بھائی یہ سب کیسے کر لیتے ہو؟


مجھے ان پاکستانیوں پہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ جن کی عقابی نگاہوں کی رسائی وہاں تک ہے۔ جہاں میرے جیسے کوتاہ بینوں کا پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن یے۔ وہ پس دیوار دیکھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ اور یوں وہ ہر معاملے کے پیچھے چھپی سازش کو بھانپ جاتے ہیں۔

مثلاً جب ملالہ کو گولی لگی۔ تو ہم جیسے کم علم یہی سمجھتے رہے کہ اسے طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پہ قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عقاب تو پھر عقاب ہوتا ہے۔ اس کی پرواز بھی اونچی ہوتی ہے۔ وہ دور تک دیکھ سکتا ہے۔ ہمارے اونچی اڑان والے ان عقابوں کو نظر آ گیا۔ کہ ملالہ کو گولی تو لگی ہی نہیں۔ یہ سب ڈرامہ تھا۔ اور اس ڈرامے میں بزعم خویش گولی چلانے والے، ملالہ کو ہسپتال لے جانے والے، اس کا علاج کرنے والے، پھر اسے برطانیہ لے جانے والے وہاں اس کا علاج کرنے والے سب کے سب شامل ہیں۔

جب وہ بہتر ہوئی۔ تو لوگ جوق در جوق اس سازش میں شامل ہوتے گئے۔ ایجنٹ تو وہ ان کی پہلے ہی تھی۔ جبھی تو وہ اس ڈرامے کا حصہ بنی۔ اب پاکستان کے ان دشمنوں نے اسے انعامات پہ انعامات دینے شروع کر دیے۔ تاکہ وہ مقبول ہو جائے اور کل کلاں پاکستان کی سربراہ بنے۔ اور پاکستان جیسی ایک سپر پاور ان کے زیر نگیں آ جائے۔ حتی ’کہ اقوام متحدہ اور نوبل امن کمیٹی بھی اس سازش میں شریک ہوگئے۔ کیونکہ پاکستان کی ترقی ان ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اور یہ چاھتے ہیں۔ کہ اسلام، امن اور ترقی کا یہ گہوارہ ان کے زیر نگین رہے۔ سوچتا ہوں۔ اگر عقابی نگاہ والے میرے یہ دوست نہ ہوتے تو وطن عزیز کے خلاف یہ اتنی بڑی سازش کیسے آشکار ہوتی۔

اسلام اور پاکستان کے ان سپوتوں کا ایک اور کارنامہ مشعال خان کے قتل کے محرکات کا کھوج لگانا تھا۔ ہمارے جیسے محدود سوچ والے لوگ یہ سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ وہ بے گناہ تھا۔ لیکن عقابی نگاہوں کا کوئی ثانی نہیں۔ لہذا یہاں بھی ہمارے ان کرمفرماؤں نے رہنمائی فرمائی۔ اور ہمیں یہ بتایا کہ وہ تو تھا ہی ملحد اور کمیونسٹ۔ اور اس نے توہین مذہب بھی کی تھی۔ اس لیے وہ تو واجب القتل تھا۔ لیکن جاہل وکیل اور کوڑھ مغز جج اس کا مقدمہ بھی لڑتے رہے۔ اور جن مجاہدین نے اس کی جان لی تھی۔ انھیں سزائیں بھی سنائیں۔ انھیں کسی نے بتایا نہیں کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں جھوٹ نہیں چلتا۔

شریف خاندان نے بھی جھوٹ گھڑا۔ بیگم کلثوم کی بیماری کا ڈرامہ کیا۔ یہ دورغ گو خاندان کہتا تھا۔ کہ بیگم کلثوم کو کینسر ہے۔ پھر وہ جب فوت ہوگئیں تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاش کو وینٹی لیٹر پہ ڈال دیا۔ اور نواز شریف نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ کہ بیگم بیمار ہے اس لیے نہیں آ سکتا۔ تاکہ مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شریف خاندان اخبارات میں بیگم کلثوم کی جعلی تصاویر شائع کرتا رہا۔ تاکہ انھیں بیمار اور نواز شریف کو مظلوم ثابت کیا جا سکے۔

جھوٹے کہیں کے۔ وہ تو بھلا ہو پاکستان کے ان سپوتوں کا کہ انھوں یہ سازش بے نقاب کی۔ ورنہ ہم لوگ تو شریف خاندان کو مظلوم ہی سمجھتے رہتے۔ ان ہی کے دباؤ کا نتیجہ تھا۔ کہ نواز شریف کو بادل نخواستہ پاکستان آنا پڑا۔ اور وہ جیل بھیج دیا گیا۔ باقی خاندان نے جب دیکھا کہ پاکستان کے ان بے لوث سپاہیوں نے ان کی سازش آشکار کر دی ہے۔ اور ان کا کھیل بگڑ چکا ہے تو انھوں نے بیگم کلثوم کی موت کا اعلان کر دیا۔ اور ان کی تدفین کر دی گئی۔

