چین، ایران تجارتی معاہدہ: کیا چین کے لیے ایران کی حیثیت شطرنچ پر بچھی بساط میں ایک مہرے کی سی ہے؟


چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے مشرق وسطی میں تناؤ کے خاتمے کے لیے ایک نئے فورم کے قیام کی بات کی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات کے بعد چین کے وزیر خارجہ نے اس نئے فورم کے حواے سے بات کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ایران کے لیے چین کی حمایت جاری رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔

سنیچر کے روز چین میں وانگ یی اور جواد ظریف کے مابین ہونے والی ملاقات میں ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے پر چین نے اپنے عہد کا بھی اعادہ کیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے معاملے پر امریکہ پر تنقید کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران چین اور ایران کے مابین قربت بڑھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین ایران کو اقتصادی بحران سے نکال سکتا ہے؟

’شیر اور ڈریگن’ کے درمیان معاہدے سے ایرانی ناخوش کیوں

روس، چین اور ایران امریکی انتخابات میں کس کی فتح کے خواہش مند

چین ایران دوستی

ایران مشرق وسطی کی ایک بڑی طاقت سعودی عرب کے خلاف مختلف محاذوں پر برسرپیکار ہے۔ چاہے وہ یمن کی جنگ ہو یا عراق میں بالادستی کی جنگ۔ جبکہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو سعودی عرب کی جانب سے حمایت جیسے معاملے پر بھی ایران ایک سٹینڈ لیے کھڑا ہے۔

شی جن پنگ اور ایرانی صدر

معاہدے کا اعلان سنہ 2016 میں ہوا تھا لیکن ابھی تک اس کی حتمی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں

دوسری جانب ایران کے ساتھ چین کے تعلقات ایسے وقت میں مضبوط ہو رہے ہیں جب امریکہ کے ساتھ چین کے تعلقات مستقل انداز میں زوال پذیر ہیں۔

چین اور ایران کے مابین ایک ’انتہائی حوصلہ افزا‘ معاہدہ عنقریب ہونے والا ہے۔ ایسی صورتحال میں چین اور ایران کے درمیان دوستی میں اضافہ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین اور ایران کے مابین یہ تجارتی نوعیت کا معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید گہرا اور مضبوط بنائے گا۔

ایران مشرق وسطی میں امریکہ کا سب سے بڑا ’دشمن‘ ہے اور دونوں ممالک کے مابین ایک طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔

امریکی پالیسیوں پر اثرات

اگر ایک طرف امریکہ عالمی منظرنامے سے ایران کو الگ تھلگ رکھنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے وہیں ایران کی حمایت میں چین کھڑا نظر آ رہا ہے اور دونوں کے درمیان ممکنہ معاہدے سے مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔

امریکہ میں نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں میں روس کے ساتھ چین اور ایران کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اگر یہ دونوں ممالک متحدہ ہو جاتے ہیں تو قدرتی طور پر امریکہ کی تشویش بڑھے گی۔

صدر ٹرمپ اور خامنہ ای

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے چیئرپرسن پروفیسر گلشن سچدیوا کہتے ہیں کہ ’چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سے ایک نازک موڑ پر ہیں۔ اس خطے میں تیل اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں ان کے مفادات کے بارے میں خدشات ہیں۔ چین اور امریکہ خطے میں ایک دوسرے کی بالادستی کو نہیں دیکھنا چاہتے۔‘

اٹھارہ صفحات پر مشتمل دستاویز

چین اور ایران کے مابین اس انتہائی معاہدے کی تفصیلات جولائی کے اوائل میں منظر عام پر آئیں تھیں۔

فارسی زبان میں لکھا ہوئے اور 18 صفحات پر مشتمل اس تجارتی معاہدے کا مسودہ لیک ہو گیا تھا اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسے سب سے پہلے شائع کیا تھا۔

اس مجوزہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں ممالک تجارت، معیشت، سیاست، ثقافت اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایک دوسرے کو سٹریٹجک شراکت دار سمجھیں گے۔’

