خرابی کا ذمہ دار کون۔ سیاست دان یا بیوروکریسی


نئے پاکستان کی اصلاح کا اگر بغورجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی نئی اصلاح نہیں ہے۔ یہ بھی سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کا تسلسل ہی ہے۔ تھوڑا سا ماضی کی طرف جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب حکومت سنبھالی تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو بگڑا ہواپایا اور ہر محب وطن فوجی آمر کی طرح انہوں نے اس بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان اپنے آپ کو ایک انقلابی ریفارمر سمجھتے تھے لیکن درحقیقت ان کی طبیعت کی افتاد انقلاب پسند تھی، نہ انقلاب انگیز تھی۔ ا ن کے کردار میں میانہ روی، اعتدال پسندی، مصلحت اندیشی اور عافیت طلبی کے عناصر اس قدر غالب تھے کہ کسی شعبے میں بھی انقلاب کا کوئی تقاضا پورا کرنا ان کے بس کا روگ نا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحات کے نام پروہ معمولی سی چھان پھٹک اورجھاڑ پونچھ کے علاوہ کوئی دور رس کارنامہ سرانجام نا دے سکے۔

قدرت اللہ شہاب بیوروکریسی کے کردار پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصلاحات کی ناکامی ہو یا کوئی دوسرا منصوبہ ٹوٹ پھوٹ کر بگڑ جائے، اس کی ذمہ داری ہمیشہ بیوروکریسی ہی کے سر تھوپی جاتی ہے۔ سیاست دان اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں او رمحرومیوں کا الزام بیورو کریسی پر ہی لگاتے ہیں۔ مارشل لا نازل ہوتو سارے بگاڑ کی وجہ بیوروکریسی کو ہی گردانا جاتا ہے۔ کبھی نوکر شاہی کی تطہیر کے لیے سکریننگ کا عمل ظہور میں آتا ہے۔ کبھی تھوک کے بھاؤ ہزاروں ملازم بغیر کسی انکوائری کے برطرف کردیے جاتے ہیں۔ کبھی بیوروکریسی کو راہ راست پر لانے والے افراد چھوٹے بڑے سرکاری ملازموں کی پتلونیں اتار کرانہیں درختوں پر سرکے ٹانگ دینے کی دھمکیاں سناتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ہر بار نئے حکمران اپنے آپ کو اللہ کے مقرب فرشتے سمجھتے ہیں اور نوکر شاہی کے ہر فرد کو ابلیس کا ساتھی قرار دیا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں لکھی گئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ایوبی عہد میں بیوروکریسی اور حکمرانوں کے مابین کردار کو تحریر لکھتے ہوئے مزید لکھا کہ یہ سارے ہتھکنڈے سرکاری ملازمین پر خوف وہ ہراس اس کی دھونس جمانے اور عوام کو اپنی برتری کا رعب گانٹھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں، ہرملک کی بیوروکریسی مملکت کا نظم ونسق چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بیوروکریسی کبھی سول حکومت کی ہوتی ہے، کبھی فوج کی، کبھی سیاسی جماعتوں کی، کبھی کسی مخلوط محاز کی، لیکن ہر صورت میں بیوروکرسی سے کوئی نظام سلطنت راہ فرار اختیار کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ بیوروکریسی کا نعم البدل بھی بیوروکریسی ہی ہے۔

جمہوری نظام ہو یا آمریت کا دور دورہ بیوروکریسی دونوں کے حق میں یکساں وفاداری سے کام کرتی ہے۔ یہی اس کا بنیادی فرض اور عملی تربیت کا ثمرہ ہے۔ نوکر شاہی کے فرائض میں حکومتوں یا نظام حکومت کو ادلنا بدلنا شامل نہیں ہے، بلکہ ان کی نافذ کی ہوئی پالیسیوں پر حتی الوسع دیانتداری سے عمل درآمد کرنا ہے۔ حکومت یا نظام کو بدلنا سیاست دانوں کا حق ہے۔ اگر سیاست دان اپنی بدنظمی یا بے ضابطگی یا انتشار کی وجہ سے یہ حق استعمال کرنے سے قاصر رہیں تو مسلح افواج خودبخود میدان میں اتر آتی ہیں۔ حکومت یا نظام حکومت بدلنے کے اس عمل کو عام طور پر انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سراسر غلط ہی نہیں بلکہ لفظ انقلاب کی توہین بھی ہے۔ کیونکہ انقلاب ہمیشہ عوام الناس ہی لاتے ہیں۔

یہ تو تھا ایوبی عہد کا پس منظر جس میں نظام حکومت اور بیوروکریسی کے متعلق مطلق العنان حاکم کے خیالات اوران کے نزدیک اس بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کا احوال۔ موجودہ تبدیلی سرکار نے بھی اپوزیشن میں کنٹینر پر جو اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اس میں مبینہ طور پر سیاست دانوں کی کرپشن کے علاوہ بے لگام اور کرپٹ بیوروکریسی کی اصلاح کے نکات بہت واضح تھے۔ ایک پرانا ایجنڈا ایک نئے آدمی کے ذریعے پیش کیا گیا۔

پرانے پاکستان کے کرپٹ نظام حکومت کی جگہ نئے پاکستان میں انصاف کے نظام کی نوید سنائی گئی۔ بالاخر وہ انقلاب آ گیا جس کے متعلق پیش گوئیاں کی جارہی تھیں۔ جو مبینہ طور پر کرپٹ تھے وہ پابند سلاسل ہوگئے اور نئے پاکستان کی تعمیرشروع ہوگئی۔ پھر اچانک پتہ چلا کہ ملک میں مافیاز معاملات کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف بھی لڑنا ہوگا۔ بیوروکریسی ڈر اور خوف سے سہم کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ امورمملکت عملی طور پر رک گئے اور ترقی کا عمل محض سوشل میڈیا پر جاری رہا اور پہلے چھ ماہ تو بہت زور شور سے جاری رہا۔

قدرت اللہ شہاب نے کہا تھا کہ بیوروکریسی کا نعم البدل بھی بیوروکریسی ہوتی ہے۔ اور اقتدار کے دوسرے سال میں بات گھوم پھر کر اسی بیوروکریسی پر آ گئی جس کی اصلاح کے وعدے اور دعوے کیے گئے تھے۔ بے لگام اور کرپٹ بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کا کہہ کراسی بیوروکریسی سے کام کی امید لگانے والوں کا کیا کہا جائے کہ پہلے غلط بول رہے تھے یا اب غلطی کر رہے ہیں۔ دوسال قبل بری کہلائی جانے والی بیوروکریسی اب ٹھیک کیسے ہوگئی۔

کیوں اس بات کی امید لگائی جارہی ہے کہ بیوروکریسی ویژن سے محروم حکمرانوں کی کوتاہیوں، نالائقیوں اور نا اہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دن رات کام کرئے گی۔ سوال تو بنتا ہے کہ اگر ماضی میں سب کچھ غلط تھا تو دوسال گزرنے کے بعد بھی امورمملکت چل کیوں نہیں رہے۔ کون سی رکاوٹ نئے پاکستان کے عظیم ویژن کی تکمیل کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ کہیں مسائل کی نشاندہی میں غلطی تو نہیں ہوگئی۔ ممکن ہے غلطی بیوروکریسی میں ناہو بلکہ اس سوچ میں ہو جس کے تحت بیوروکریسی کو چلایا جاتا ہے۔ رہی بات انقلاب کی تو شہاب نامہ کے مطابق حقیقی انقلاب وہ ہوتا ہے جو عوام الناس لے کر آئے۔ 2018 کے سوشل میڈیا کے انقلاب کے زیر بننے والے نئے پاکستان کے متعلق سوچنا ہوگا کہ یہ انقلاب کی کون سی قسم ہے جس کے ثمرات تاحال عوام کو نہیں مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).