کیا آپ فرانسیسی فلسفی لوئی ایلتھوزر کی دانائی اور دیوانگی سے واقف ہیں؟



فرانسیسی فلسفی لوئی ایلتھوزر  نے اپنی سوانح عمری کے دیباچے میں ایک اعتراف کیا ہے، جس کی تلخیص اور ترجمہ حاضر ہے۔

دو تاریکیوں کے درمیان
میں ایک تاریکی سے ابھرا اور دوسری تاریکی میں ڈوب گیا۔ ان دو تاریکیوں کے درمیان جو چند لمحے تھے ان کی یادیں میرے دل کی دیواروں پر کندہ ہیں۔ میں وہ یادیں آج قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔

وہ اتوار کا دن تھا اور نومبر کی سولہ تاریخ تھی۔ صبح کے نو بجے تھے۔ خواب گاہ کی کھڑکی سے دودھیا روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ کھڑکی پر جو پردے پڑے تھے، وہ وقت اور حالات کی زد پر آ کر بوسیدہ ہو گئے تھے۔

ہیلین نے شب خوابی کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس کا کولھا بستر کے کونے پر ٹکا ہوا تھا اور اس کی ٹانگیں بستر سے لٹکی زمین پر قالین کو چھو رہی تھیں۔

میں بستر کے قریب زمین پر بیٹھا تھا اور ہیلین کی گردن کو سہلاتے ہوئے مالش کر رہا تھا۔ میں اس سے پہلے بھی ہیلین کی گردن کی مالش کرتارہا تھا تا کہ اس کے تھکے ہوئے اعصاب کو سکون مل سکے اور اکڑے ہوئے پٹھوں میں نرمی پیدا ہو۔ ماضی میں مالش گردن کے پچھلے حصے میں کیا کرتا تھا۔ لیکن اس صبح میں اس کی گردن کے سامنے حصے میں مالش کر رہا تھا۔ میں بار بار اپنے ہاتھ اس کی چھاتی سے اس کے کانوں کی طرف لے جا رہا تھا۔ میں اتنی دیر مالش کرتا رہا کہ میرے ہاتھ تھک گئے۔

پھر ہیلین بالکل ساکت ہو گئی۔ اس کی سانس رک گئی۔ اس کی زبان دانتوں سے باہر نکل آئی۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ چھت کو گھورنے لگیں۔

اچانک مجھ پر خوف سے کپکپی طاری ہو گئی۔

میں نے اپنی زندگی میں مردہ لاشیں پہلے بھی دیکھ رکھی تھیں، لیکن یہ وہ لاش تھی، جس کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا گیا تھا۔ اور پھر مجھے اچانک احساس ہوا کہ ہیلین کا گلا گھونٹنے والا میں خود تھا۔

میں زمین سے اٹھا باہر کو بھاگا اور چیخا ’میں نے ہیلین کا گلا گھونٹ دیاہے۔‘

چونکہ وہ اتوار کی صبح تھی اس لیے یونیورسٹی کے ریزیٖڈنس کی بلڈنگ میں کوئی نہ تھا۔ سب لوگ سو رہے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ڈاکٹر ایٹئین پہلی منزل میں رہتے ہیں۔ میں بھاگا بھاگا گیا اور زور زور سے ان کے دروازے پر دستک دی۔ وہ باہر آئے تو شب خوابی کے لباس میں تھے۔

میں نے چیخ کر کہا ’میں نے ہیلین کا گلا گھونٹ دیا ہے۔‘
وہ حیران ہو کر بولے ’ایسا ناممکن ہے/‘
وہ میرے ساتھ میرے کمرے میں آئے۔ ہیلین کی آنکھیں بدستور کھلی تھیں۔ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔’
ڈاکٹر ایٹئین نے ہیلین کی نبض دیکھی اور بولے ’بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ مر چکی ہے۔‘
میں نے پوچھا، ’کیا ہم اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے؟‘
انہوں نے مختصر جواب دیا: ’نہیں۔‘

پھر ڈاکٹر ایٹئین نے مجھ سے اجازت چاہی۔
شاید انہوں نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور پولیس کو فون کیا ہو۔
کچھ دیر بعد کوئی شخص آیا اور میرے کمرے سے کتابیں لے گیا شاید وہ لائبریری کی کتابیں تھیں۔
پھر ڈاکٹر نے مجھے ٹیکہ لگایا اور میں جو ایک تاریکی سے ابھرا تھا دوسری تاریکی میں ڈوب گیا
میری آنکھ کھلی تو میں کسی ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹروں نے طبی معائنے کے بعد تشخیص کی کہ لوئی التھوزر اپنا ذہنی توازن کھو چکے تھے۔ اس لیے انہیں جیل بھیجنے کی بجائے نفسیاتی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا، جہاں ان کا کئی برس تک علاج ہوا۔ علاج سے بہتر ہو کر انہوں نے اپنی سوانح عمری لکھی جس کا نام ہے:

THE FUTURE LASTS A LONG TIME

اس سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر مجھے عدالت میں پیش کیا جاتا تو مجھ سے میرے جرم کے بارے میں سوال پوچھے جاتے، جن کے مجھے جواب دینے پڑتے۔ چونکہ مجھے عدالت کی بجائے ہسپتال بھیجا گیا اور مجھے اپنے جرم کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے میں یہ سوانح عمری لکھ کر اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور ان حالات و واقعات کو رقم کرنا چاہتا ہوں، جن کا مجھے زندگی کے اس دور میں سامنا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپنی سوانح عمری میں لوئی ایلتھوزر نے اپنی اور ہیلین کی دوستی اور محبت کی کہانی تفصیل سے لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ کیسے اس محبت بھرے رشتے میں دراڑیں پڑیں۔ ’کیسے ان میں سیاسی اور نفسیاتی تضادات پیدا ہوئے‘ وہ کیسے اندر ہی اندر کڑھتے رہے ’ان تضادات کا تسلی بخش حل نہ تلاش کر سکے‘ وہ دھیرے دھیرے دیوانگی کا شکار ہو گئے اور اس دیوانگی کی حالت میں اپنی محبوبہ کا قتل کر بیٹھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لوئی ایلتھوزر ایک فرانسیسی فلاسفر تھے جو 1918ء میں الجیریا میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ساری عمر کارل مارکس کو سراہا بھی اور ان پر تنقید بھی کی۔ انہوں نے انٹونیو گرامچی کی طرح ماکسزم کی روایت میں گراں قدر اضافے بھی کیے۔ وہ فرانس کی یونیورسٹی میں ایک معتبر ’محترم اورمعزز پروفیسر تھے۔

1980ء میں لوئی ایلتھوزر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور پاگل پن کے دورے کے درمیان اپنی بیوی ہیلین کا قتل کر دیا۔ وہ کئی سال نفسیاتی ہسپتال مٰین زیر علاج رہے اور 1990ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

لوئی ایلتھوزر نے سرمایہ درانہ ریاست کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ریاست پولیس ’عدالت اور فوج کے جابرانہ REPRESSIVE STATE APPARATUSES سے اپنی بالادستی قائم کرتی ہے اور پھر سکولوں اور کالجوں کے نصابوں کے IDEOLOGICAL STATE APPRATUSES سے ایک نسل کے نظریات اگلی نسل تک منتقل کرتی ہے۔

لوئی ایلتھوزر کا خواب تھا کہ جب مزدوروں کسانوں اور غریبوں کی حکومت قائم ہو تو وہ سیاسی اور معاشی نظام کے ساتھ ساتھ نظریاتی اور تعلیمی نظام بھی بدلے، تا کہ ریاست میں ایک عادلانہ اور منصفانہ نطام قائم ہو سکے۔

لوئی ایلتھوزر اور انٹونیو گرامچی نے CULTURAL HEGEMONY کا تصور پیش کیا، جس سے سرمایہ دارانہ ریاست اپنا تسلط قائم رکھتی ہے۔

لوئی ایلتھوزر کی تخلیقات ار نظریات سے جن فلاسفروں نے استفادہ کیا، ان میں مائیکل فوکو ’جیک لاکاں اور نکوس پوپولنٹس شامل ہیں۔

ایک ماہر نفسیات اور انسان دوست ہونے کے ناتے سے میں نے لوئی ایلتھوزر کی سوانح عمری بڑے اشتیاق سے پڑھی اور جانا کہ اپنی ذہنی بیماری کے باوجود، انہوں نے کس طرح فلسفے ’معاشیات اور سیاسیات کے علوم میں گراں قدر اضافے کیے۔

لوئی ایلتھوزر اور انٹونیو گرامچی سے میرا تعارف، میرے کامریڈ دوست سید عظیم نے اپنے کینیڈا کے قیام کے دوران میں کروایا، جن کے ساتھ مل کر میں نے کتاب ‘سماجی تبدیلی’ لکھی تھی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail