رنگ برنگی ڈوریں – دو باجوہ پریواروں کی کہانی


ملک تو دو ہیں لیکن بکھیڑے لاکھ۔ زبان، مذہب، ثقافت اور زندگی، جیسے ریشم کے گچھے ہیں جو ایک دوسرے میں ایسے الجھے ہیں کہ الگ بھی نہیں ہو سکتے اور ساتھ بھی نہیں رہ سکتے۔ آزادی کے 73 برس گزرنے کے بعد بھی ایک ڈور ہے جو گورداسپور کے کبوتری دروازے کو لاہور کے ٹکسالی دروازے سے باندھتی ہے مگر جس کی تانگیں، امرتسر سے لاہور اور امریکہ سے لندن تک محسوس ہوتی ہیں۔

شاید یہ وہی ڈور ہے جو شاہ پور کے ایک کنویں میں لٹکے ڈول سے لپٹی تھی۔ گیان دھیان میں ڈوبا سادھو، ڈول ڈالتا اور آتے جاتے مسافروں کو پانی پلاتا۔ کب یہ کنواں کسی مسجد کے احاطے میں آیا اور کب وہ مسجد سفید گول مسجد کے نام سے مشہور ہوئی، اب یہ سب باتیں تو کسی کو یاد نہیں، البتہ ڈور کے ساتھ بندھے ڈول کو وہ سب دن یاد ہیں جب بے رنگ پانی، سرخ خون کے رنگ میں رنگا گیا تھا۔

کہانی کب اور کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ یہ لکھنے والا بھی نہیں جانتا، ہاں اتنا طے ہے کہ بیتنے والی بہت سی باتیں، کہنے اور سننے والوں کی محتاج رہتی ہیں۔ منظر بدل جاتے ہیں، پس منظر بدل جاتے ہیں، نہیں بدلتے تو کہنے اور سننے والوں کے درمیان کہانی کے بندھن نہیں بدلتے۔

سو دو دیسوں اور کئی پردیسوں سے جڑی، اس ڈور کی کہانی، شاید 1885 میں شروع ہوتی ہے جب مغربی پنجاب میں دریائے بیاس، ستلج اور جہلم سے نکالی نو نہروں پر برطانوی راج نے کنال کالونیوں کے نام پر رہائش اور زراعت کے فروغ کے لئے آباد کاری کا منصوبہ بنایا۔ 1902 میں اس وقت کے ضلع شاہ پور میں دریائے جہلم کے پاس، جہلم کالونی کے نام سے الاٹمنٹ کی گئی۔

وقت گزرا تو راج سرکار کی نیت بھی بدلی اور ترجیحات بھی۔ جو علاقے آباد کاری کے لئے چنے گئے تھے، وہ فوج کو مل گئے جو باقی رہ گئے، وہ گودام کے لئے اناج بھرنے میں کام آ گئے۔ ہارس اینڈ میول بریڈنگ کمیشن نے جو رپورٹ لکھی تو اس علاقے کو، جانوروں کی افزائش نسل کے لئے نہایت موزوں قرار دیا۔ معتبر زمینداروں کو اس علاقے میں گھوڑی پال مربعے عطا کیے گئے اور بڑے پیمانے میں آباد کاری کی گئی۔ سرگودھا نام کے قصبے پر نظر کرم پڑی اور آہستہ آہستہ، کرانہ کی پہاڑیوں اور جہلم کالونی کے میدانوں میں ایک ہوائی اڈے نے بھی اپنی جگہ بنا لی۔ لیکن یہ بات، ذرا بعد کی ہے۔

زمینیں الاٹ ہونے کے دوران، سیال کوٹ سے دو با اثر زمیندار خاندانوں نے بھی سرگودھا کا رخ کیا اور چک 33 جنوبی اور چک 29 جنوبی میں رہائش اختیار کی۔ اب تو یہ بات، بنیاد کا فرق ہے مگر ان وقتوں میں اسے فروعی ذکر سمجھا جاتا تھا کہ ایک خاندان، مسلمان جب کہ دوسرا پریوار، سکھ تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں خاندانوں کو اپنے اپنے گاؤں اور علاقے میں نمبرداری ملی۔ اس نظام کے تحت، حکومت کے لیے آبیانہ وصول کرنے اور پولیس کو جرائم پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے با اثر زمینداروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ خیر، سرگودھا یا اس وقت کا شاہ پور ضلع، تب گردواروں، مندروں اور مسجدوں کے لئے یکساں کشادگی رکھتا تھا، اور سکولوں یا کھیل کے میدانوں میں ہندو مسلم کے پڑھنے اور کھیلنے کی کوئی تخصیص نہ تھی۔

انہی وقتوں میں چوہدری شیر محمد باجوہ اور سردار چتر سنگھ باجوہ نے اپنی دوستی کی بنیاد رکھی۔ یوں تو دونوں خاندانوں کی مشترکہ اقدار، شرافت، بہادری اور ہنرمندی تھیں مگر نسبت کے اعتبار سے بھی کہانی، تھوڑی دور تک جاتی تھی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ سردار چھتر سنگھ باجوہ کے بڑے، سردار چیت سنگھ باجوہ، مہاراجہ رنجیت سنگھ اور کھڑک سنگھ کے خاص مشیر تھے جبکہ چوہدری شیر محمد باجوہ کے والد، چوہدری علی بخش باجوہ نے ولیم میلکم ہیلے کو سرگودھا کی آباد کاری میں وہ مشورے دیے کہ دونوں کے درمیان دیرینہ تعلق قائم رہا۔

نئے شہر کے ساتھ ساتھ، دونوں کی دوستی بھی پھلتی پھولتی رہی۔ خوشی غمی، مرگ بیاہ، تہواروں اور مقامی تقریبات میں دونوں خاندان اکٹھے ہی نظر آتے۔ دوسری طرف ہندوستان میں سیاسی اونٹ، مختلف کروٹیں بدل رہا تھا۔ جناح کے کانگریس چھوڑنے سے برطانیہ جانے اور گاندھی کی ستیہ گرہ سے نمک تحریک تک، ہندوستان کا سیاسی شعور، کئی آدرشی کشتیوں پر سواری کر رہا تھا۔

دوسری عالمی جنگ بند ہوئی تو انگریز سرکار، ہندوستان سے اور ہندوستان انگریز سرکار سے آزاد ہونے پہ آمادہ ہو چکا تھا مگر برطانوی راج، ہندوستان کا مسئلہ، ہندوستانیوں کے ذریعے ہی حل کروانا چاہتا تھا۔ کانگریس اور لیگ کے موقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناح تقسیم کے حامی نہ تھے اور تاج برطانیہ کی عمل داری میں ایسے حل پہ متفق تھے جو ایک انتظامی ریاست تشکیل دے سکے، لیکن نہرو اور پٹیل اس کے مخالف تھے، دوسری طرف ایسا موقف رکھنے والے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ کانگریس، خصوصاً گاندھی کے نظریات کے مطابق، انگریزوں کا چلے جانا اور خطے کا آزاد ہو جانا ہی مقصد تھا، تاہم جناح تقسیم سے کم پہ راضی نہ تھے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جناح، بنگال اور پنجاب کو غیر منقسم چاہتے تھے اور ان کے خیال میں یہ منتقلی اور تقسیم کا عمل شاید کسی جائیداد و ملکیت کے حصوں کی مانند، سادہ اور سہل تھا۔ لیکن بٹوارہ، زمین کا ہو یا ملکوں کا، جب اس میں ہجرت آ جائے تو بیچ کی لکیر، خون سے ہی کھینچی جاتی ہے۔

سب سے پہلا فساد بنگال میں ہوا مگر کسی موسمی وبا کی طرح، قتل عام کا یہ جنون، بہار سے ہوتے ہوتے پنجاب تک بھی پہنچ گیا۔ جو علاقے اور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ، بمبئی، آگرہ، احمد آباد، نواکھلی اور دہلی قابل ذکر ہیں۔ دونوں جانب کے باسی، اپنے اپنے آبا و اجداد کی زمینوں میں غیر محفوظ ہو گئے۔ دہائیوں سے ساتھ رہتے ہمسائیوں کی نظریں اور نیتیں بدل گئیں، دو طرفہ وحشت کے قصے نمایاں ہوئے تو گاندھی اور جناح نے تشدد کے واقعات سے پرہیز کرنے کے لیے اپیلیں کرنا شروع کر دیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تقسیم کی خبروں کی چنگاریاں شعلہ بن کر مشرقی و مغربی پنجاب پہ گر رہی تھیں اور گاؤں گاؤں آگ لگا رہی تھیں۔

یہ 1947 کے اوائل کی بات ہے کہ جب سرگودھا میں ہندوستان کی تقسیم اور انگریز سرکار کے جانے کی باتیں، ہر چوک، محلے اور چوپال میں ہونے لگیں۔ سردار چتر سنگھ باجوہ اور چوہدری شیر محمد باجوہ پر یہ انکشاف ہوا کہ اچانک ایک کی قومیت اور وطن بدل چکا ہے اور اب عقیدہ، یہ فیصلہ کرے گا کہ کس کا قیام، کہاں ہوگا۔ پنجاب میں فسادات تواتر سے ہونے لگے، علاقے، گلیاں اور عبادت گاہیں غیر محفوظ ہو گئیں۔ سرگودھا کب تک بچ سکتا تھا۔ اکا دکا واقعات شروع ہوئے تو، چتر سنگھ باجوہ کا ڈیرہ، سکھ برادری اور خاندان کے پناہ گزینوں سے بھر گیا۔ شیر محمد باجوہ اور چتر سنگھ باجوہ کا خیال تھا کہ کچھ دنوں کی بات ہے اور حالات معمول پر آ جائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ذاتی ڈیرے، نسلوں کی رہتل اور ہاتھ سے سینچی ہری بھری زمینیں، بھلا کون چھوڑ کر جا سکتا تھا؟ لیکن دونوں بے خبر تھے کہ انسان جب خود کو خود ساختہ آسمانی سپاہی سمجھ لیتا ہے تو خون بہانا بھی عبادت قرار پاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سرگودھا میں جس دن پہلی آگ نے 4 مکان اور 22 دکانیں جلائی، اس دن، بہت سے رشتے بھی راکھ ہو گئے۔ غیر مسلموں نے فضائی اڈے میں پناہ لی تو چتر سنگھ باجوہ نے بھی دل پر پتھر رکھ کر، اپنے پریوار کی جان مال اور عزت بچانے کی خاطر، منقسم پنجاب کے اس پار جانے کا فیصلہ کر لیا۔ شیر محمد باجوہ کا دل، چتر سنگھ باجوہ کی جدائی کے احساس سے سوختہ تھا، لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ پنجاب، جو اس وقت آگ و خون کا دریا بن چکا تھا، اسے پار کیسے کیا جائے۔

قافلے کٹ رہے تھے، ٹرینیں لوٹی جا رہیں تھیں اور عزتیں پامال ہو رہی تھی۔ آنے اور جانے والے راستوں کے کنویں کہیں مسلم، کہیں سکھ اور کہیں ہندو عورتوں کی لاشوں سے اٹ رہے تھے۔ یہ بات شیر محمد باجوہ تک پہنچی تو اس نے اعلان کیا کہ چتر سنگھ، اس کے بیٹے ستنام سنگھ سمیت سینکڑوں لوگوں کو وہ لائلپور کے راستے نئی نویلی سرحد پار کروانے کا بندوبست کریں گے۔ بے اعتباری کے ان دنوں میں بھی اعتماد کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف چتر سنگھ باجوہ کے اہلخانہ کے، بلکہ پورے گاؤں کے زیورات اور جائیداد کی ملکیت کے کاغذات شیر محمد باجوہ کو سونپ دیے گئے یہ وہ وقت تھا جب سفر صرف بیل گاڑیوں، گھوڑوں اور پیدل ہی ممکن تھا۔ لیکن سب سے مشکل فیصلہ، چتر سنگھ باجوہ اور اس کے پریوار کے لئے اپنے دیس، اپنی مٹی کو چھوڑنے کا تھا۔

کوئی نہیں بتا سکتا کہ ہجرت وطن کی ہو یا رشتوں کی، دلوں پر کیسے فسانے رقم کرتی ہے۔ بہرحال یہ فیصلہ لیا گیا اور پھر وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ شیر محمد باجوہ نے اپنی زبان اور دوستی کی لاج رکھی۔ قافلہ سرگودھا سے نکلا، اور امرتسر تک، راستے کی ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے لاہور بارڈر تک پہنچا۔ اس سفر میں بارہا مسلمانوں کے حملہ آور جتھوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن چتر سنگھ کا حوصلہ مانند نہیں پڑا۔ بعد میں چتر سنگھ باجوہ اور اس کے بیٹے ستنام سنگھ باجوہ نے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو لاہور سے انڈیا کے دوسرے حصوں تک، آنے جانے میں مدد کی۔

جیسے بے روح اور آہنی صنعتیں، زرخیز زرعی زمینوں کو کھا جاتی ہیں، اسی طرح دفاعی مستقر اور چھاؤنیاں بھی، شہروں کی نفسیات سے کھلا پن چھین لیتے ہیں۔ سرگودھا بھی اب کسی ’گودا کا سر‘ نہیں، شاہینوں کا نشیمن قرار پا چکا ہے۔ چتر سنگھ باجوہ اور شیر محمد باجوہ کی ان مٹ دوستی کی کہانی، جس کی کبھی مثالیں لوگ دیتے تھے، ہلال استقلال پانے والے اہالیان شہر نے بھلا دی ہے۔ نہیں بھولے تو دو نسلوں سے جڑے، پیشے، قیام، عقیدے اور قومیت سے ماورا، تیسری نسل کے دو لوگ نہیں بھولے۔

شیر محمد باجوہ کی سانسوں نے تقسیم کے بعد محض دس سال وفا کی جبکہ چتر سنگھ باجوہ کو یہ مہلت، 1974 تک ملی۔ لیکن آخری سانسوں تک یہ دونوں دوست جڑے رہے، لکھتے رہے اور ملنے کی آس میں کلپتے رہے۔ شاہ پور کے رقبوں میں پلے بڑھے یہ دو زمین زادے، جب تک جیتے رہے اپنی نسلوں کو سرگودھا کی داستانیں، تقسیم کے قصے اور یاری کی کہانیاں سناتے رہے!

وقت کا پہیہ ایسا گول گھومتا ہے کہ جوگ بجوگ کے پھول، ہار سنگھار کے پیڑ پہ کھلتے، مرجھاتے اور پھر سے کھلتے ہیں۔ ادھر، شیر محمد باجوہ کے ایک بیٹے سلیم ناصر باجوہ نے پاک سر زمین میں اپنی شاد باد زندگی گزاری اور سفر کے وسیلے، کئی ملک دیکھے، ادھر چھتر سنگھ باجوہ کے بیٹے ستنام سنگھ باجوہ نے راج نیتی سنبھالی، تین بار پنجاب میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر بھی رہے۔ سلیم باجوہ صاحب، لاہور کی آس دل میں لئے امریکہ کے کھلیانوں والے صوبے میں جنت مکانی ہوئے جبکہ ستنام سنگھ باجوہ، پنجاب کے لوگوں کو اختیار، اقتدار اور اعتدال سمجھاتے سمجھاتے، کسی اندھی گولی کا رزق ہو گئے۔

ستنام سنگھ کے قتل کے بعد ان کی مسند، ان کے بیٹے نے سنبھالی۔ آج پرتاپ سنگھ باجوہ، کانگریس کے صوبائی صدر بھی ہیں اور پنجابیوں کے حق میں اٹھنے والی ایک بلند آواز بھی۔ لوک تنتر ہو یا لوک سیوا، باجوہ برادری کی بنیاد میں انسان دوستی کا یہ استعارہ پرانے وقتوں کے جگنووں جیسا روشن ہے۔ سلیم ناصر باجوہ کے بیٹے بھی رزق، علم اور فضل کی جستجو میں آج امریکہ سے انگلستان تک نام پیدا کر چکے ہیں۔ اگلی پیڑھی میں اس پرانے تعلق کا سرا، لاہور میں پلے بڑھے، شعیب باجوہ نے تھاما ہے جو سیاسی، سماجی اور ثقافتی حلقوں میں ایک شناخت رکھتے ہیں۔ اب ایک طرف پرتاپ باجوہ ہے جو گورداسپور سے امرتسر کی کہانی لکھ رہا ہے اور دوسری طرف شعیب باجوہ ہے جو انگلستان سے گورداسپور کی کہانی لکھ رہا ہے۔

شاید تقسیم کے اس درد کی وہ ندی آج بھی دلوں میں بہتی ہے جس کے پانیوں میں کبھی شعیب اور پرتاپ، دنیا کے امور پہ گفتگو کرتے کرتے اپنے باپ دادا سے ملی یاد کی راکھ بہاتے ہیں، تو کبھی دونوں خاندانوں میں آتے جاتے کچھ تحائف، محبت کی روشنی سے سطح کو منور کیے رکھتے ہیں۔ کچھ ویسے ہی جیسے سرحد پار سے کاجو، سرگودھا شیر محمد باجوہ کے ہاں آتا رہا اور خصوصی فرمائش پر ملتان سے خصوصی منگوایا گیا کھسہ، گورداسپور میں چتر سنگھ پہن کر فخر سے گھومتا رہا۔

وقت آل انڈیا ریڈیو سے ٹویٹر تک آ گیا لیکن ان دو خاندانوں کی دوستی، عہد وفا اور تعلق نبھانے کی روایت کو تقسیم ماند کر سکی نہ وقت اور نہ فاصلے۔ پانیوں، زمینیں، رقبوں، مربعوں، راہداریوں میں بٹی یہی وہ کہانی ہے جو یار جولاہا، ڈول کی رسی میں بن دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).