عورت تھری پیس سوٹ میں


آج کی عورت اس کوشش میں مصروف ہے کہ عورت والے سارے کام مرد سر انجام دیں یہاں تک کہ بچہ بھی مرد ہی پیدا کریں۔ اگر عورت مرد بن جائے تو حالات کچھ ایسے ہوں گے کہ ہمارے ملک کی سڑکوں پر عورت بچوں کو انگلی سے لگائے سکول چھوڑنے جا رہی ہوں گی۔ مارکیٹ سے گھر کا سودا سلف خرید رہی ہوں گی۔ نوکری بھی کر رہی ہوں گی۔ اور صاف ظاہر ہے کہ اسے جسمانی مشقت والی مزدوری بھی کرنا پڑے گی۔ مٹی، گارے، ریت اور سیمنٹ سے بھری کڑاہی اٹھا کر چوتھی منزل پرلے جا رہی ہوں گی۔

سروس سٹیشن پر گاڑی دھو رہی ہوں گی۔ بھنگی کی ملازمت بھی اسے ہی کرنا ہو گی اور بازار میں جھاڑو دے رہی ہوں گی۔ مکینک کی دکان پر چھوٹے کا کام کر رہی ہو گی۔ پنکچر لگانے کا اسے بہت شوق دکھایا جاتا ہے وہ بھی لگائے گی۔ چائے والی کی دکان پر میز کرسی لگا رہی ہو گی اور بات بات پہ گالی اور تھپڑ کا سامنا بھی کر رہی ہو گی۔ جی ٹی روڈ کے کنارے بنے چھپر ہوٹل پہ ٹرک والوں کے نخرے بھی اٹھا رہی ہو گی۔ بھٹہ خشت پر اپنے کنبے سمیت کئی سالوں کے لئے گروی بھی رکھی جائے گی۔

وڈیرے کے پاؤں بھی دبائے گی اور گالیاں بھی سنے گی۔ بغیر جوتے کے کھیتوں میں دن بھر کام بھی کرے گی۔ کھیتوں میں ہل چلا کر فصل کاشت اور برداشت کر رہی ہوں گی۔ سارا دن اسی گھن چکر میں گزار کر تھک ہار کر گھر واپس آئی گی تو پھر گھر کی پریشانیاں شروع ہو جائیں گی کسی بچے کی فیس کا مسئلہ کسی کے لباس کا کسی کی وردی کا اور کسی کے داخلے کا۔ ٹیوشن اور اکیڈمی اس سے الگ۔ بچوں کی لڑائی جھگڑے تھانے کچہری بھی اسے ہی بھگتنا ہوں گے، میدان جنگ میں گولیوں اور بندوقوں کا سامنا بھی اسے ہی کرنا ہو گا۔ تب اسے آٹے دال کا بھاؤ یاد آئے گا۔

فطرت سے جب بھی لڑائی کی جاتی ہے تو فطرت کی ہی جیت ہوتی ہے۔ جو فطری قوانین ہیں ان پر عمل کرنے سے ہی اس عالم کا نظام چل سکتا ہے۔ انسان نے جب بھی اپنی من مانی کی ہے فطرت نے اسے اٹھا کر پٹخ دیا ہے۔ یا پھر ایسی سزا دی ہے کہ انسان کے پاس اس کا مداویٰ ہی نہیں رہا۔

آپ کو کبھی اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ سخت سردی کے موسم میں یورپ اور امریکہ میں مرد نے تھری پیس سوٹ پہن رکھا ہوتا ہے اور عورت نے آدھا تن ننگا رکھنے والا لباس زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں ایسا کرنے سے ان کے خیال میں یہ عورت کی آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا عورت کی آزادی صرف اس کا آدھا جسم ننگا رکھنے سے ہی ظاہر ہو سکتی ہے؟

عجیب سی آزادی نہیں ہے یہ کہ عورت ننگی پھرے اور مرد نے دوہرا لباس پہنا ہو؟ اگر عورت مرد بننا ہی چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ مرد کو آدھا لباس پہنائے اور خود مردوں جیسا لباس زیب تن کرے۔ عورت تھری پیس پینٹ کوٹ پہنا کرے اور مرد نیکر اور شرٹ پہنے پھرتے رہیں یا پھر بغیر بازوؤں کے قمیض۔ می ٹو اور اس جیسی بہت سی دوسری تنظیموں کا جذباتی مسئلہ بھی حل ہو جائے کہ مرد ہمیں گندی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

عرصہ دراز سے یہ بات سوچ رہا ہوں کہ عورت اپنے حقوق اور آزادی کے نام پر آخر ننگا کیوں رہنا چاہتی ہے؟ میں نے جتنی بھی نسوانی حقوق والی عورتوں کو دیکھا ہے سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ لباس نہ ہی پہنا ہو تو ٹھیک ہو گا۔

عورت روزمرہ کے معاملات میں اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ مرد لیکن اپنا اپنا ایک دائرہ کار ہے جو فطرت نے مقرر کیا ہے۔ اس دائرے کو توڑنے کی کوشش میں عورت نہ صرف اپنی نسوانیت کھو دیتی ہے بلکہ معاشرے کے اندر ایک نا ہمواری بھی پیدا کر دیتی ہے۔ اس لئے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ فطرت کے بنائے ہوئے اصول پر بلا چون و چراں عمل کرے اور خود بھی خوش رے اور دوسروں کو بھی خوش رکھے۔ روایات میں تبدیلی لانا ترقی کی علامت ہوتی ہے مگر ان روایات کا گلہ گھونٹ دینا اور جدت اور بغاوت کے نام پر بد تمیزی کا چلن عام کرنا کوئی دانشوری نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).