ماموں کی قومی خدمات


تئیس مارچ انیس سو چالیس کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی پچیس اپریل کو غیر منقسم خطے کے بلند شہر میں ہمارے ماموں کی پیدائش ہوئی۔ خطے کے ہر بچے کے طرح ماموں کلمہ اور اشلوک ساتھ پڑھتے ہوئے پیدا ہوئے، دائی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک مسلمان گھرانے میں قدم رنجہ فرمایا ہے تو ماموں نے کلمہ پڑھتے ہوئے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنی والدہ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔

نانی اتنا سعادت مند بیٹا پا کر خوشی سے نہال ہو گئیں اور دائی کو سونے کی آدھا درجن چوڑیاں عطا کیں، نانا گورے کی فوج میں ملازم تھے، انہوں نے خوشی میں انگریزی بندوق سے گولیاں داغیں، جن کی آواز سے بلند شہر گونج اٹھا۔ نانا نے ماموں کو بلند بخت کا اسم گرامی عطا کیا جو ماموں نے کورنش بجا کر قبول کیا۔

ماموں نے خطے کے ہر عام بچے کی طرح بچپن میں ہی مقدس کتب حفظ کر لیں جب پاکستان بننے کا غلغلہ اٹھا تو وہ بھی بلند شہر کی گلیوں میں ”بٹ کر رہے گا ہندوستان، لے کر رہیں گے پاکستان“ کا ترانہ گاتے ہوئے دوسرے بچوں کے ساتھ گھومنے لگے۔

نانا نے انہیں ڈانٹا، برخوردار ہم انگریز کی فوج میں ملازم ہیں، ہم ہرگز بٹوارے کے عمل میں حصہ نہیں لے سکتے، ورنہ غدار کہلائے جائیں گے۔ لیکن ماموں نے انہیں بصد احترام سمجھایا، ابا حضور پاکستان کا قیام ضروری ہے تا کہ آپ جیسے باوقار حضرات اپنی وفادار فوج تشکیل دے سکیں۔

نانا نے کچھ دن سوچا لیکن یہ تجویز ان کے دل کو نہ بھائی، انہوں نے ماموں سے کہا کہ دیکھو انگریز سے بغاوت کسی صورت جائز نہیں ہے وہ مرزا ہادی رسوا جیسے قابل افراد کے مشورے سے پورے خطے میں ریلوے لائنوں کا جال بچھا چکے ہیں اور جلد ہی ایک بڑی ریلوے لائن کوئٹہ سے کابل تک جائے گی، قندھار جنکشن بنے گا اور وہاں سے آگے استنبول تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے، سوچو ہم چھکا چھک ریل گاڑی میں بیٹھ کر کابل کے چلغوزے، قندھار کے انار کھاتے ہوئے استنبول جائیں گے، وہاں کی سیر کریں گے، باسفورس کے کنارے چہل قدمی کریں گے، خوبصورت ترک خواتین کو دیکھیں گے، بہادر ترک مردوں سے ملیں گے۔ ماموں نے نانا کا یہ خواب یکسر مسترد کر دیا، فرمایا ابا حضور آخر آپ کب تک ایرانیوں۔ عربوں۔ ترکوں۔ افغانوں اور انگریزوں کے غلام رہیں گے، اللہ سبحانہ تعالی نے ہم کو سنہری موقع عطا کیا ہے کہ ہم ایک الگ ملک بنا کر ان سب کو اپنا غلام بنا سکیں اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کریں۔

نانا کافی دن سوچ بچار کرنے کے بعد بالآخر راضی ہو گئے اور اپنے بہت سارے فوجی ساتھیوں کو ساتھ ملا کر انگریز سے بغاوت کردی، ہر شہر سے غدار اور باغی اٹھ کھڑے ہوئے اور مشرک انگریز کو پاکستان کے قیام کی اجازت دینی پڑی۔

بد قسمتی سے بلند شہر ہندوستان کے حصے میں آ گیا، نانا نانی اور ماموں نے بلند شہر سے ہجرت کی اور لاہور آ گئے لیکن ماموں کو لاہور شہر کی فضا کچھ خاص نہ بھائی، کھانے بھی پسند نہ آئے، غضب خدا کا نہاری سمیت ہر پکوان میں چنے، واللہ انسان ہیں یا گھوڑے جو ہر وقت چنے چبانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے نانا سے شکایت کی، نانا نے ہنکارا بھرا، اور کہا، اب تو یہیں رہنا ہو گا میاں کیونکہ پوسٹنگ ہی یہاں ہوئی ہے۔ تم کہو تو تم کو کراچی بھجوا دوں؟

لیکن ماموں نے کہا وہاں تو سنا ہے بہت بڑا سمندر ہے اور ہم کو تیرنا نہیں آتا، نانا نے تجویز پیش کی، تیراکی سیکھ لینا، ماموں نے یہ تجویز رد کرتے ہوئے فرمایا نہیں سمندر تو زمین پر ہوتا ہے جب کہ ہم تو بلند شہر کے شاہین ہیں، ہمارا کام آسمانوں میں پرواز کرنا ہے اور پہاڑوں پر بسیرا کرنا ہے۔ نانا نے کہا، تو میاں پھر یہیں رہو اور صبر کرو، ماموں نے صبر کر لیا کہ صبر کا اجر ہے لیکن صبر نانی اماں کو راس نہ آیا، وہ بلند شہر اور اپنوں سے جدائی کے غم میں بیمار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملیں۔ نانا اور ماموں باعث صدمہ مہینوں بولائے بولائے پھرے۔