وطن کے ان گمنام سپاہیوں کو میرا سلام۔ جو غدار اور مودی کے یار شریف خاندان کی ملک دشمن سازش کو مسلسل بے نقاب کرتے رہے۔ ملک کی خدمت کا جذبہ ہو تو دفاع کے لیے توپوں اور بندوقوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ کام قلم اور کی بورڈ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ زبان بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ بس جنون ہونا چاھیئے۔ کیونکہ عقل تو محو تماشا لب بام رہتی ہے اسے ایسے حساس معاملات میں شامل نہیں کرنا چاھیئے۔ ایسے کام عشق سے ہوتے ہیں۔ جو دفاع وطن کی آگ میں بے خطر کود پڑتا ہے۔

گزشتہ کچھ روز سے مادر وطن کے یہ سپوت ایک دفعہ پھر ارض پاک کے دفاع کے مقدس مشن پہ نکلے ہیں۔ کیونکہ مملکت خداد پہ ایک دفعہ پھر سازشی لوگ حملہ آور ہو چکے ہیں۔ ان مٹھی بھر مجاہدین کو نہ مال غنیمت کا لالچ یے نہ کوئی کشور کشائی ان کا مطمح نظر۔ یہ صرف اور صرف دفاع وطن کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ملک دشمنوں نے ایک خبر مشہور کر دی ہے۔ کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پہ ایک خاتون پہ اس کے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کی گئی ہے۔

اور مجرموں نے خاتون کو زدوکوب کیا۔ کچھ نقدی اور زیورات لے کر بھی فرار ہو گئے۔ واردات کا یہ جھوٹ گھڑنے والے بھی کمال کے لوگ ہیں۔ انھیں یہ علم ہی نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ سارا واقعہ ہی مشکوک ہے۔ یہ نون لیگ کا کیا دھرا لگتا ہے۔ انھوں نے ہی عورت کو کہا ہوگا کہ رات کو باہر نکلو۔ پھر پولیس کو فون کرنے کا ڈرامہ کرو۔ پھر ریپ کی کہانی بیان کرو۔ تاکہ پنجاب پولیس کے فرض شناس، ایماندار اور محنتی افسر سے ایک بیان د لوایا جا سکے۔

اور پھر اس خو ساختہ واقعے اور پولیس افسر کے بیان کی آڑ لے کر پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو بدنام کیا جا سکے۔ اگر یہ واقعہ سچا ہوتا تو وہ خاتون ٹی وی پہ آتی۔ روتی پیٹتی۔ لوگوں کے سامنے واویلا کرتی۔ اپنا تشدد زدہ جسم دکھاتی۔ تو پتہ چلتا کہ واقعہ سچا ہے۔ لیکن نہ خاتون کا کہیں نام ونشان ہے۔ نہ کسی نے اس کی شکل دیکھی یے۔ پولیس افسران اور حکومتی ارکان بھی نون لیگ کی سازش کا شکار ہو گئے ہیں۔ مذمتیں کر رہے ہیں۔ تحقیقات کر رہے ہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ یہ سب فضول میں ہو رہا ہے۔ جبکہ واقعہ تو ہوا ہی نہیں۔ یہ ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ اور فرض کریں ایسا واقعہ ہوا بھی ہے تو کیا باقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا؟ پاکستان میں ہو گیا تو کون سی قیامت آ گئی ہے؟ پھر اگر یہ بات سچ ہے تو وہ خاتون گھر سے اتنی رات گئے کھر سے کیوں نکلی تھی؟ بچوں کو ساتھ کیوں رکھا تھا؟ پٹرول چیک کیوں نہیں کیا تھا؟ غلطی اس کی اپنی یے۔ اب بھگتے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ یہ بھی فرانس ہے۔ اسے غلط فہمی تھی۔ کہ یہ ملک بھی محفوظ ہو گا۔ کیونکہ وہ ہر روز ریاست مدینہ کا ذکر سنتی تھی۔ اب اگر اسے یہ سب خوش فہمیاں تھیں تو یہ اس کا قصور ہے۔ جب آپ ان خوش فہمیوں کا شکار سڑکوں پہ نکلو گی تو پھر یہی ہو گا۔

اگر ہمارے یہ عظیم سپوت نہ ہوتے تو ہمیں اس واقعے کے بارے میں ان باتوں کا کیسے پتہ چلتا۔ ہم تو عورت کو ہی مظلوم سمجھتے رہتے۔ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ یہ سب وطن عزیز اور صادق اور امین حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے ان مجاہدین وطن کو سلام کرتا ہوں۔ میرے اگر دس ہاتھ بھی ہوتے تو میں انھیں سارے ہاتھوں سے سلام کر کے دست بستہ پوچھتا:

بھائی یہ سب کیسے کر لیتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).