حامد سراج کا ناول آشوب گاہ: ایک مطالعہ


 آشوب گاہ حامد سراج کا اہم ناول ہے ناول کے دو مرکزی کردار، خلجی اور خدیجہ ہیں، جن کے درمیان محبت کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کئی معاون کردار بھی اہم ہیں جن سے بہت سی سرگوشیوں کو سنا اور روزنوں سے جھانکا جا سکتا ہے، خاص طور پہ سامری، جو ناول کے بیانیہ کو پر اسرار بنا دیتا ہے۔

ناول کے یہ کردار مختلف جگہوں، یونیورسٹی، گاؤں، شہر گھومتے ہیں، زیادہ حصہ ایک ریلوے پلیٹ فارم پہ گزرتا ہے یہی ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ خدیجہ اور خلجی کے تعلق میں جدائیاں ان کی تقدیر رہتی ہیں، وہ اپنی پھوپھی کے پاس چلی جاتی ہے خلجی کو بھٹکتے بھٹکتے سٹیشن ماسٹر کی نوکری مل جاتی ہے

البتہ خدیجہ اپنے خط لکھنے کے وعدے کو نہیں بھولتی اسی آس پہ خلجی زندگی سے جڑا رہتا ہے، اس سادہ سی محبت کی داستان کی تکمیل میں سماج سے زیادہ یہ دونوں کردار رکاوٹ رہے ہیں، شدت محبت میں وصل خوف کہ علامت بن جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خلجی اور خدیجہ مل نہ پائے، ورنہ ان کے ملنے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ تھی ناول میں ایک کردار ریحان کا بھی ہے جو خدیجہ کو شادی کی آفر کرتا ہے لیکن وہ کہتی ہے،

ریحان اب دیر ہو گئی ہے
”وہ، کیوں“
”میں خلجی کی ہو گئی ہوں“
”تمھاری شادی ہو گئی“
”نہیں“
”تو پھر“
”کسی کا ہونے کے لیے شادی ہونا ضروری؟“

خلجی ریلوے پلیٹ فارم کی بوگیوں، م اور خطوط کی سطروں میں خدیجہ کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اس کی باطنی کیفیات کا عکس ناول کے اس اقتباس سے جھلکتا ہے، اسے اپنے آپ سے جدا ہوئے اتنے برس گزر چکے تھے کہ انگلیوں کی پوروں پر اس نے برس شمار کرنے کا عمل ترک کر دیا تھا

اس کیفیت میں خلجی پہ واہمے وسوسے اور خدشات حاوی ہو جاتے، زندگی کی بے ثباتی اور موت کی حقیقت کا ادراک ہونے لگتا۔ وہ خدیجہ کے بچھڑنے منظر کو آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی خاطر بنچ پہ بیٹھا تھا کہ سامری اس کہانی میں در آیا، سامری پراسرار شخصیت ہے۔ وہ کتبے جمع کرتا ہے، غیر مرئی مقام جانتا ہے اور مقابل کی سوچ پڑھ لیتا ہے

یہاں سے خدیجہ اور خلجی کے درمیان فراق کا طویل دورانیہ شروع ہوتا ہے اور خلجی کے مقدر میں سامری کی رفاقت لکھ دی جاتی ہے خلجی پلیٹ فارم پہ چہل قدمی کرتا ہے۔ کبھی سامری کی معیت میں وقت گزارتا ہے اسی دوران خلجی کو ملازمت مل جاتی ہے وہ ایک پہاڑی ریلوے سٹیشن پہ سٹیشن ماسٹر تعینات ہوجاتا ہے، یہ پورا عرصہ، وہ خدیجہ کے خط کے انتظار، اور اس کے لفظوں لفافہ اور گلاب کی پتیوں میں اس کے عکس سے باتیں کرتا اور پھر اگلے خط کے لیے ڈاکیا، ڈاکخانہ، کی سمت دیکھتے گزار دیتا ہے، ناول کا ایک اقتباس اس کیفیت کو یوں پیش کرتا ہے

”خلجی نے اپنے بکس میں جو سامان رکھا تھا اس میں خدیجہ کے خط بھی تھے ان میں ایک خط ایسا تھا جو کیٹس بھی اپنی محبوبہ کو نہ لکھ سکا، ایسا خط زمین پر خدیجہ ہی لکھ سکتی تھی وہ خط اس کی مکمل سانس تھا۔ اس پہ کسی تاریخ کا اندراج نہیں تھا خدیجہ نے خلجی کو مخاطب کیا تھا اور نہ ہی خط کی آخری سطر میں تحریر کو سمیٹا تھا بس ایک خلا تھا۔

، کیا کروں۔ ؟ کہاں جاؤں؟ کہاں کس مقام پہ کھڑی ہو گئی ہوں اور کیوں۔ ؟ یہ سوال ہیں جن کے جواب سے میں انجان بنی اپنی بینائی کھو رہی ہوں! خیر تم سے جتنی باتیں ہوں اور۔ اور۔ اور کی پکار اندر سے اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کسی بھٹکے ہوئے دم دار ستارے کی طرح تم سے ٹکرا کر فنا ہوجاؤں۔ میں سچ مچ فنا ہوجانا چاہتی ہوں مگر ٹکرا جانے کے بعد۔ اس کے بعد بھی کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ فنا کے رستے پر کوئی یونہی تو کھڑا نہیں ہوتا ”

اس کی اور خدیجہ کی ایک اور ملاقات ہوتی ہے۔ لیکن کسی نتیجہ پہ نہیں پہنچ پاتے۔ یوں وہ پھر جدائی کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ناول کا تیسرا اہم کردار سامری خارجی اور آزاد کردار ہے، لیکن اس کی کردار کی پراسرار شخصیت اور صوفیانہ باتیں ناول کو دلچسپ اور کہانی کو مزید تہ دار بنا دیتی ہیں۔

آخری باب سے پہلے ایک مقام پر ایک اور جہان کی طرف توجہ مبذول ہوجاتی ہے جس میں عالمی تبدیلیوں اور المیوں کا ذکر ہے جس میں نہتے لوگوں پہ بمباری اور دہشت گردی کے نام پر دہشت کا ماحول ہے۔ ان سمٹتے فاصلوں میں دونوں کردار سامری اور خلجی ایک اور آفاق کی سمت چل پڑتے ہیں جس میں سامری خلجی کی توجہ سیاتہ زمین کی طرف مبذول کراتا ہے جو سرخ دکھائی دیتا ہے وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انسانی لہو سمندر میں شامل ہو گیا ہے جس سے زمین سرخ رنگ میں بدل گئی ہے۔

سامری خلجی سے مکالمہ کرتا ہے
، کیا تم زمین پر واپس جانا پسند کروگے خلجی، ؟
، ہاں ضرور،
کیوں؟
، وہاں میری خدیجہ رہتی ہے،
، ایک خدیجہ کے لیے زمین پر واپس لوٹنا چاہتے ہو؟
خلجی امیدا فزاء جواب کچھ یوں دیتا ہے۔
، سحر! جب تک زمین پت خدیجائیں ہیں، بارود کے ساتھ پھول بھی کھلتے رہیں گے۔

اسی باب میں سامری کا راز بھی فاش ہوتا ہے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی ایک عاشق تھا اس کی خدیجہ نے خود کشی کر لی تھی تب سے وہ اپنی لاش ڈھوتا پھرتا ہے۔ خلجی اپنی نوکری کے آخری برس میں خدیجہ کے خطوط پڑھتا اور اپنے بڑھاپے کی سمت بڑھتا گیا۔ اس نے اپنا کتبہ تیار کر رکھا تھا، اس مرحلے پہ لگتا ہے کہ خلجی کے پاس اپنی موت کے انتظار کے سوا کوئی اور کام نہیں تھا، لیکن اس مایوس کن کیفیت میں ایک روشنی دکھائی دیتی ہے کہ وہ موت سے زیادہ اپنی خدیجہ کے انتظار میں تھا۔ اس کی یادیں، باتیں، خط، اور اس کی قربت کا احساس، شاید موت کی یاد سے بھی پہلے اور اہم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).