غداران وطن


وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے
وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے
قانون بدلتے رہتے ہیں
اور مجرم پلتے رہتے ہیں
ان چوروں کے سرداروں سے
انصاف کے پہرے داروں سے
میں باغی ہوں، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

ڈاکٹر خالد جاوید جان نے جب یہ نظم لکھی تو نتیجے میں اپنی کافی ساری ہڈیاں بھی تڑوا بیٹھے اور کئی دن تک ہسپتال علاج کراتے رہے پھر زندان میں ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب من موجی قسم کے آدمی تھے انہیں شہرت کی بھوک نہیں تھی اسی لیے ان کی یہ نظم پہلے حبیب جالب کی سمجھی گئی اور پوری دنیا میں مقبول ہوئی۔ یہ اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف اٹھنے والی آواز تھی جو پاکستان میں آزادی سے لے کر آج تک روا رکھا جا رہا ہے اور کوئی اس پر آواز اٹھانے کی جرات نہیں کرتا۔

پاکستان کی تاریخ ہے کہ ہمارے نظریے یا سیاست سے جس نے بھی اختلاف کیا ہم نے اس پر انڈیا کا ایجنٹ، غدار کا فتوی لگا دیا اور جہاں مذہبی اختلاف آیا تو کافر کا فتوی لگا دیا۔ پاکستان کی تاریخ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پر ہم غداری کا فتوی تو نہ لگا سکے مگر ان کی بہن جسے ہم مادر ملت بھی کہتے ہیں محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار اور انڈیا کی سہولت کار کہا گیا۔ جب پوری قوم اسی غدار کے ساتھ تھی تو 1965 ء میں انڈیا کے خلاف انہیں غداروں نے ایک تاریخ رقم کی جو آج بھی زندہ ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ مل کر جنگ لڑی جو انہیں غدار کہنے والے تھے۔

قائد اعظم کے سرحدی شیر عبدالغفار خان عرف باچا خان کو غدار اور انڈیا کا ایجنٹ کہا گیا پھر بات کریں بگٹی کی جس نے بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت میں کردار ادا کیا خود قبیلے سمیت پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا مگر انہیں بھی غدار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دے کر مار دیا گیا۔ سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے کے جرم میں جی۔ ایم۔ سید کو غدار قرار دے کر زندان میں ڈال دیا۔ خان آف قلات کا بیٹا بھی غدار اور سائیکل پر میلوں سفر کر کے بنگال کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے اور باہمی مساوات کی بات کرنے پر شیخ مجیب الرحمان بھی غدار وطن ٹھہرا۔

اور پھر بھٹو بھی ملک دشمن ٹھہرا جس کو پھانسی دی گئی اور اس کی بیٹی محترمہ بے نظیر کو غدار قرار دے کر ملک بدری کی سزا دی گئی مگر تاریخ گواہ ہے اسی بے نظیر کا وطن واپسی پہ استقبال اس ملک کے عوام نے ایسا کیا کہ سب نے یک زباں ہو کر کہا کہ ”میں باغی ہوں“ ۔ پھر نواز شریف بھی ملک دشمن ٹھہرا اور جیل جانے کے بعد ملک بدر ہوا۔

جن جن لوگوں نے اس وطن عزیز کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا اور ساری زندگی اس کی آزادی اور خوشحالی کے لیے کوشاں رہے وہ سارے غدار اور جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر عوام پر ظلم کیا اور انگریز آقاؤں سے بدلے میں جاگیریں اور انعامات لیے وہ آزادی کے بعد محب وطن ہو گئے۔

ان غداران وطن کی لسٹ اتنی لمبی ہے کہ اس محدود تحریر میں لانا میرے بس کی بات نہیں۔ عبدالولی خان، خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور ایک طویل لسٹ ہے ان سیاست دانوں کی جنہیں غدار اور انڈیا کا سہولت کار بنایا اور بتایا گیا۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی کئی ادیب، شاعر، فلاسفر، صحافی، علما پر بھی غداری کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ یہ طریقہ کار ابھی تک جاری ہے اور اسی کا تسلسل ہے کہ اب حکومت نے پوری اپوزیشن کو ہی غدار وطن اور ملک دشمن کہنا شروع کر دیا ہے، مطلب یہ کہ اپوزیشن کو ووٹ دینے والے عوام بھی غدار وطن ٹھہرے۔

غرض کہ جو بھی حکمرانوں کے خلاف لکھے یا بات کرے تو یا تو وہ غائب کر دیا جاتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ کہاں غائب ہو گیا یا پھر غداری کا فتوی لگا دیا جاتا ہے۔ بقول فیض احمد فیض

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).