یہ لیک ہونے والی دستاویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب چین اور امریکہ دونوں انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے ممالک میں ایک دوسرے کے سفارت خانے بند کیے ہیں۔

دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنوری میں امریکی ڈرون حملے میں قدس فورسز کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی قسم کھائی ہے اور 27 جولائی کو ایک سیٹیلائٹ تصویر سے پتا چلا کہ ایران نے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی مشق کے طور پر ایک نقلی امریکی بحریہ کے جہاز کو سمندر میں اتارا تھا۔

مشرق وسطی میں بالادستی کی جنگ

چین اور ایران کے باہمی اشتراک کے باعث امریکی انتظامیہ کی تشویش بڑھی ہے جبکہ چین، ایران معاہدے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق امریکی تشویش میں اضافہ ہونا فطری بات ہے۔

جے این یو کے سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ورشال گوبلے کا کہنا ہے کہ یہ تمام فساد مشرق وسطی میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔

گوبلے کہتے ہیں: ’سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس کے درمیان کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظریات کے تسلط کی جنگ تھی۔ موجودہ وقت میں بھی ویسا ہی ماحول ہے لیکن اس بار نظریات کی بالادستی کا معاملہ نہیں ہے۔‘

گوبلے کا کہنا ہے کہ چین کا طرز عمل بہت مختلف ہے۔ چین کا اصل مقصد کاروبار ہے، اسے انسانی حقوق جیسی چیزوں سے کوئی سروکار نہیں۔

چینی صدر

چین، ایران معاہدے میں کیا ہے؟

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پانچ جولائی کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران اور چین 25 سالہ معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔

لیک ہونے والے ڈرافٹ کے مطابق اس معاہدے سے توانائی، ٹرانسپورٹ، بینکنگ اور سائبر سکیورٹی جیسے شعبوں میں چین کے لیے ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔

اس مسودے میں چین اور ایران کے درمیان ہتھیاروں کی تیاری، انٹیلیجنس شیئرنگ اور مشترکہ فوجی مشق جیسے معاملات میں بھی اشتراک کے امکانات سے متعلق بات ہے۔

یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس معاہدہ سے ایران میں چین کی جانب سے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔

ایران پہلے سے ہی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) منصوبے میں شامل ہے۔ یہ منصوبہ چین کی ’ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی‘ کے خطوط پر تیار کیا گیا ہے۔

تہران

ایران میں مخالفت

چین کے ساتھ معاہدے کے باعث ایران میں اندرونی مخالفت بھی ہے۔ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد سمیت بہت سارے سیاستدان اس معاہدے کے مخالف ہیں۔

اس معاہدے پر دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کا آغاز ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے کے بعد سنہ 2016 میں ہوا تھا۔

اس وقت چینی صدر شی جن پنگ نے ایران کا تاریخی دورہ کیا تھا اور انھوں نے سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔

تاہم اس معاہدے کو ابھی تک ایران کی پارلیمان کی جانب سے منظوری نہیں ملی ہے اور نہ ہی اسے عام کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ فارسی زبان میں تحریر شدہ اس لیک ڈرافٹ کی بھی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

مائیک پومپیو

اس معاہدے پر امریکہ کا کیا رد عمل ہے؟

ٹائمز کو دیے گئے ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کر کے چین خود اپنے ’استحکام اور امن و امان‘ کو فروغ دینے کے اپنے مقصد کی نفی کر رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے متنبہ کیا ہے کہ چین اور ایران کی دوستی ’مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا کر دے گی۔‘

یہ کہا جا رہا ہے کہ چین اور ایران کے مابین ممکنہ معاہدہ سے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اثرانداز ہو گی۔

گوبلے کا کہنا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ ہے جبکہ چین اگرچہ ایران کے قریب نظر آتا ہے لیکن کسی بھی ملک سے وہ دشمنی نہیں رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چین کی پوری توجہ کاروبار پر مرکوز ہے۔‘

