاج کر سکے ہیں وہ بھی پورا آدھا گھنٹہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).