ماموں نے تنہائی سے گھبرا کر ایک دن نانا سے کہا، عقد ثانی کر لیجیے کہ دستور زمانہ ہے ابھی تو آپ جوان جہان ہیں۔ نانا نے بہتیرا سمجھایا کہ میرا دل نہیں مانتا، لیکن ماموں نے ان کو یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ دیکھیں یہاں ہر گھر میں درجن بھر بچے پائے جاتے ہیں ایک میں اکیلا گھومتا ہوں، بہن بھائیوں کی لڑائیوں اور شوخیوں کو ترستا ہوں، نانا نے ہار مان لی اور ایک طرح دار خاتون سے نکاح کر لیا جو گھر کے باورچی خانے میں کانٹی نینٹل پکوان بنا کر دونوں باپ بیٹے کے دل میں معدے کے راستے اتر گئیں۔ کچھ ہی عرصے میں ماموں کے سوتیلے جڑواں بھائی پیدا ہو گئے، جن کو دیکھ کر ماموں خوشی سے پھولے نہ سمائے، ان کے کانوں میں اذان دی اور پورے لاہور میں لڈو بانٹے۔

جڑواں بھائیوں کی پیدائش کی خوشی کے ساتھ ساتھ یہ خبر ملی کہ نانا کی پوسٹنگ پشاور شہر ہو گئی ہے۔ ماموں نے سوچا نہ جانے وہ شہر کیسا ہو گا، اتنی مشکل سے یہاں دل لگایا تھا، لیکن جانا تو تھا، سامان فوجی ٹرک میں بھر وہ پشاور پہنچ گئے۔

چند دن کے بعد ہی ماموں کو یہ شہر بہت بھا گیا، صاف ستھرا، پھولوں سے لدا، ہرے بھرے میدان، خوشبودار فضا اور صحت بخش پانی۔ قصہ خوانی بازار کے قصے، صدر کے دنبے کے تکے اور چپلی کباب کے وہ رسیا ہو گئے۔

اسکول میں پشتو بولتے گورے چٹے بچے، استاد اور استانیاں۔ ماموں نے پشتو سیکھ لی اور بھائیوں کو بھی سکھانی شروع کر دی۔ نانا نے ڈانٹا ارے میاں اپنی زبان بھول جاؤ گے، تو عقل مند ماموں نے کہا کہ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی فرد اپنی زبان بھول جائے، میں اور میرے بھائی خطے کی ہر زبان سیکھیں گے اور راج کریں گے۔ کالج کے بعد ماموں بھی فوج میں بھرتی ہو گئے اور بڑے کارنامے انجام دیے، فوج کی مادری زبان بنائی۔

اپنے گھر میں خفیہ ملاقات رکھی اور اس میں طے کیا کہ ملک کو ایٹمی قوت بنایا جائے۔ جان توڑ محنت اور لگن سے ایٹم بم بنوایا اور دھماکہ کر کے بت پرست پڑوسی دشمن کے دل کو دہلایا۔ نانا بہت خوش ہوئے کیونکہ ماموں نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا، عرب۔ ایرانی ترکی، افغانی سب ماموں کی فوج کے غلام ہو گئے اور ایٹمی قوت بننے کے لئے مدد مانگنے لگے۔

ماموں نے بھی دل کھول کر سب کی مدد کی اور سب بھائی ممالک سے معاوضہ لے کر ملک میں ڈی ایچ اے ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور غریبوں کو پچاس لاکھ گھر عطا کیے۔ اپنے جڑواں بھائیوں کو بھی فوج میں بھرتی کرایا اور ملک و ملت کی خدمت کرنے میں مصروف عمل ہو گئے۔ ملک بھر میں ماموں کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ سب ہی ماموں سے والہانہ عقیدت رکھنے لگے اور باوقار طرز محبت کی بنیاد پڑ گئی۔

ماموں نے حکومتی امور پر توجہ دینی بھی شروع کر دی۔ رعایا کو عدل و انصاف فراہم کرنے کے لئے بڑی بڑی گاڑیاں مہیا کیں، جہاں بھی کوئی مظلوم نظر آتا اس کو ان گاڑیوں میں بٹھا کر پرسکون و پر فضا مقامات پر لے جایا جاتا جہاں وہ امن و امان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگتے۔

ماموں کو اپنی بے پناہ ذہانت سے اندازہ ہوا کہ مملکت جہاں داد میں حمار بہ کثرت پائے جاتے ہیں اسی لئے انہوں نے حمار فارم ہاؤس کی داغ بیل ڈالی اور سینکڑوں حماروں کی تربیت شروع کی اور دنیا بھر میں اپنے حمار فارم ہاؤس سے گوشت و کھالیں بھیجنے لگے، خاص طور پر پڑوسی ملک شکرستان کے عوام کو پاکستانی حماروں کا گوشت و کھال بہت پسند آیا اس لیے وہاں سب سے زیادہ کھپت شروع کر دی گئی۔

ماموں اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن حمار فارم ہاؤس کا کاروبار جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ اس کاروبار سے پوری قوم کو بہت فائدہ ہوا ہے، قوم کو سمجھ آ گئی ہے کہ حمار بھی کام کی مخلوق ہے، بے شک دنیا کے کارخانے میں کوئی بھی شے ناکارہ نہیں ہے۔

کل ہم نے ماموں کی خیریت پوچھنے کے لئے کال کی تو انہوں نے کہا نیا کاروبار شروع کرنے لگا ہوں، ہم نے پوچھا اب کون سا کاروبار کریں گے؟ بتایا آج کل ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے اس لیے لوگوں کی گفتگو و ملاقاتیں بڑے پیمانے پر محفوظ و ریکارڈ رکھنے کا منصوبہ ہے۔

ہم نے پوچھا اس کاروبار سے کیا فائدہ ہو گا تو انہوں نے کہا یہ ابھی حساس اور خفیہ منصوبہ ہے جب مکمل ہو جائے گا تب تم کو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔
ہم نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).