چین امریکہ تجارتی جنگ

کیا چین مشرق وسطی میں امریکی تسلط کو چیلنج کر رہا ہے؟

امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں سنہ 2001 سے بنائے گئے جنگی محاذ کے لیے بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ ان جنگوں میں اربوں ڈالر کے اخراجات کے ساتھ تقریبا آٹھ لاکھ افراد کی موت واقع ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہاں عدم استحکام کی حالت قائم ہے۔

پروفیسر سچدیوا کا کہنا ہے کہ ’اصل بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ کا غلبہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے تمام معاملات میں اس کی شمولیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف چین اپنی حیثیت بڑھانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ اسی لیے دونوں کے مابین ٹکراؤ بڑھتا جا رہا ہے۔‘

ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے سے ہی امریکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد بھی یہ پالیسی تبدیل نہیں ہونے والی ہے۔

گوبلے کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کو نہ صرف اپنی معیشت کی فکر ہے بلکہ اسے اپنی برتری کو برقرار رکھنے کی بھی فکر ہے۔ امریکہ کا اس پورے خطے میں لاکھوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔‘

لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اس علاقے میں خود کو مظبوط کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کے ذریعے چھوڑی ہوئی خالی جگہ کو پُر کرنا چاہتا ہے؟

پروفیسر سچدیوا کہتے ہیں: ’ابھی تک چین کی کہیں بھی اپنی فوج بھیجنے کی پالیسی نظر نہیں آ رہی ہے۔ چین دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے معاشی اور بنیادی ڈھانچے میں اضافہ کر رہا ہے۔ مشرق وسطی میں اس کے مفادات بھی انھی چیزوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین اپنے معاشی مفادات تک ہی محدود رہے گا اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوجی موجودگی کم کردے تو وہ مشرق وسطی میں اپنی فوج تعینات کرے گا۔‘

تاہم گوبلے کہتے ہیں کہ ’ایسی اطلاعات ہیں کہ چین نے شام کے لیے اپنی ایک خصوصی بٹالین بھیجی تھی۔ اس طرح وہ مستقبل قریب میں وہاں اپنی تعیناتی بڑھانے کا فیصلہ کر سکتا ہے اگرچہ یہ بہت ہی محدود پیمانے پر کیوں نہ ہو۔‘

چین اور امریکہ کے صدور

کیا امریکہ مشرق وسطی سے نکلنا چاہتا ہے؟

پروفیسر سچدیوا کہتے ہیں کہ ’ابھی تک امریکہ کی تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھنے میں دلچسپی تھی۔ لیکن شیل گیس اور دیگر دریافتوں کے بعد امریکہ تیل کا باضابطہ برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ اس کا تیل پر انحصار کم ہوا ہے اور اس طرح مشرق وسطی پر بھی انحصار میں کمی آئی ہے اور امریکہ کے لیے اس خطے کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف چین کے لیے تیل کا بڑا وسیلہ مشرق وسطیٰ ہے۔‘

امریکہ اور چین کے مابین موجودہ جیو پولیٹیکل کشیدگی کے دور میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ایران کو الگ تھلگ کرنے کے امریکی ایجنڈے کے سامنے چین جُھکے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ چین پہلے ہی ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ وہ ایران سے تیل کے ساتھ دوسری اشیا کی مستقل طور پر خریداری کر رہا ہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ ایران کو ٹرمپ انتظامیہ کے جبڑوں سے نکالنے کی کوشش کے تحت چین یہ اقدامات کررہا ہے۔

حالانکہ ایران پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیاں اسے اپنے جوہری پروگرام پر مزید پابندیوں پر عمل در آمد کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم ان کا اثر یہ ہوا ہے کہ ایران کی معیشت بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔

ایران اور چین اگلے چند مہینوں میں ممکنہ طور پر اس معاہدے پر دستخط کریں گے۔ ایران کے لیے یہ معاہدہ ایک نئی زندگی کی طرح ہوگا۔ خاص طور پر اگر ٹرمپ کو دوسری بار منتخب کیا جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں یہ معاہدہ ایران کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔

دوسری طرف چین کے لیے ایران شطرنج کی بچھی بڑی بساط پر محض ایک مہرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp