خوشی کا قصور ہے۔ ۔ ۔


حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں

کہنے کو تو نوشہ میاں یہ شعر کہہ کر اپنی سخن وری پر مہر تصدیق ثبت کر گئے مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ بیت ان لوگوں کے لئے جنت کے پروانے کا درجہ رکھتی ہے جن کو مذہب اسلام وراثت میں ملی ہے مگر ان کے اعمال کسی بھی زاویے سے مومن کے نہیں لگتے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ لوگ اب گناہ کرنے سے مطلق نہیں گھبراتے کیونکہ مراد تو پوری ہوچکی ہے اب کیوں زاہد بنے پھریں۔ یہ بات کچھ بعید از قیاس نہیں کہ ان کی زندگی اب انہی کاموں میں گزرے گی جن کی طرف ان کو ان کا نفس لے جائے گا۔

یورپ کی کسی لیبارٹری میں منہمک سائنسدان کو اگر اس وقت کائنات میں موجودہ ستاروں اور سیاروں کی کھوج ستاتی ہے تو ہم لوگوں کو حوروں کی تعداد تنگ کرتی ہے۔ سائنس لگاتار انواع و اقسام کے بیماریوں کے لئے علاج ڈھونڈ نکالتی ہے اور ہم یہ کہہ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ جنت میں کوئی جسمانی مسائل موجود نہیں بس مزے ہی مزے ہیں۔ غرض یہ کہ ہماری ہر بات کلمے سے شروع اور حوروں پہ ختم ہوتی ہے اور ان کی ہر بات جن کا آشیانہ شاخ نازک پر ناپائیدار طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے ہر بات کھوج اور الجھن سے شروع ہوتی ہے اور دریافت پہ ختم۔ البتہ پولیو کے مفلوج مریض کو یہ دکھ ضرور ہے کہ اسے مردانہ کمزوری کے جراثیم والے قطرے کیوں پلائے نہیں گئے۔

مولانا مودودیؒ اپنے کتاب ”خطبات“ میں لکھتے ہیں کہ اگر مسلمان کوئی غلطی کرے تو اس کی سزا کافر کے نسبت زیادہ ہونی چاہیے جس نے یہی جرم کیا ہے۔ وجہ کچھ یوں ہے کہ مسلمان یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کون سے احکامات ملے ہیں یہ غلطی کرتا ہے جبکہ کافر کو ان چیزوں کا پتا نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عادات و خصال تو قرآن و حدیث کے زیر اثر مرنجان مرنج ہونا چاہیے مگر ہم نے جو لالچ پال رکھا ہے وہ شاید ہی کبھی کم ہو۔

حالیہ دور میں جو روح فرسا واقعات روز رونما ہوتے ہیں ان کو درج کرتے ہوئے فرشتے بھی آنسو بہاتے ہوں گے۔ اس ماں کو زندگی بھر چین کی نیند کیسے میسر ہوگی جس کی دس سالہ بچی زیادتی کے بعد دم توڑ گئی اور لاش کسی نالے میں پڑی ملی۔ وہ ماں اپنے اولاد کو اس ملک کے بارے میں کون سا تاثر دے پائے گی جو فرانس سے انہیں یہاں لائی تھی اور وہ خود موٹروے پر بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانی بن بیٹھی۔ سیانے پھر بھی کہتے ہیں کہ لوگ پاکستان چھوڑ کر باہر ملکوں کی شہریت کیوں مانگتے ہیں۔

اس سے قبل کہ ہمارا انجام بھی عاد و ثمود کی قوموں کی طرح ہو ہمارے لوگوں اور قانون کو بیدار ہونا ہوگا۔ جن ملکوں میں قانون کی بالادستی نہیں ہوتی وہاں مسندوں پہ درندے بیٹھ جاتے ہیں جن کو انسان انسان نظر نہیں آتا بلکہ جسم نظر آتا ہے، گوشت نظر آتا ہے۔ ترقی کی باتیں ہوتی رہیں گی مگر ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ آنے والی نسل اس قابل ہو کہ انہیں اس ملک سے وابستگی باعث شرمندگی نہ لگے۔

عارف حسین، چترال
Latest posts by عارف حسین، چترال (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).