روانڈا نسل کشی: واٹس ایپ کے ذریعے یتیم خاتون کا اپنے اصل خاندان سے ملاپ


سنہ 1994 کے دوران روانڈا میں نسل کشی کے دوران ایک بچی دو سال کی عمر میں یتیم ہوگئی تھی۔ لیکن اب سوشل میڈیا کے ذریعے اس نے’معجزاتی طور پر’ اپنے کچھ رشتہ دار ڈھونڈ لیے ہیں۔

گریس امتونی کو اپنا پیدائشی نام معلوم نہیں تھا۔ انھوں نے اپریل میں کئی واٹس ایپ گروپس، فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنی تصاویر لگائی تھیں تاکہ وہ اپنے خاندان کے افراد کو ٹریس کر سکیں۔ سرکاری ذرائع کے ذریعے وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوئی تھیں۔

اس 28 سالہ نرس کو اپنے پس منظر کے بارے میں صرف اتنا معلوم تھا کہ انھیں اپنے چار سالہ بھائی کے ساتھ نیامریمبو شہر سے دارالحکومت کیگالی کے ایک یتیم خانے لایا گیا تھا۔ ان کا بھائی بعد میں ہلاک ہوگیا تھا۔

اس وقت گریس جیسے ہزاروں بچے تھے جو اپنے والدین کھو چکے تھے یا ان سے الگ ہوگئے تھے۔ اس نسل کشی میں 100 روز کے دوران آٹھ لاکھ سے زیادہ تتسی اور ہوتو نسلوں کے افراد مارے گئے تھے۔

کئی افراد آج بھی اپنے خاندان کا سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی کبھار یہ اس لیے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کہ روایتی طور پر یہاں کسی فیملی میں خاندانی نام کا رواج نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

روانڈا نسل کشی کی یادداشتیں منظرِعام پر

جب 100 دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا

روانڈا میں نسل کشی کے الزام میں سب سے زیادہ مطلوب ملزم فرانس میں گرفتار

جب انھوں نے تصاویر شیئر کیں تو کئی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے رشتہ دار ہیں۔ لیکن کچھ ماہ بعد ایک ایسا فرد سامنے آیا جو ممکنہ طور پر ان کے ماموں محسوس ہوئے۔

انٹونی روگاگی نے ایک واٹس ایپ گروپ میں ان کی تصاویر دیکھیں اور ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ ان کی بہن لیلوسی کاموکاما جیسی دکھتی ہیں جو اپریل 1994 کی نسل کشی کے ابتدائی دنوں میں ہلاک ہوگئیں تھیں۔

‘میں نے اس معجزے کی دعا مانگی’

گریس نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جب میں نے انھیں دیکھا، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم ایک جیسے دکھتے ہیں۔’

‘لیکن صرف ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوسکتا تھا کہ ہم رشتہ دار ہیں تو ہم نے کیگالی میں جولائی کے دوران یہ ٹیسٹ کروایا۔’

گریس جنوب میں واقع گیکنکے ضلعے گئیں جہاں وہ کام کرتی ہیں اور ان کے ممکنہ ماموں لیلوسی مغرب میں گیزنسائی میں واقع اپنے گھر سے آئے تاکہ ایک ساتھ نتائج دیکھ سکیں۔

یہ ان دونوں کے لیے ایک بڑا دن ثابت ہوا۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ یہ 82 فیصد ممکن ہے کہ وہ آپس میں رشتہ دار ہیں۔

گریس بتاتی ہیں کہ ‘میں حیران رہ گئی۔ میں خود کو اپنی خوشی ظاہر کرنے سے روک نہ سکی۔ آج بھی لگتا ہے میں خواب دیکھ رہی ہوں۔ یہ ایسا معجزہ تھا جس کے لیے میں نے دعا مانگی تھی۔’

ان کے ماموں نے انھیں بتایا کہ ان کے تتسی والدین نے انھیں ویتے ممپوریزے کا نام دیا تھا۔

انھوں نے ان کا تعارف ان کے والد کے خاندان سے بھی کرایا۔ جن میں ان کی پھوپھی میری شامل ہیں جو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سوئٹزر لینڈ میں پھنسی ہوئی تھیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سے قبل وہ طے کر چکی تھیں کہ گریس ان کی بھانجی ہیں۔ انھوں نے گریس کی تصاویر کو خاندان کی ایک پرانی ایلبم کے ساتھ رکھ کر دیکھا تھا۔

‘یہ لڑکی واضح طور پر میری بہن اور اس کے خاوند کی بیٹی تھی۔ دونوں نسل کشی میں مارے گئے تھے۔’

‘ہم سمجھے کوئی نہیں بچا تھا’

میری نے گریس کو ان کے بھائی کا پورا نام بتایا۔ اور یہ بھی کہ ان کا ایک اور بھائی فیبریس تھا جس کی عمر ایک سال تھی۔

یہ نسل کشی اس وقت شروع ہوئی تھی جب 6 اپریل 1994 کو ایک طیارہ گرایا گیا تھا جس میں روانڈا اور برونڈی کے صدر موجود تھے۔ دونوں کا تعلق ہوتو نسل سے تھا اور ان کی ہلاکتوں کے بعد مزید ہلاکتیں سامنے آئی تھیں۔

ہوتو ملیشیا کو بتایا گیا تھا کہ وہ اقلیتی نسل تتسی سے تعلق رکھنے والوں کو ڈھونڈ کر ان کا قتل کریں۔ کیگالی کے مضافات میں نیامریمبو ابتدائی متاثرہ علاقوں میں سے ایک تھا۔

لوگوں کو ان کے گھروں میں یا سڑکوں پر ناکے لگا کر چاقوؤں سے قتل کیا جاتا تھا۔ مساجد یا گرجا گھروں کی طرف بھاگنے والوں کو سڑکوں پر رکاوٹیں لگا کر پکڑا جاتا تھا۔

میری کہتی ہیں کہ انھوں نے کسی خاتون کو ان کے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر بھاگتے دیکھا تھا لیکن وہ اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں کر سکیں تھیں۔

یہ نسل کشی جولائی 1994 میں ختم ہوئی تھی جب صدر پال کوگامے اور ان کے تتسی گروہ نے اقتدار سنبھالا تھا۔

میری کے مطابق ‘ہمیں لگا کوئی نہیں بچا۔ ہم ہمیشہ سے اپریل میں اس نسل کشی کی برسی پر افسوس کرتے ہیں۔’

جب گریس پرورش پا رہی تھیں تو انھیں اپنے بھائی کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ یتیم خانہ پہنچنے کے کچھ ہی وقت بعد دم توڑ گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے۔ ان پر ہوتو ملیشیا کے افراد نے گولیاں چلائی تھیں۔

بچنے والی لڑکی کو چار سال کی عمر میں ملک کے جنوب میں واقع ایک تتسی خاندان نے گود لیا اور ان کا نام گریس رکھا۔

یہ نسل کشی جولائی 1994 میں ختم ہوئی تھی

روانڈا میں یہ نسل کشی جولائی 1994 میں ختم ہوئی تھی

‘اپنی زندگی غم میں گزار دی’

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہائی سکول میں حکام نے میری مدد کی اور وہ کیگالی کے یتیم خانے واپس گئے جہاں انھوں نے دریافت کیا کہ آیا میرے ماضی سے متعلق کوئی معلومات ہے۔ لیکن ان کے پاس کچھ نہ تھا۔’

‘میں نے اپنی زندگی غم میں گزاری ہے کیونکہ مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن میں خدا سے ایک معجزے کی دعا مانگا کرتی تھی۔’

‘تاہم یہ اچھا ہوا کہ ایک خاندان نے مجھے گود لیا۔ پھر بھی میں اپنے اصل خاندان کے بارے میں سوچتی رہی۔ میرے ذہن میں صرف میرے بھائی اور شہر کا نام تھا۔ یہ ایک کھوج شروع کرنے کے لیے بہت کم معلومات تھی۔’

وہ اب بھی اپنے والدین کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے خاندان کی ایک بڑی دعوت رُکی ہوئی ہے جس میں مزید رشتہ دار روانڈا اور دوسرے علاقوں سے موجود ہوں گے۔

وہ واٹس ایپ کے ذریعے اپنے رشتہ داروں سے مل رہی ہیں۔ انھیں پتا چلا ہے کہ کیگالی میں ان کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے۔

‘ہم اس خاندان کے شکر گزار ہیں جنھوں نے اسے گود لیا’

ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے سنہ 1995 کے بعد سے بچوں کی بڑی تعداد سمیت کوئی 20 ہزار افراد کو اپنے خاندانوں سے ملایا ہے۔

اس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘آج بھی ہمیں نسل کشی سے بچنے والوں کی جانب سے مختلف یتیم خانوں سے متعلق درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔’

سنہ 2020 کی ابتدا سے ادارے نے خاندانوں سے 99 افراد کا ملاپ کرایا ہے۔ ان افراد نے دو دہائیوں سے اپنے خاندان کو نہیں دیکھا تھا۔

میری نے گریس سے ملنے پر شکر ادا کیا ہے۔ ‘ہم اس خاندان کے شکر گزار ہیں جنھوں نے اسے ڈھونڈا، نام دیا اور پالا۔’

گریس کہتی ہیں کہ وہ اپنے اسی نام کو برقرار رکھیں گی کیونکہ زندگی کے بیشتر حصے میں انھیں اسی نام سے جانا گیا ہے۔

لیکن وہ سوشل میڈیا کی شکر گزار ہیں جس نے انھیں اپنائیت کا احساس دلایا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اب اپنے نئے خاندان سے باقاعدگی سے بات کرتی ہیں۔

‘مجھے لگتا تھا کہ میرا کوئی نہیں ہے لیکن اب میں شکر گزار ہوں کہ میرے پاس مجھے گود لینے والا اور اصل دونوں خاندان ہیں جو میرا خیال رکھتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp