امریکہ میں صدارتی مباحثوں کی تاریخ اور طریقۂ کار


واشنگٹن ڈی سی۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے درمیان صدارتی مباحثوں کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے۔ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان تین مباحثے ہوں گے جس کا پہلا اسٹیج ریاست اوہائیو کے شہر کلیو لینڈ میں منگل کو سجے گا۔

دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان 90 منٹ پر مشتمل اس مباحثے کو ٹیلی ویژن اور آن لائن پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا جائے گا جس کی میزبانی فاکس نیوز سے وابستہ صحافی کرس والس کریں گے۔
ایک اندازے کے مطابق صدر ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان مباحثے کو 10 کروڑ سے زائد افراد دیکھیں گے۔

امریکہ میں صدارتی مباحثوں کی تاریخ اور طریقۂ کار

امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل امیدواروں کے درمیان صدارتی مباحثوں کی طویل تاریخ ہے۔ یہ مباحثے نہ صرف عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اس سے اہم قومی معاملات پر امیدواروں کا نکتۂ نظر بھی ووٹرز کے سامنے آتا ہے۔

امریکی سیاست میں امیدواروں کے درمیان مباحثے کی تاریخ 162 سال پرانی ہے۔ ان مباحثوں کا آغاز 1858 میں سینیٹ کی نشست کے لیے دو امیدواروں ابراہام لنکن اور اسٹیفن ڈگلس کے درمیان ہونے والے مباحثے سے ہوا تھا۔

ابراہام لنکن سینیٹ کی نشست تو نہ جیت سکے۔ لیکن اس مباحثے میں غلامی کے خلاف دیے گئے دلائل کی کاپیاں ملک بھر میں تقسیم کی گئیں جس نے 1860 میں ان کی وائٹ ہاؤس تک رسائی آسان بنائی۔

لیکن صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کا باقاعدہ آغاز 1960 میں ہوا جب اس وقت کے ڈیمو کریٹک امیدوار جان ایف کینیڈی اور ری پبلکن امیدوار اور امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن نے اہم قومی معاملات پر اپنی پالیسی اور منشور پر ایک دوسرے کے ساتھ بحث کی جس کے بعد ہر الیکشن سے قبل یہ مباحثے روایت بن گئے۔

صدارتی امیدواروں رچرڈ نکسن اور جان ایف کینیڈی کے درمیان 1960 میں صدارتی مباحثہ ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔

اس سے قبل 1940 میں ری پبلکن صدارتی امیدوار وینڈل ولکی نے ڈیمو کریٹک صدر فرینکلن روزویلٹ کو مباحثے کے لیے چیلنج کیا تھا لیکن صدر روز ویلٹ نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

تاہم 1948 میں ری پبلکن صدارتی پرائمری مہم کے دوران دو امیدواروں تھامس ای ڈیووی اور ہیرلڈ اسٹاسن کے درمیان ریاست اوریگون میں ایک مباحثہ ہوا جسے ریڈیو پر نشر کیا گیا۔

سن 1956 میں ڈیمو کریٹک پرائمری کے مقابلوں میں صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند اڈلائی اسٹیونسن اور ایسٹاس کیفاور کے درمیان مباحثے کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔

صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کے اہتمام کی کوششیں 1956 سے جاری تھیں جس میں کامیابی 1960 میں ملی۔

عام انتخابات سے قبل صدارتی مباحثوں کا باقاعدہ آغاز کینیڈی اور نکسن کے درمیان 28 ستمبر 1960 کو ہونے والے مباحثے سے ہی ہوا۔ یہ مباحثہ ’سی بی ایس‘ ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں ہوا۔ سی بی ایس کے علاوہ ’اے بی سی‘ اور ’این بی سی‘ چینلز نے بھی مباحثوں کی میزبانی کی۔ ہر مباحثے میں مختلف صحافیوں کے پینلز نے امیدواروں سے سوالات کیے۔

لیکن 1960 کے مباحثے کے بعد ایک بار پھر 16 سال تعطل رہا اور دوبارہ 1976 میں ری پبلکن صدر جیرالڈ فورڈ اور ان کے مخالف ڈیمو کریٹک امیدوار جمی کارٹر کے درمیان مباحثوں سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

سابق امریکی صدر جارج بش سینئر اور بل کلنٹن کے درمیان 1992 میں صدارتی مباحثہ ہوا۔

صدارتی مباحثوں کی انتخابات میں اہمیت

انتخابی مہم کے دوران مباحثوں کی اگرچہ کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔

نیوز چینل پر پرائم ٹائم کے دوران براہ راست دکھائے جانے والے ان مباحثوں کے ذریعے صدارتی امیدوار کروڑوں لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ اور اپنے موؑقف کے حق میں دلائل پیش کر کے خاص طور پر ان ووٹرز کو قائل کر سکتے ہیں جو اس وقت تک کسی بھی طرف مائل نہیں ہوتے۔

اس سلسلے میں 1960 میں ہونے والے مباحثے کی اکثر مثال دی جاتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس پہلے مباحثے میں بہتر کارکردگی ہی تھی جس نے منجھے ہوئے سیاست دان رچرڈ نکسن کے مقابلے میں ایک نسبتاً کم تجربہ کار جان ایف کینیڈی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس وقت اس مباحثے کو چھ کروڑ سے زائد لوگوں نے ٹی وی اسکرینز پر دیکھا۔

جہاں تک 2020 کے مباحثوں کا تعلق ہے تو کرونا وبا کے سبب ان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں سیاست دان وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور انہیں اپنی بات ووٹرز تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بھی میسر ہیں۔

لیکن اس کے باوجود امریکی شہری ان کو روبرو ایک دوسرے کے مقابل دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

کرونا وبا کے سبب موجودہ انتخابی مہم میں عوام کے امیدواروں سے براہ راست روابط بہت ہی کم رہے۔ ایسے میں ٹی وی اسکرین پر دونوں امیدواروں کی موجودگی کو ایک اہم موقع تصور کیا جا رہا ہے۔

2008 میں ڈیمو کریٹک امیدوار براک اوباما اور ری پبلکن امیدوار جان مکین کے درمیان صدارتی مباحثہ ہوا۔

2008 میں ڈیمو کریٹک امیدوار براک اوباما اور ری پبلکن امیدوار جان مکین کے درمیان صدارتی مباحثہ ہوا۔
ماہرین کے بقول پرائمری مقابلوں کے دوران بھی ان مباحثوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام بڑی دلچسپی سے پارٹی کے امیدواروں کے نظریات اور خیالات جان کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے بقول مباحثوں کی اہمیت کی ایک حالیہ مثال ڈیموکریٹک پارٹی کی نائب صدر کی امیدوار کاملا ہیرس کا پرائمری مقابلوں میں ملکی سطح پر ایک اہم سیاست دان کے طور پر ابھرنا ہے۔

مباحثوں کی تاریخ میں خواتین کی ایک تنظیم کا اہم کردار

سن 1960 کے مباحثوں کے امریکی انتخابی مہم میں ایک سنگ میل کی حیثیت بننے کے باوجود 16 سال تک صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں میں تعطل رہا۔

سن 1976 میں ان مباحثوں کا دوبارہ آغاز ہوا اور خواتین کی لیگ آف ووٹرز نامی تنظیم نے 1976، 1980 اور 1984 میں تین مباحثوں کو اسپانسر کیا۔

سن 1976 کے صدارتی الیکشن میں اس وقت کے ری پبلکن امیدوار اس وقت کے صدر جیرالڈ فورڈ تھے جب کہ ان کے مد مقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار جمی کارٹر تھے جو اس الیکشن میں کامیاب ہو کر امریکہ کے 39 ویں صدر بنے۔

یہ مباحثہ بھی ٹی وی پر نشر کیا گیا اور اس دوران نائب صدر کے امیدواروں کے درمیان بھی ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔

لیگ آف ووٹرز نے 1988 کے صدارتی انتخابات سے قبل مباحثے کے انعقاد کے طریقۂ کار پر بعض سیاست دانوں کے اعتراضات کے بعد مباحثوں کی اسپانسر شپ سے معذرت کر لی۔

لیکن امریکی سیاست میں خواتین کی اس تنظیم کو مباحثوں کا دوبارہ آغاز کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔

لیکن 1987 میں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹی نے صدارتی مباحثے کی اسپانسر شپ کی ذمہ داری سنبھالی اور ایک غیر جانب دار کمیشن برائے صدارتی مباحثہ (سی پی ڈی) کا قیام عمل میں آیا۔

کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ صدراتی الیکشن سے قبل صدارتی اور نائب صدارت کے امیدواروں کے مابین مباحثوں کا اہتمام کرے۔

سن 1992 کا صدارتی مباحثہ منفرد رہا جس میں ری پبلکن امیدوار جارج بش سینئر اور ڈیمو کریٹک امیدوار بل کلنٹن کے علاوہ ایک تیسرے امیدوار راس پیروٹ نے بھی حصہ لیا۔

مباحثوں کا طریقۂ کار اور میزبانوں کا انتخاب

صدارتی مباحثے کے دوران امیدوار پوڈیم یا متفقہ طور پر طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جب کہ مباحثے کا میزبان جسے ماڈریٹر کہا جاتا ہے وہ امیدواروں سے سوال پوچھتا ہے۔

یہ مباحثے یونیورسٹی یا کسی بڑے تعلیمی ادارے کے ہال میں منعقد کیے جاتے ہیں جہاں محدود تعداد میں لوگوں کو بھی آنے کی اجازت ہوتی ہے۔

عام طور پر سوال و جواب کا سیشن 15، 15 منٹ کے چھ حصوں یا 10، 10 منٹ کے نو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں امیدواروں سے ملکی معاملات، خارجہ پالیسی، صحت، عدالتی نظام اور دیگر معاملات سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل تیسرے اور آخری صدارتی مباحثے کے ماڈریٹر کرس والیس رواں سال پہلے مباحثے کے ماڈریٹر ہوں گے۔

2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل تیسرے اور آخری صدارتی مباحثے کے ماڈریٹر کرس والیس رواں سال پہلے مباحثے کے ماڈریٹر ہوں گے۔
ہر سوال کے جواب کے لیے امیدوار کو دو منٹ کا وقت دیا جاتا ہے اور اس دوران مخالف امیدوار کو تردید یا اس سے متعلق جواب دینے کے لیے ایک منٹ دیا جاتا ہے۔

ماڈریٹر کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟

’سی پی ڈی‘ کی ویب سائٹ کے مطابق ماڈریٹر کے انتخاب کے وقت تین پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ماڈریٹر کی امیدواروں سے متعلق معلومات اور صدارتی مہم کے دوران زیر بحث لائے جانے والے ایشوز پر عبور کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسے براہ راست ٹیلی ویژن براڈ کاسٹنگ میں میزبانی کا وسیع تجربہ ہو اور وہ یہ یقینی بنائے کہ امیدوار مباحثے کے دوران اپنے خیالات عوام کے سامنے رکھ سکیں اور موضوعات سے نہ ہٹیں۔

مباحثے کے لیے سوالات بھی ماڈریٹر اپنے طور پر تیار کرتا ہے اور ’سی پی ڈی‘ کو بھی ان کا علم نہیں ہوتا۔ ان سوالات سے متعلق امیدواروں کو پیشگی آگاہ نہیں کیا جاتا۔

ماڈریٹر کو مباحثے سے قبل سیاسی جماعتوں کی مہم سے ملنے سے منع کیا جاتا ہے۔ 1996 سے قبل صدارتی مباحثوں میں ایک سے زیادہ ماڈریٹر ہوتے تھے تاہم بعدازاں ’سی پی ڈی‘ نے طے کیا کہ صرف ایک ماڈریٹر ہو گا تاکہ امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa