12 اکتوبر 99 کا سنسنی خیز ڈراما


”یہ 2017 ء میں آج کے دن“ نوائے وقت ”میں شائع ہونے والا کالم ہے، جس میں جنرل شاہد عزیز نے راولپنڈی میں رد انقلاب کی سنسنی خیز کہانی سنائی تھی۔ جنرل شاہد عزیز مدتوں سے لاپتا ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوج سے لڑتے ہوئے ڈرون حملے میں شہید ہوئے۔“

‎کامل 18 برس بیت چکے ہیں، 12 اکتوبر 99 ء سے 12 اکتوبر 2017 ء تک طویل سفر تمام ہوا۔ لیکن المیہ ڈراما ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ لگائے ہوئے زخم، ہنوز ہرے ہیں۔ بہت سے کردار منظر سے ہمیشہ کے لئے محو ہو چکے ہیں، لیکن اس المیے اور طربیہ، سنسنی خیز ڈرامے کا مرکزی کردار جناب نواز شریف، آج بھی پوری طرح بروئے کار ہے۔ وہ جرنیل مشرف، ٹھمکے لگاتا، دادرے اور ٹھمریاں گاتا، چہار دانگ عالم میں پاک فوج اور پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے۔

‎رنگیلے جرنیل مشرف کو، اس بد نصیب قوم کے کندھوں پر سوار کرانے کے براۂ راست ذمہ دار جناب نواز شریف ہیں کہ شریف النفس جنرل جہانگیر کرامت سے استعفی لینے کے بعد، کینیا میں اپنے صاحب زادوں حسن اور حسین نواز کے عالمی کاروباری معاملات میں اتالیق، بینکار حمید اصغر قدوائی کی سفارش پر، جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کا انجام اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور پھر اپنے اسی چنیدہ اور پسندیدہ جرنیل کو عجیب و غریب طریقے سے بر طرف کرنے کے چکر میں، جناب نواز شریف کو سارے خاندان سمیت جلا وطنی بھگتنا پڑی۔

12 ‎اکتوبر 99 ء کی بد قسمت شام کی کہانی کو، جنرل شاہد عزیز اور کرنل اشفاق حسین (کرنل اشفاق حسین کی کہانی آپ جنرل عثمانی والے کالم میں پڑھ چکے ہیں ) نے اپنے اپنے انداز اور پیرائے میں بیان کیا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے راولپنڈی میں پاک فوج کے اجتماعی فیصلے پر عمل در آمد کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کہ کرنل اشفاق حسین نے آئی ایس پی آر کے افسر کے طور پر پی آئی اے کے جہاز کے اغوا اور پھر بحفاظت کراچی ائر پورٹ پر لینڈ نگ کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات بڑے ڈرامائی انداز میں بیان کی ہیں۔ کرنل اشفاق 12 اکتوبر کے سانحے کو کارگل کے ”مس ایڈونچر“ سے جوڑتے ہیں کہ جنرل مشرف، جنرل عزیز، جنرل محمود اور میجر جنرل عارف حسن نے کارگل تحقیقات سے بچنے کے لئے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ، بہت پہلے تیار کر لیا تھا۔ جس کے لئے جواز مشرف کی بر طرفی کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے مل گیا۔ اس کی تصدیق جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں بڑے کھلے ڈلے انداز میں بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 ء ءسے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ جنرل شاہد عزیز اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے۔ جنرل مشرف نے سری لنکا جانے سے قبل 10 کور کمانڈر جنرل محمود، سی جی ایس جنرل عزیز خان اور ڈی جی ایم او کو ذمے داری سونپ دی تھی۔ ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق اور ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی بھی اس آپریشن کا حصہ تھے، کہ کسی بھی گڑبڑ کی صورت میں حکومت کا تختہ کر دیا جائے۔ کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب ’جینٹل مین استغفراللہ‘ میں بتاتے ہیں کہ جنرل عزیز نے کور کمانڈر کراچی جنرل عثمانی کو فون پر ساری صورت احوال سے آگاہ کیا، تو جنرل عثمانی نے استفسار کیا کہ جنرل مشرف کی ہدایات کیا ہیں؟ ان پر عمل در آمد کیا جائے، جس کے ساتھ ہی پانسہ پلٹ گیا۔ اس لمحے قوم کی تقدیر کا فیصلہ 10 کور راولپنڈی کی بجائے 5 کور کراچی کا کور کمانڈر جنرل عثمانی کر رہا تھا۔ جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں، ”سر، جلدی ٹی وی لگائیں، دیکھیں کیا آ رہا ہے۔ جنرل ضیا الدین کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا ہے۔“ میرے دفتر، ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری آپریشنز سے ایک کرنل صاحب کا فون تھا۔

12 ‎اکتوبر 1999 ء کی شام 5 بج رہے تھے، میں ابھی دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا۔ فوراً واپس بھاگا، جاتے ہوئے اپنی بیگم انجم سے کہا، ”گیٹ بند کر لو اور ہاں، میرا لیپ ٹاپ بھائی کے گھر بھجوا دو۔“ اس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ساری تفصیلات پر کام کیا تھا۔ نہ جانے آج کیا ہو گا۔ گاڑی لے کر سڑک پر نکلا تو ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ مجھے خوف ہوا کہ راستے میں روک نہ لیا جاؤں۔ اگر جنرل ضیا الدین کا اندازہ تھا کہ فوج حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے، تو اس موقع پر فوج کا رد عمل لازم تھا اور یہی موقع تھا کہ کارروائی کو روکا جا سکے۔

‎ان دنوں آئی ایس آئی کے پاس ایس ایس جی کی خاصی سپاہ ہوتی تھی۔ صرف تین جرنیلوں کو ہی تو روکنا تھا۔ 9 / 11 سے پہلے فوج میں گارڈ ساتھ لے کر چلنے کا بھی رواج نہیں تھا، آسانی سے سارا معاملہ ٹھپ کیا جا سکتا تھا۔ مگر مجھے کوئی رکاوٹ، کہیں نہیں ملی۔ جنرل عزیز اور جنرل محمود گالف کھیل رہے تھے۔ وہی ٹھہرائے جا سکتے تھے۔ حکومت کو اس رد عمل کی توقع ضرور تھی، کیوں کہ اسلام آباد میں جگہ جگہ پولیس تعینات کی گئی تھی اور پولیس کی بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر موجود تھیں۔ ہم نے یہ بے وقوفی کی کہ گارڈ ساتھ نہ رکھے اور ان کے ہاتھ سے بھی سنہری موقع نکل گیا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ جتنا بھی سوچو، کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔

‎دفتر پہنچ کر جنرل عزیز کو فون کیا، پتا چلا کہ جنرل محمود 111 بریگیڈ کو ”گو‎“ کا حکم دے چکے ہیں۔ جنرل عزیز میرے دفتر پہنچے تو انہوں نے کہا کہ کراچی کے کور کمانڈر سے میں خود بات کر لوں گا۔ آپ باقی چیزیں سنبھالیں۔ یہ کہہ کر اپنے دفتر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد لوٹے، اور پھر میرے پاس ہی بیٹھ گئے۔ کبھی اٹھ کر چلے جاتے، کچھ دیر میں واپس آ جاتے۔ اس طرح ان کو بھی خبر رہتی، کیوں کہ سارا کام تو میرے دفتر ڈائریکٹریٹ آف ملٹری آپریشنز ہی سے ہو رہا تھا۔ میرے پاس فوج کا سب سے بہتر ین سٹاف تھا، جو ذرا نہ چوکتا۔ لاہور فون کیا، تو پتا چلا کہ کور کمانڈر خالد مقبول غیر حاضر ہیں۔ ڈھونڈنے پر پتا چلا کہ گوجرانوالہ گالف کھیلنے گئے ہوئے ہیں۔ کور کمانڈر جب بھی اپنے علاقے سے با ہر جاتے ہیں، CGS کو لازماً خبر ہوتی ہے، لیکن آج کسی کو ان کی لاہور سے غیر حاضری کا پتا نہیں تھا۔

گالف کورس میں بھی وہ بہت دیر نہ مل سکے۔ کور کما نڈر کوئٹہ پر بھروسا نہیں رہا تھا۔ وہاں دو ڈویژن کمانڈر تھے۔ دونوں ہی غیر حاضر اور تمام حالات سے بے خبر تھے۔ پتا چلا کہ دونوں کور کمانڈر کے ساتھ، ان کے دفتر میں بیٹھے ہیں، میٹنگ چل رہی تھی۔ یقیناً کور کمانڈر جنرل طارق پرویز کو پتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لیے کور کمانڈر نے دونوں جرنیلوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھا، تا کہ ان کو کوئی احکامات نہ مل سکیں۔ بعد میں پتا چلا کہ جنرل طارق پرویز ٹی وی دیکھتے رہے اور لگاتار لو گوں سے حالات پو چھتے رہے۔ ہمیں کوئی چارہ سمجھ نہیں آیا پھر میرے کورس میٹ بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر غضنفر سے بات کی اور صورت احوال بتائی۔ ان کو بتا یا کہ دونوں ڈویژن کمانڈروں کو کور کمانڈر نے اپنے دفتر میٹنگ کے بہانے بٹھایا ہوا ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اب یہ تمام کام آپ ہی کریں۔

اس طرح بلوچستان میں ایک غیر متعلق برگیڈئیر نے فوج کی کمانڈ سنبھالے رکھی اور بادشاہانہ جمہوریت کا چراغ گل ہو گیا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).