ہیرو، ولن اور خواہ مخواہ


(یہ ایک غیر سیاسی کالم ہے اور مودبانہ گزارش ہے کہ اس تحریر کو کوئی سیاسی تجزیہ نہ سمجھا جائے۔ درحقیقت یہ کہانیوں بلکہ فلمی کہانیوں اور ملک کے موجودہ حالات میں مماثلت کے بارے میں ہے۔)

***        ***

کہانی کاروں بلکہ کہانی بازوں کے مطابق ہیرو، ولن اور خواہ مخواہ کسی بھی کہانی کے اہم اجزا ہوتے ہیں۔ برصغیر کی فلمی کہانیوں میں اکثر ایک سے زیادہ ہیرو ہوتے ہیں۔ ایسی ملٹی سٹارز فلموں میں حصے بخرے کر کے دو یا تین ہیرو بنا لئے جاتے ہیں اور پھر توازن کے لئے ولنز کی تعداد بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ لیکن بنیادی کہانی ہیرو اور ولن کے درمیان کشمکش ہی کا بیان ہوتا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے یہ “خواہ مخواہ” کیا ہوتا ہے؟ تو یوں سمجھیئے کہانی میں رنگ بھرنے یا کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے خواہ مخواہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ واضح رہے خواہ مخواہ ہیرو یا ولن کے ساتھ ایک پیج پر تو ہوسکتے ہیں لیکن بذات خود ہیرو یا ولن نہیں ہوتے۔ سچ پوچھیں تو فلم کا گرینجر خواہ مخواہ ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی مثال برصغیر کی فلموں کے بڑے پروڈکشن نمبر ہے۔ ایسے گانوں میں مین ڈانسر یعنی ہیرو اور ہیروئین کے علاوہ بیک گرائونڈ میں بہت سے رقاص موجود ہوتے ہیں۔ ان سب کے بغیر سکرین خالی خالی لگتی ہے۔ فلم بین زیادہ توجہ نہیں دیتے لیکن غور کریں تو وہ تمام رقاص حیران کن جوش اور جذبے کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔

برصغیر کی فلمی کہانیوں میں تماش بینوں کی تفنن طبع کے لئے کوئی کامیڈین بھی ضرور ہوتا ہے اور کامیڈین اکثر لمبی لمبی چھوڑتا ہے۔ یہ سمجھ لینا بھی اہم ہے کہ کہانی کار کے تخلیق کئے ہیرو یا ولن اور سامعین یا ناظرین یا فلم بین کے ہیرو اور ولن میں فرق ہونا خلاف واقعہ نہیں۔ مثلاً ہمارے خطے کی لازوال کہانی ’’ہیر رانجھا‘‘ میں چاچا کیدو ایک ولن ہے ۔ لیکن سیال قبیلے کے مطابق وہ ولن نہیں بلکہ غیرت مند ہیرو ہے۔ اسی طرح ہماری تاریخ کی مقبول ترین فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے ولن نوری نت اور ہیرو مولا جٹ میں فلم بینوں کے مطابق کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ برصغیر کی ایک اور کامیاب کہانی ’’شعلے‘‘ میں تین ہیرو مل کر بھی ولن گبرسنگھ کی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

سچ پوچھیں تو آج کل کے پاکستان میں کچھ فلمی سی کہانی چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ خصوصاً میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقریر اور اس کے بعد کے واقعات کی وجہ سے سارا منظر خاصا فلمی ہوگیا ہے۔ تو پھر کہانی کے ہیرو ، ولن یا خواہ مخواہ وغیرہ کون ہیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک پارلیمانی فلم ہے اور پارلیمانی سسٹم میں مرکزی ہیرو وزیراعظم ہی ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم ایک مسلمہ ہیرو ہیں۔ وحید مراد مرحوم جو کہ ایک (براؤون) چاکلیٹی ہیرو ہوا کرتے تھے کے بعد عمران ھی ہم سب کے (وائیٹ) چاکلیٹی ہیرو رہے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے ہمنوا پچھلے سالہا سال سے نواز شریف کو ایک سفاک ولن ثابت کرنے کا ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں ۔ تو مان لیتے ہیں کہ ولن نواز شریف ہیں۔ لیکن کہانی کی اس بنت میں ایک کلیدی مسئلہ ہے۔ اگر عمران خان ہیرو ہیں اور نواز شریف ولن ہیں تو پھر یہ خواہ مخواہ کون ہے؟ اسٹبلشمنٹ ۔۔۔۔۔ کیا ہم اسٹیبلشمنٹ کو خواہ مخواہ سمجھنے اور کہنے کی گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

برصغیر کی کھڑکی توڑ فلمی کہانی کا ہیرو مظلوم ہوتا ہے جو طاقتور وڈیرے یا ٹھاکر کے ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے گھر کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے ، اسے مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسے ڈھیر سارے مقدموں میں پھنسا دیا جاتا ہے اور اس کا سارا خاندان بکھر جاتا ہے اور پھر وہ مقابلے کے لئے کمر کس لیتا ہے۔ ہمارے فلم بین بھی مظلوم ہیرو کو ازحد پسند کرتے ہیں۔

کافی سال پہلے ہم دوست راولپنڈی کے سنگیت سینما میں سلطان راہی مرحوم کی ایک فلم دیکھ رہے تھے جس میں ولن گروپ اداکار ادیب مرحوم کی قیادت میں ہیرو (سلطان راہی) کے گھر میں توڑ پھوڑ کرتا ہے، ہیرو کی بہن اور والدہ کو گھر سے نکال کر آگ لگانے کی تیاری کرتا ہے تو۔۔۔ سین کٹ ہوتا ہے۔۔۔ ہیرو گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا نظر آتا ہے۔ فلم بینوں کی سیٹیاں اور تالیاں بجتی ہیں۔ سین دوبارہ واپس آتا ہے۔ ولن پارٹی گھر پر پٹرول چھڑک رہی ہوتی ہے تو پچھلی قطار میں ہمارے بالکل پیچھے ایک جذباتی فلم بین نے آواز بلند کی، ’’ اؤے۔ کرلے ظلم۔ آندھا پیا اے۔ تیرا پیو‘‘ (کرلو ظلم تمہارا باپ آرہا ہے)۔

 اس وقت ملک کی آبادی کا خاصا بڑا حصہ جو کہ نواز شریف کا حامی ہے ، انہیں ایک مظلوم ہیرو ہی سمجھتا ہے۔ اب آجائیے میاں صاحب کی تہلکہ خیز تقریر پر… انہوں نے واشگاف اسٹیبلشمنٹ کو ولن قرار دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہ وہ عمران خان کو فقط خواہ مخواہ گردانتے ھیں۔ تمام اپوزیشن جماعتی‍ں کم و بیش یہی موقف رکھتی ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن، میاں صاحب اور ان کے حامی عمران خان کو خواہ مخواہ سمجھتے ہیں۔

کہانی کی تیسری بنت شاید حقائق سے زیادہ قریب سمجھی جا سکتی ہے۔ اس سٹوری لائن کے مطابق وطن کی سجیلی اسٹیبلشمنٹ کہانی کی ہیرو ہے۔ ملک کی اکثریت اسے ایسا سمجھنے پر مائل رہتی ہے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ جاتی ہے اسے عمدہ میڈیا مینجمنٹ اور روح کو تڑپا اور قلب کو گرما دینے والے نغمات سے پورا کرلیا جاتا ہے۔ یہ ہیرو گروپ گزشتہ چند سالوں سے نہ صرف نواز شریف بلکہ دیگر سیاستدانوں کو ولن گردانتا ہے۔ اور انکی اس راۓ سے اتفاق کرلینے میں ہی سب کی خیریت ہے۔۔۔ لہٰذا اس کہانی کے مصدقہ ولن یہی ہوں گے۔

تو پیارے قارئین! کہانی بازی کے مروجہ اصولوں کے مطابق اس کہانی کے “خواہ مخواہ” کون ثابت ہوتے ہیں؟ آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ایک پارلیمانی فلم جس کے ہیرو وزیراعظم ہونے چاہیے جب ’’خواہ مخواہ‘‘ ہو جائیں تو فلم چلے تو کیسے چلے؟

اب آپ پوچھیں گے کہ اس کامیڈین کا کیا بنا… دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں کہانیوں کا کامیڈین ایک ہو سکتا ہے اور وہ کون ہے؟ یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں آپ خود سمجھدار ہیں۔ بس یہ یاد رہے کہ ہماری فلمی کہانیوں کے کامیڈین لمبی لمبی چھوڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).