جوڑو مت بس کاٹ دو


آج کل کاٹنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کاٹ کی نوعیت معمولی، گہری اور مکمل طور پہ الگ کرنا ہے۔ موجودہ کاٹ ٹرینڈ، ایک خاص جنس اور رویے کے لیے ہے۔ جس میں میری طرح کے بہت سے لوگ کاٹنے کے حق میں ہیں۔ کچھ درد دل رکھنے والے اس کاٹ کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسی کاٹ سے چیلوں کوؤں کے وزن بڑھ جائیں گے۔ لیکن معاشرے پہ اس کاٹ کا اثر نہیں ہو گا۔ قوم پہلے ذہنی طور پہ کٹ کے مفلوج ہے، بس ایک اور عذر کا اضافہ ہو جائے گا۔

ویسے تو اس قوم کو بہت سے کاٹ کی ضرورت ہے۔ جیسے زبان کی کاٹ، ہاتھ کی کاٹ۔ اب تک ہم شاید کاٹ کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکے۔ کاٹ ایسی ہونی چاہیے، جس سے خوبصورتی بڑھ جائے۔ جیسے آپ اچھے نائی سے بال کٹوائیں، تو یار لوگ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یار اتنی خوبصورت کٹنگ کہاں سے کروائی ہے۔ ہم خوشی سے اس بہترین تراش خراش کرنے والے کا پتا بتاتے ہیں۔ اسی طرح اس ملک کے باسیوں کو اچھی تراش خراش کی ضرورت ہے۔ جس میں والدین، اساتذہ، میاں بیوی، حلقہ احباب، کام کی جگہ اور باس شامل ہے ‌۔

ان میں اہم ترین مقام والدین، مسجد کے مولانا صاحب اور استاد کا ہے ‌۔ ان کی کاٹ دراصل اہم ترین مقام رکھتی ہے۔ ہمارے یہ تینوں شعبے شدید ترین بگڑ چکے ہیں۔ ہمارے اساتذہ بغیر ٹیوشن فیس لیے نالائق بچوں کو بریک ٹائم پڑھاتے تھے۔ لیکن موجودہ سرمایہ درانہ نظام تعلیمی نظام کو بری طرح تباہ کر دیا۔ پرائیویٹ سکول بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ طالب علموں کو کلائنٹس کی طرح سلوک کرتے ہیں۔ کہیں بھی تراش خراش نہیں کی جاتی۔

ہمیں یاد ہے، شکر گڑھ میں ایک ہی مسجد کے اندر شیعہ سنی نماز اور محافل، مجالس کا انعقاد کرتے تھے۔ میرے والدین نے کبھی بھی مجھے کسی بھی مکتبہ فکر کی محافل پہ جانے نہیں روکا تھا۔ اس لیے ہماری زبان ایک وقت میں محرم کی حلیم اور ختم شریف کے میٹھے نمکین چاولوں کے ذائقے کو نہیں بھولی۔ آج بھی پورے محرم ہم اہل بیت کی محبت میں گانا نہیں سنتے۔ ہم غم کے اس ماہ میں شادیاں روک لیتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملا کسی کی دل آزاری نہ کرو۔

ظلم کے خلاف ڈٹ جاؤ۔ کوئی بھی مذہبی سکالر انہیں سورہ عمران یہ آیت ( ”اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے مت پڑو۔“ ) کی روح نہیں سمجھاتا۔ نبیﷺ کی حدیث شریف ہے (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں ) ، مگر کوئی اس کی اصل تشریح نہیں بتاتا۔ انہیں زہر کا فرقہ ورانہ جام پلا کر معاشرے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ جنگل کی جھاڑیوں کی طرح ہر طرف پھیلتے جا رہے ہیں۔

جو جھاڑیاں خونخوار اژدھوں اور زہریلے ناگوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ یہ جو ہر وقت معصوم پرندوں کے شکار کی تاک میں ہیں۔ ہلکی سی اونگھ پہ ادھیڑے، نگلے جا رہے ہیں۔ گھناؤنی جھاڑیاں اس جرم کی برابر شریک ہیں۔ جو مقتول پرندوں کی لاشوں کے راز چھپا کے قاتل جانوروں کو محفوظ پناہ دیتی ہیں۔ پرندوں کے وارثین بھی مقتول پرندے پہ الزام دھرتے ہیں۔ کہتے ہیں، قصور مقتول کا ہے جو اس خونخوار جھاڑیوں میں گیا۔ مگر انہیں کوئی بتا دے، ہر پرندے کے پروں کی سکت نہیں ہوتی کہ وہ جنگل چھوڑ کے دور خوشحال باغوں کی طرف پرواز کرے۔

کچھ کے نصیب میں یہی خونخوار جنگل ہوتا ہے۔ خیر خونخوار جنگل میں نظام ہی جنگلی تو اس لیے قانونی بات کہنا اور کرنا جرم ہے۔ بس اب محکمہ زرعی ادویات کا کام ہے، کوئی ایسی دوائی بنائے جس سے یہ خونخوار جھاڑیوں کی کانٹ چھانٹ ہو سکے، جو اژدھوں کو محفوظ آماج گاہیں فراہم کرتی ہیں۔ اس کو زہر آلود سانپوں کے خلاف سنجیدہ ایکشن پلان کیا جائے۔ تا کہ یہ خونخوار جنگل خوبصورت چمن بن جائے۔ معصوم کلیاں کھلکھلائیں۔ فاختائیں چہکیں۔ باغ میں بہار آئے، تا کہ یہاں کے باسی، اسے محفوظ سمجھیں۔ دراصل شخصی، ذاتی حفاظت ہی خوشحالی کی ضامن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).