بھارت: ہاتھرس جانے کی کوشش کرنے والے صحافی سمیت چار افراد گرفتار


نئی دہلی: بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں گینگ ریپ کے بعد 19 سالہ لڑکی کی ہلاکت کا معاملہ بھارت میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اترپردیش کی پولیس نے ہاتھرس جانے والے ایک صحافی سمیت چار افراد کو حراست میں لے لیا ہے جس پر صحافتی ادارے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔

حراست میں لیے جانے والوں میں ریاست کیرالہ کی ایک معروف ویب سائٹ کے دہلی میں تعینات نمائندے صدیق کپن بھی شامل ہے۔ اتر پردیش حکومت نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ صحافی کا تعلق ‘پاپولر فرنٹ آف انڈیا’ نامی تنظیم سے ہے جس پر ریاستی حکومت پابندی لگانے کی خواہاں ہے۔

پولیس نے ان چاروں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے ایک سخت قانون ‘یو اے پی اے’ اور غداری کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

گرفتار شدگان کی شناخت ملاپورم کیرالہ کے صدیق کپن، مظفر نگر کے عتیق الرحمن، بہرائچ کے مسعود احمد اور رامپور کے عالم کے نام سے ہوئی ہے۔

پولیس اہلکاروں کے مطابق ان کے پاس سے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کچھ ایسا تحریری مواد برآمد ہوا ہے جو نظم و نسق اور امن و امان کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔

ریاستی حکومت کا یہ الزام رہا ہے کہ بعض اپوزیشن جماعتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا کا ایک حلقہ اس واقعے کی آڑ میں ریاستی حکومت کو نشانہ بنا رہا ہے اور یہ گرفتاریاں اسی ضمن میں کی گئی ہیں۔

مذکورہ چاروں افراد پر دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے فنڈ مہیا کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔

صدیق کپن صحافیوں کی ایک تنظیم ‘کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس’ کی دہلی شاخ کے سکریٹری ہیں۔

تنظیم نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام ایک مکتوب میں کہا ہے کہ صدیق کپن سینئر صحافی ہیں اور اُنہیں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران گرفتار کیا گیا۔

صحافیوں کی متعدد تنظیموں نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے صحافی کو بلا تاخیر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واقعے پر بھارت میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
واقعے پر بھارت میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

دہلی یونین آف جرنلسٹس کی ایکزیکٹیو کمیٹی کے رکن اور سینئر صحافی ایم ساجد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ریاستی حکومت ہاتھرس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہے۔

اُن کے بقول حکومت کو قربانی کے بکرے کی تلاش تھی اور اب اُنہیں چار مسلمان مل گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے کوئی امید نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ مذکورہ صحافی کو بلا تاخیر رہا کیا جائے۔

پریس کلب آف انڈیا نے بھی ایک بیان جاری کر کے گرفتاری کی مذمت کی اور صحافی کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نے بھی پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری انیس احمد نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یو پی حکومت سازش کا نام لے کر ہاتھرس معاملے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔

اُن کے بقول پورے ملک نے دیکھا ہے کہ کس طرح یو پی میں نظم و نسق کی صورت حال خراب ہو چکی ہے۔

پی ایف آئی نے ایک بیان میں اس کی تصدیق کی ہے کہ عتیق الرحمن اور مسعود احمد اس کی طلبہ تنظیم ‘کیمپس فرنٹ آف انڈیا’ کے رکن ہیں۔ یاد رہے کہ ریاست میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران بھی پی ایف آئی کا نام سامنے آیا تھا۔ اس پر مظاہرین کو فنڈ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس پر نظم و نسق کو بگاڑنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جس طرح وہ سی اے اے مخالف مظاہروں سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے تھے اسی طرح اس معاملے سے بھی نمٹ لیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa