عمر شیخ کہتے ہیں کہ نہ کوئی بزدار کو ہٹا سکتا ہے نہ مجھے


گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کے اندرونی حالات نے تین سو ساٹھ کے زاویے سے کروٹ لی ہے۔ سماجی، سیاسی اور معاشی حالات نے کھٹارا بس کی طرح چلتے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ نظام تو پہلے ہی قید تھا، لیکن قید کرنے والے پیٹھ کے پیچھے خاموشی سے چھرا گھونپتے تھے۔ لیکن اب ایسی تبدیلی آئی ہے کہ سب منٹوں میں منظر عام پر آ جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ گند اتنا جمع ہو چکا ہے کہ گٹر ابلنا شروع ہو گیا ہے جو بھی گزرے گا یقیناً گندا ہو کے رہے گا۔

جب سے موجودہ حکومت آئی ہے، صرف عوام کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ خان اعظم بہت ایماندار ہے۔ عوام چاہتی تھی کہ پنجاب کی بس کا ڈرائیور پروفیشنل ہو نہ کہ چنگ چی والا، زیادہ وقت کیا ضائع کرنا اس بحث میں۔ یہ شغل ایسا ہی لگا رہے گا، لیکن قائد کا دیس یتیم بچے کی طرح در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔

سانحہ موٹروے کے بعد سی سی پی او کے بیان پہ لوگوں نے تنقید کی بلکہ ان کی تنگ نظری کو خوب ذلیل کیا۔ حیرانی ہوتی ان لوگوں پہ، سی سی پی او نے غلط کیا کہہ دیا ہے؟ سچ ہی تو کہا اس نے، بھئی نہ نکلتی خاتون۔

سی سی پی او نے تو عوام کو آگاہ کیا تھا کہ یہاں سب اقتدار کے بھوکے ہیں۔ یہاں نعرہ ریاست مدینہ کا ہے اور بیچ چوراہے اس وطن کی بیٹیوں کو قبروں سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سی سی پی او نے تو اعتراف کیا تھا کہ پارٹی نہیں چلے گی۔ یہاں ہر ستائیس گھنٹے کے بعد ایک ریپ کا واقع سامنے آتا ہے۔ اس لیے آپ لوگ خود محفوظ رہیں۔

میرے ذرائع کے مطابق سی سی پی او لاہور  نے سب انسپکٹرز کی میٹنگ میں کہا کہ ”اگر بزدار سی ایم لگ سکدا اے تو عمر شیخ سی سی پی او لاہور کیوں نہیں، مزید کہا جیوے انو کوئی نہیں ہلا سکدا ایس طرح مینوں وی کوئی نہیں ہٹا سکدا“ (اگر بزدار سی ایم لگ سکتا ہے تو عمر شیخ سی سی پی او لاہور کیوں نہیں۔ جس طرح اسے کوئی نہیں ہلا سکتا اسی طرح مجھے بھی کوئی نہیں ہٹا سکتا) ۔

لوگوں کی تنقید یقیناً جائز ہوتی اگر سی سی پی او اور ہائی کمان میرٹ پہ ہوتے اور وفاقی وزرا اور صوبائی چہیتوں کا مقصد عوامی خدمت کرنا ہوتا نہ کہ شوگر مافیا کی سربراہی کرنا۔

معاشرے کو سب لٹیروں سے خود بچنا ہوگا۔
”اپنے سامان کی حفاظت خود کرنا ہوگی“

حالیہ ملکی سیاسی حالات کے بعد ریاستی اداروں کا کیا وقار رہا ہے؟ ایک طبقہ تو پہلے ہی جانتا تھا کہ پاور آف سنٹر پنڈی ہے ناکہ اسلام آباد۔ لیکن، حالیہ ملاقاتوں والے ڈرامے نے ایک چھابڑی والے کو بھی یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے کہ میرے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ نفسیاتی کھیل کھیلا جا رہا ہے کبھی نواز شریف کو چور بنا دیتے ہے اور کبھی فرشتہ۔ کبھی زرداری چور، کبھی کوئی۔ خدارا! رحم کیجیے اس دیس کے باسیوں پہ، آپ ہی وہ عظیم لوگ ہیں کہ اگر آج (خدانخواستہ) جنگ شروع ہو جائے تو آپ کی ایک کال پہ یہ غریب ملک کی مکین جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ پر آپ عوام کو صرف جنگی حالات کے لیے مشکل میں ڈالیں۔ سہیل وڑائچ صاحب نے ٹھیک کہا ہے کہ ”یہ کمپنی نہیں چلے گی“ کیونکہ رکشہ ڈرائیور جہاز نہیں چلا سکتا۔

رہی بات ملاقاتوں کی، پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ یہاں لیڈر نہیں، کرسی کے بھوکے لوگ ہیں۔ آپ کے پاس آتے رہے، رینگتے ہوئے، پھر جوتے بھی کھاتے ہیں کیونکہ مال بنانا ہوتا ہے۔

نواز شریف صاحب ایک سال چپ رہے، جب ان کو زبیر صاحب نے بتایا کہ گیم از اوور ٹل 2023 تو میاں صاحب تقریر لے کر آ گئے۔

کہاں گیا نظریہ؟ کیوں الو بناتے ہو؟
ڈوب مرنے کا مقام تھا خواجہ آصف صاحب کے لیے، الیکشن دھاندلی سے ہار جاتے لیکن بھیک نہ مانگتے۔
شیخ رشید صاحب بطور سینیئر سیاستدان سیاست کریں ناکہ مخبریاں۔

مولانا فضل الرحمن صاحب کے بارے میں الزام ہے کہ انہوں بے ریاستی ادارے سے زمین لی ہے۔ ملتے بھی ہیں۔ عوام سے گزارش یہ ہے کہ جو وقت ان سیاسی الوؤں کے لیے ضائع کرتے ہو۔ تعلیم، روزگار پہ لگاؤ۔

باس! ایک التجا ہے، کہنے کو دل تو نہیں کر رہا، لیکن آپشن نہیں کوئی۔ گودی میں بٹھا کے ڈرائیو کرنے کی بجائے خود ڈرائیو کر لیجیے تاکہ تاریخ میں نام تو لکھا جائے چاہے سنہرے حروف ہو یا پھر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).