حمایت علی شاعر: سماجی شعور اور عوام دوستی


نوٹ: یہ مقالہ 20 ستمبر 2020 کوکاروان فکر و فن شمالی امریکہ کے زیر اہتمام زوم انٹرنیٹ پر منعقد ہونے والے ایک بین الاقومی سیمینار۔۔۔ یاد رفتگاں۔۔۔ بنام حمایت علی شاعر۔۔۔ میں پڑھا گیا۔

٭٭٭            ٭٭٭

ہم سب جانتے ہیں کہ ہر شاعر دانشور نہیں ہوتا اور ہر دانشور شاعر نہیں ہوتا لیکن حمایت علی ان معدودے لکھاریوں میں سے ایک تھے جو شاعر بھی تھے اور دانشور بھی۔

حمایت علی شاعر کو مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر دیکھنے والے بہت سے ایسے پرستار اور مداح بھی ہوں گے جو یہ نہیں جانتے کہ حمایت علی شاعر کو اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں بہت سی معاشی، خاندانی مشکلات اور سماجی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ نوجوانی میں ایک شدید نفسیاتی بحران سے گزرے۔ اس بحران کے دوران وہ ایک بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے اور اداسی اور مایوسی کی اس حد تک پہنچ گئے جو خود کشی کی سرحد سے جا ملتی ہے۔ اس بحران کا اعتراف انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے۔۔۔ آگ میں پھول۔۔۔ جو ان کی 1947 سے 1956 کی تخلیقات پر مشتمل ہے، کے دیباچے میں ان الفاظ میں کیا ہے۔

’۔۔۔ عرصہ دراز تک مجھے اس دنیا سے نفرت رہی ہمارے طبقاتی نظام نے اس نفرت کو اور ہوا دی اور کیا عجب تھا کہ میں‘ خود کشی’ کر لیتا‘ ۔

ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت سے ادیب ’شاعر اور دانشور ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی اداسی اور مایوسی سے مجبور ہو کر سلویا پلاتھ‘ ارنسٹ ہیمنگوے اور ورجینیا وولف کی طرح خود کشی کر لی۔ یہ حمایت علی شاعر اور ہم سب کی خوش قسمتی کہ وہ یاس کی اتھاہ گہرائی سے آس کی بلندی کی طرف لوٹ آئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ واپسی کیسے ممکن ہوئی۔ وہ رقم طراز ہیں

’ ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے چاقو چھین لیا اور ایک کتاب تھما دی۔۔۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کتاب کالج میں مجھے کبھی نہیں پڑھائی گئی تھی) اس گمنام شخص کا نام ہے۔۔۔ کامریڈ افتخار۔۔۔‘

کامریڈ افتخار کا نام لے کر حمایت علی شاعر نے ہمیں بتایا ہے کہ افتخار صرف ایک دوست ہی نہیں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ایک مخلص دوست تھے اور کتاب کہہ کر اس انقلابی دانشور کی طرف اشارہ کیا جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں

؎ نیست پیغمبر ولے او در بغل دارد کتاب

ترقی پسند فکر اور ادب سے جڑنے کے بعد حمایت علی شاعر کی سوچ نے وہ رخ اختیار کیا جو فرد کو سماج سے ملا کر دیکھتی ہے۔ لکھتے ہیں

’مجھے احساس ہوا کہ انسان فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک‘ اجتماع ’بھی ہے اور انسان کے ارتقا کی انتہائی منزل اپنی ذات میں ضم ہونا نہیں ایک ‘اجتماعی انسان’ ہو جانا ہے۔

یہی وہ سوچ ہے جس نے فیض احمد فیض سے، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، جیسی نظم لکھوائی تھی۔

ترقی پسند فلسفے کو اپنانے کے بعد حمایت علی شاعر کی بصارت کو بصیرت مل گئی۔ وہ روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی کا سفر کرنے نکل پڑے۔ لکھتے ہیں

’میں نے اپنے آبائی شہر اورنگ آباد میں زندگی کی پہلی سانس لی تھی۔ اس گھر کے بارے میں مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ کچی مٹی کا ایک مکان تھا۔۔۔ لیکن اگر مجھے اس کچی مٹی کے گھر پر ناز ہے تو اس لیے کہ اس کی وساطت سے مجھے اپنے ملک کے ننانوے فی صد انسانوں کی زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ان کے تہذہبی پس منظر اور ان کی ذہنی تربیت کے مختلف خم و پیچ کو پرکھنے والی نگاہ عطا ہوئی‘

حمایت علی شاعر کے اس تعارف میں کچی مٹی۔۔۔ ایک حقیقت بھی ہے۔۔۔ ایک استعارہ بھی۔۔۔ انہوں نے کچی مٹی کی وساطت سے غریب عوام کے ساتھ۔ ایک شعوری رشتہ قائم کیا۔ یہ رشتہ کافی پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ یہ رشتہ جذباتی بھی ہے ذہنی بھی ’سیاسی بھی ہے ادبی بھی۔ یہ ‘میں’ سے ‘ہم’ کا سفر ہے۔

حمایت علی شاعر نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا اور ظالم و مظلوم ’جابر و مجبور کے رشتے کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھا اور لکھا

’۔۔۔ فکری تسلسل اپنے جدلیاتی عمل سے گزر کر آج فرد کو اس کے طبقاتی کردار کا شعور دیتے ہوئے اسے ایک۔۔۔ اجتماعی انسان۔۔۔ کا تصور دے رہا ہے‘

فکری تسلسل اور جدلیاتی عمل لکھ کر حمایت علی شاعر نے ہماری توجہ ہیگل کے فلسفے THESIS۔۔۔ ANTI۔ THESIS۔۔۔ SYNTHESISاور مارکس کے نظریے DIALECTICAL MATERIALISM کی طرف مبزول کروائی ہے۔

حمایت علی شاعر اپنے تخلیقی اور نظریاتی سفر میں انسانی شعور کے ارتقا کے اس مقام پر پہنچے جہاں انفرادی شعور سماجی شعور سے بغل گیر ہوجاتا ہے اور ایک شاعر دانشور بن جاتا ہے۔

حمایت علی شاعر کی پوری کوشش رہی کہ وہ شاعر ہونے کے ناتے فن کی نزاکتوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے داخلی غم کو خارجی غم سے جوڑ کر پیش کریں۔ لکھتے ہیں

’میں نے کوشش کی ہے کہ میرا ذاتی غم۔۔۔ میرا‘ نجی غم ’بن کر نہ رہ جائے بلکہ سماجی زندگی کے رشتے سے یہ موضوع غم مشترک کی حیثیت اختیار کر جائے۔‘

’غم مشترک‘ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ اس غم میں دیگر انسانوں سے ہمدردی بھی شامل ہے ہم احساسی بھی۔
جب کسی انسان میں یہ سماجی اور اجتماعی شعور پیدا ہو جاتا ہے تو وہ
انسان ساری انسانیت کے ساتھ ایسے جڑ جاتا ہے جیسے
ایک قطرہ سمندر سے ’
ایک پھول گلستاں سے ’
ایک ریت کا ذرہ ریگستاں سے
اور ایک تارہ کہکشاں سے

جڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد ساری انسانیت کے دکھ سکھ سانجھے ہو جاتے ہیں اور وہ شاعر ادیب اور دانشور انسانی شعور کے ارتقا کا حصہ بن کر امن ’آشتی اور سکون کا استعارہ بن جاتا ہے

دانائی کے اس موڑ اور اس سفر میں شاعر زندگی کی مشکلات میں مایوسی کی بجائے امید کا پیامبر بن جا تا ہے اور لکھتا ہے

شاید آ جائے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا
میں نے اس آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے

حمایت علی شاعر کا سماجی شعور انہیں مجبور و مظلوم عوام سے جوڑتا ہے جو قابل صد احترام ہیں۔ وہ اپنی یک مصرعی نظم میں لکھتے ہیں

عوام۔۔۔

رات سورج کو نگل سکتی ہے تاروں کو نہیں
حمایت علی شاعر جانتے تھے کہ سماجی تبدیلی اس وقت تک کامیاب نہیں سمجھی جاتی جب تک عوام کو کھانے کے لیے روٹی، سر چھپانے کے لیے گھر، بچوں کے لیے تعلیم اور
بیمار رشتہ داروں کے لیے مفت علاج نہ ملے۔ وہ جانتے تھے کہ
a chain is as strong as the weakest link
) ایک زنجیر اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کہ اس کی سب سے کمزور کڑی۔ (

شاعر کو یہ شعور انسانی تاریخ کے مطالعے اور تجزیے سے ملتا ہے جس سے وہ جگنو سے ستارا بن جاتا ہے۔ وہ ۔۔۔مٹی کا قرض۔۔۔ میں لکھتے ہیں

’شاعر جب تک تاریخ کے شعور سے روشن نہ ہو اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنو کی طرح ہے۔ تاریخ کا شعور شاعر کو عہد شناس بناتا ہے اور معاشرے میں اقدار کے جدلیاتی عمل سے آگاہ رکھتا ہے۔‘

اسی لیے میری نگاہ میں حمایت علی شاعر بھی تھے اور دانشور بھی جن کے خوابوں اور آدرشوں میں امن آشتی اور انصاف آپس میں دوست بن گئے تھے۔ ۔ وہ عوام دوست انسان تھے۔

حمایت علی شاعر نے جب 2012 میں مجھے اپنی کلیات محبت اپنائیت اور شفقت سے یہ لکھ کر
’برادر عزیز ڈاکٹر خالد سہیل کے لیے۔۔۔
میری محبت کی سوغات
بہت سی خوبصورت یادوں کے ساتھ
حمایت علی شاعر
ٹورانٹو کینیڈا

تحفے کے طور پر عنایت فرمائی تو مجھے وہ نوے سالہ ہندوستانی بزرگ یاد آ گئے جو اپنے گھر کے صحن میں آم کا درخت لگا رہے تھے۔ جب ہمسایے نے پوچھا کہ یہ درخت جب تک پھل دے گا آپ شاید اس دنیا میں نہ رہیں تو وہ مسکرائے اور کہنے لگا ’یہ میرے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے ہے‘ ۔ شاید اسی لیے حمایت علی شاعر نے اپنی کلیات کا انتساب اپنے بچوں کے بچوں کے نام یہ شعر لکھ کر کیا ہے

مری متاع سخن ہے تمہارا سرمایہ
اسے سنبھال کے رکھنا متاع جاں کی طرح

یہ میری خوش بختی کہ مجھے زندگی کی چند شامیں حمایت علی شاعر کی قربت میں گزارنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میرا ان سے ایک خاص تعلق تھا کیونکہ ان سے مل کر مجھے اپنے شاعر چچا عارف عبدالمتین بہت یاد آتے تھے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail