گلگت بلتستان: پاکستان کی جانب سے خطے کو صوبے کی حیثیت دینے کی تجویز اور انتخابات پر انڈیا کا احتجاج


جی بی

انڈیا کی حکومت نے پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں انتخابات کرانے اور اسے صوبے کی حیثیت دینے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس علاقے پر غیر قانونی قبضہ کر رہا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم نے رواں سال 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بارے میں خبریں دیکھی ہیں اور ہم حکومت پاکستان کے اس اعلان کی مخالفت کرتے ہیں۔‘

انڈین حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’جموں و کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان کے علاقے 1947 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت انڈیا کے لازمی حصے ہیں۔ انڈیا اس علاقے میں تبدیلیاں کرنے کی تمام کوششوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اور ایک بار پھر یہ اعادہ کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان نے اس علاقے پر غیر قانونی قبضہ کر لیا ہے۔‘

یاد رہے کہ 16 ستمبر کو اسلام آباد میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کشمیر اور گلگت بلتستان کے امور کے وزیر علی امین گنڈا پور نے یہ خبر بریک کی تھی کہ تمام فریقین کی مشاورت کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

انڈیا کے چینل دوردرشن پر گلگت بلتستان اور مظفرآباد کے موسم کی خبریں کیوں

‘گلگت بلتستان عملی طور پر صوبہ ہے قانونی طور پر نہیں’

’را گلگت بلتستان میں سی پیک کو نشانہ بنا سکتی ہے‘

اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان گلگت بلتستان میں انتخابات کرانے کی منظوری دی تھی۔

انڈیا کا مزید کہنا ہے کہ ’پاکستان کے ایسے اقدامات نہ تو متحدہ ریاست جموں و کشمیر اور لداخ پر پاکستان کی غیر قانونی قبضے کو چھپا سکتے ہیں نہ وہاں مقبوضہ علاقوں میں دہائیوں سے لوگوں کے مجروح انسانی حقوق، استحصال اور سلب شدہ آزادی کو چھپا سکتے ہیں۔‘

بیان میں انڈیا نے الزام عائد کیا کہ ’یہ اقدامات در اصل دکھاوا ہیں تاکہ یہاں کیے جانے والے غیر قانونی قبضے کی پردہ پوشی کی جائے۔ ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس علاقے سے غیر قانونی قبضہ ختم کر کے اسے خالی کر دے۔‘

https://twitter.com/ANI/status/1310838607213547520

برطانیہ سے آزادی سے قبل گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی ریاست کا ایک حصہ تھا۔ لیکن 1947 کے بعد سے یہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔

پاکستان انڈیا کے زیرانتظام جموں وکشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہاں رائے شماری کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

تاریخی پسِ منظر

تاریخی لحاظ سے گلگت بلتستان کو ریاستِ کشمیر کی نوابی ریاست کا درجہ حاصل تھا۔

تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان کے لوگوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے مقامی فوج کے خلاف لڑائی کی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد حکومتِ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے الحاق سے متعلق رائے شماری کرانی تھی جس کی بنیاد پر اِن علاقوں کے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ طے کیا جانا تھا لیکن سیاسی اور بین الاقوامی مصلحتوں کی بنیاد پر یہ کام تاحال مکمل نہیں ہو پایا ہے۔

جی بی

پاکستان میں گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت

تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن سنہ 1948 میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ گیا۔ تقریبا 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ لیکن حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔

اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔

گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے جیسا کہ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔

پہلے یہاں پر ’سٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافد تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ لیکن ستر کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے ختم کر دیا گیا۔

اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے۔

جبکہ کشمیری اس مطالبے کی پرزور مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔

کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہو گی جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔

اور ماضی میں پاکستان اسی لیے مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔

گلگت

نئی حیثیت کیا ہوگی؟

پاکستانی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کو نیا عبوری صوبہ بنانے کا اشارہ تو دیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا صوبہ کس حد تک باقی چار صوبوں کی طرح ہو گا اور کس حد تک اس کی حیثیت کو مختلف رکھا جائے گا۔

سیاسی اور سلامتی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان، پاکستان کی سلامتی کے لیے اہم ترین بن چکا ہے۔

’گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ ملک کی سلامتی مفادات کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ سی پیک کے راستے کو محفوظ کیا جائے۔ اور اس حوالے سے ضروری ہے کہ مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو اوراس علاقے پر سے سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اس بات کا قویٰ امکان ہے کہ ضم کرتے ہوئے عبوری یا عارضی قسم کے الفاظ کو استعمال کیا جائے گا تاکہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔ کشمیری اس پیشرفت سے زیادہ خوش نہیں ہوں گے لیکن پاکستان کوشش کرے گا کہ انھیں اعتماد میں لے۔ اس معاملے پر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp